‌صحيح البخاري - حدیث 5105

كِتَابُ النِّكَاحِ بَابُ مَا يَحِلُّ مِنَ النِّسَاءِ وَمَا يَحْرُمُ صحيح وقال لنا أحمد بن حنبل حدثنا يحيى بن سعيد، عن سفيان، حدثني حبيب، عن سعيد، عن ابن عباس، حرم من النسب سبع، ومن الصهر سبع‏.‏ ثم قرأ ‏{‏حرمت عليكم أمهاتكم‏}‏ الآية‏.‏ وجمع عبد الله بن جعفر بين ابنة علي وامرأة علي‏.‏ وقال ابن سيرين لا بأس به‏.‏ وكرهه الحسن مرة ثم قال لا بأس به‏.‏ وجمع الحسن بن الحسن بن علي بين ابنتى عم في ليلة، وكرهه جابر بن زيد للقطيعة، وليس فيه تحريم لقوله تعالى ‏{‏وأحل لكم ما وراء ذلكم‏}‏ وقال عكرمة عن ابن عباس إذا زنى بأخت امرأته لم تحرم عليه امرأته‏.‏ ويروى عن يحيى الكندي عن الشعبي وأبي جعفر، فيمن يلعب بالصبي إن أدخله فيه، فلا يتزوجن أمه، ويحيى هذا غير معروف، لم يتابع عليه‏.‏ وقال عكرمة عن ابن عباس إذا زنى بها لم تحرم عليه امرأته‏.‏ ويذكر عن أبي نصر أن ابن عباس حرمه‏.‏ وأبو نصر هذا لم يعرف بسماعه من ابن عباس‏.‏ ويروى عن عمران بن حصين وجابر بن زيد والحسن وبعض أهل العراق تحرم عليه‏.‏ وقال أبو هريرة لا تحرم حتى يلزق بالأرض يعني يجامع‏.‏ وجوزه ابن المسيب وعروة والزهري‏.‏ وقال الزهري قال علي لا تحرم‏.‏ وهذا مرسل‏.‏

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 5105

کتاب: نکاح کے مسائل کا بیان باب: کونسی عورتیں حلال اور کونسی حرام ہیں اور امام احمد بن حنبل نے مجھ سے کہا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا ، انہوں نے سفیا ن ثوری سے ، کہا مجھ سے حبیب بن ابی ثابت نے بیان کیا ، انہوں نے سعید بن جبیر سے ، انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ، انہوں نے کہا خون کی روسے تم پر سات رشتے حرام ہیں اور شادی کی وجہ سے ( یعنی سسرال کی طرف سے ) سات رشتے بھی ۔ انہوں نے یہ آیت پڑھی ۔ حرمت علیکم امہاتکم آخر تک اور عبد اللہ بن جعفر بن ابی طالب نے علی رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی زینب اور علی کی بی بی ( لیلٰی بنت مسعود ) دونوںسے نکاح کیا ، ان کو جمع کیا اور ابن سیرین نے کہا اس میں کوئی قباحت نہیں ہے اور امام حسن بصری نے ایک بار تو اسے مکروہ کہا پھر کہنے لگے اس میں کوئی قباحت نہیں ہے اور حسن بن حسن بن علی بن ابی طالب نے اپنے دونوں چاچاؤں ( یعنی محمد بن علی اور عمروبن علی ) کی بیٹیوں کو ایک ساتھ میں نکاح میں لے لیا اور جابر بن زید تابعی نے اس کو مکروہ جانا ، اس خیال سے کہ بہنوںمیں جلا پانہ پیدا ہو مگر یہ کچھ حرام نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرما یا کہ ان کے سوااور سب عورتیں تم کو حلال ہیں اور عکرمہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہماسے روایت کیا اگر کسی نے اپنی سالی سے زنا کیا تواس کی بیوی ( سالی کی بہن ) اس پر حرام نہ ہوگی اور یحییٰ بن قیس کندی سے روایت ہے ، انہوں نے شعبی اور جعفر سے ، دونوںنے کہا اگر کوئی شخص لواطت کرے اور کسی لونڈے کے دخول کردے تو اب اس کی ماں سے نکاح نہ کرے اور یحییٰ راوی مشہور شخص نہیں ہے اور نہ کسی اور نے اس کے ساتھ ہو کر یہ روایت کی ہے اور عکرمہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کی کہ اگر کسی نے اپنی ساس سے زنا کیا تو اس کی بیوی اس پر حرام نہ ہو گی اور ابو نصر نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کی کہ حرام ہوجائے گی اور اس راوی ابو نصر کا حال معلوم نہیں ۔ اس نے ابن عباس سے سنا ہے یا نہیں ( لیکن ابوزرعہ نے اسے ثقہ کہا ہے ) اور عمر ان بن حصین اور جابر بن زید اور حسن بصری اور بعض عراق والوں ( امام ثوری اوراما م ابو حنیفہ رحمہ اللہ ) کا یہی قول ہے کہ حرام ہوجائے گی اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا حرام نہ ہوگی جب تک اس کی ماں ( اپنی خوشدامن ) کو زمین سے نہ لگا دے ( یعنی اس سے جماع نہ کرے ) اور سعید بن مسیب اور عروہ اور زہری نے اس کے متعلق کہا ہے کہ اگر کوئی ساس سے زنا کرے تب بھی اس کی بیٹی یعنی زنا کرنیوالے کی بیوی اس پر حرام نہ ہوگی ( اس کو رکھ سکتا ہے اور زہری نے کہا علی رضی اللہ عنہ نے فرما یا اس کی جورو اس پر حرام نہ ہو گی اور یہ روایت منقطع ہے ۔