كِتَابُ النِّكَاحِ بَابُ كَثْرَةِ النِّسَاءِ صحيح حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحَكَمِ الْأَنْصَارِيُّ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ رَقَبَةَ عَنْ طَلْحَةَ الْيَامِيِّ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ قَالَ قَالَ لِي ابْنُ عَبَّاسٍ هَلْ تَزَوَّجْتَ قُلْتُ لَا قَالَ فَتَزَوَّجْ فَإِنَّ خَيْرَ هَذِهِ الْأُمَّةِ أَكْثَرُهَا نِسَاءً
کتاب: نکاح کے مسائل کا بیان
باب: بیک وقت کئی بیویاں رکھنے کے بارے میں
ہم سے علی بن حکم انصاری نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابو عوانہ نے بیان کیا ، ان سے رقبہ نے ، ان سے طلحہ الیامی نے ، ان سے سعید بن جبیر نے بیان کیا کہ مجھ سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے دریافت فرمایا کہ تم نے شادی کرلی ہے ؟ میں نے عرض کیا کہ نہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا شادی کرلو کیونکہ اس امت کے بہترین شخص جو تھے ( یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ) ان کی بہت سی بیویاں تھیں ۔ بعضوں نے یوں ترجمہ کیا ہے کہ اس امت میں اچھے وہی لوگ ہیں جن کی بہت عورتیں ہوں ۔
تشریح :
حد شرعی کے اندر بیک وقت چار عورتیں رکھی جاسکتی ہیں بشرطیکہ ان میں انصاف کیا جاسکے ورنہ صرف ایک ہی بیوی چاہئے۔ بعضوں نے یوں ترجمہ کیا ہے اس امت میں اچھے وہی لوگ ہیں جن کی عورتیں بہت ہوں۔ جن کا مطلب حد شرعی کے اندراندر ہے کہ اگر ایک مرد کو اگر ضرورت ہو اور وہ انصاف کے ساتھ سب کی دل جوئی کر سکے اور حق حقوق ادا کر دے تو صرف چار عورتوں کی اجازت ہے چار سے زائد بیک وقت نکاح میں رکھنا اسلام میں قطعاحرام ہے۔ بلکہ قرآن مجید نے صاف اعلان کیا ہے وان خفتم ان لا تعدلوا فواحدۃ اگر تم کو ڈر ہوکہ انصاف نہ کرسکوگے توبس صرف ایک ہی عورت پر اکتفا کرو۔ اس صورت میں ایک سے زیادہ ہرگز نہ رکھو۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر کے آخری حصہ میں بیک وقت اپنے گھر میں نو بیویاں رکھی تھیں ، یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیات میں سے ہے اس سے کوئی یہ سمجھے کہ آپ کی نیت شہوت رانی یا عیاشی کی تھی تو ایسا سمجھنا بالکل غلط ہے کیونکہ عین شباب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بوڑھی عورت حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا پر قناعت کی تھی اخیر وقت میں نو بیویاں رکھنے میں دینی و دنیاوی بہت سے مصالح تھے جن کی تفصیل ملاحظہ کرنے کے شائقین اس مقام پر شرح وحیدی کا مطالعہ فرمائیں۔ نو کی تعداد میں کئی بوڑھی بیوہ عورتیں تھیں جن کی محض ملی مفادکے تحت آپ نے نکاح میں قبول فرمالیا تھا۔
حد شرعی کے اندر بیک وقت چار عورتیں رکھی جاسکتی ہیں بشرطیکہ ان میں انصاف کیا جاسکے ورنہ صرف ایک ہی بیوی چاہئے۔ بعضوں نے یوں ترجمہ کیا ہے اس امت میں اچھے وہی لوگ ہیں جن کی عورتیں بہت ہوں۔ جن کا مطلب حد شرعی کے اندراندر ہے کہ اگر ایک مرد کو اگر ضرورت ہو اور وہ انصاف کے ساتھ سب کی دل جوئی کر سکے اور حق حقوق ادا کر دے تو صرف چار عورتوں کی اجازت ہے چار سے زائد بیک وقت نکاح میں رکھنا اسلام میں قطعاحرام ہے۔ بلکہ قرآن مجید نے صاف اعلان کیا ہے وان خفتم ان لا تعدلوا فواحدۃ اگر تم کو ڈر ہوکہ انصاف نہ کرسکوگے توبس صرف ایک ہی عورت پر اکتفا کرو۔ اس صورت میں ایک سے زیادہ ہرگز نہ رکھو۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر کے آخری حصہ میں بیک وقت اپنے گھر میں نو بیویاں رکھی تھیں ، یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیات میں سے ہے اس سے کوئی یہ سمجھے کہ آپ کی نیت شہوت رانی یا عیاشی کی تھی تو ایسا سمجھنا بالکل غلط ہے کیونکہ عین شباب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بوڑھی عورت حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا پر قناعت کی تھی اخیر وقت میں نو بیویاں رکھنے میں دینی و دنیاوی بہت سے مصالح تھے جن کی تفصیل ملاحظہ کرنے کے شائقین اس مقام پر شرح وحیدی کا مطالعہ فرمائیں۔ نو کی تعداد میں کئی بوڑھی بیوہ عورتیں تھیں جن کی محض ملی مفادکے تحت آپ نے نکاح میں قبول فرمالیا تھا۔