كِتَابُ فَضَائِلِ القُرْآنِ بَابُ إِثْمِ مَنْ رَاءَى بِقِرَاءَةِ القُرْآنِ أَوْ تَأَكَّلَ بِهِ أَوْ فَخَرَ بِهِ صحيح حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ أَخْبَرَنَا مَالِكٌ عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ الْحَارِثِ التَّيْمِيِّ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ يَخْرُجُ فِيكُمْ قَوْمٌ تَحْقِرُونَ صَلَاتَكُمْ مَعَ صَلَاتِهِمْ وَصِيَامَكُمْ مَعَ صِيَامِهِمْ وَعَمَلَكُمْ مَعَ عَمَلِهِمْ وَيَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ حَنَاجِرَهُمْ يَمْرُقُونَ مِنْ الدِّينِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنْ الرَّمِيَّةِ يَنْظُرُ فِي النَّصْلِ فَلَا يَرَى شَيْئًا وَيَنْظُرُ فِي الْقِدْحِ فَلَا يَرَى شَيْئًا وَيَنْظُرُ فِي الرِّيشِ فَلَا يَرَى شَيْئًا وَيَتَمَارَى فِي الْفُوقِ
کتاب: قرآن کے فضائل کا بیان
باب: دکھاوے شکم پروری یا فخر کے لئے قرآن پڑھا
ہم سے عبد اللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا ، کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی ، انہیں یحییٰ بن سعید انصاری نے ، انہیں محمد بن ابراہیم بن حارث تیمی نے ، انہیں ابوسلمہ بن عبد الرحمن نے اور ان سے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں ایک قوم ایسی پیداہوگی کہ تم اپنی نماز کو ان کی نماز کے مقابلہ میں حقیر سمجھو گے ، ان کے روزوں کے مقابلہ میں تمہیں اپنے روزے اور ان کے عمل کے مقابلہ میں تمہیں اپنا عمل حقیر نظر آئے گا اوروہ قرآن مجید کی تلاوت بھی کریں گے لیکن قرآن مجید ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا ۔ دین سے وہ اس طرح نکل جائےں گے جیسے تیر شکار کو پار کرتے ہوئے نکل جاتا ہے اور وہ بھی اتنی صفائی کے ساتھ ( کہ تیر چلانے والا ) تیر کے پھل میں دیکھتا ہے تو اس میں بھی ( شکار کے خون وغیر ہ کا ) کوئی اثر نظر نہیں آتا ۔ اس سے اوپر دیکھتا ہے وہاں بھی کچھ نظر نہیں آتا ۔ تیر کے پر پر دیکھتا ہے اور وہاں بھی کچھ نظر نہیں آتا ۔ بس سوفار میں کچھ شبہ گزر تا ہے ۔
تشریح :
سوفار تیر کا وہ مقام جو چلہ سے لگایا جاتا ہے بعضوں نے یوں ترجمہ کیا ہے راوی کو شک ہے کہ آپ نے سوفار کا ذکر کیا یا نہیں۔ معنی حدیث کا خلاصہ یہ ہے کہ جس طرح تیر شکار کو لگتے ہی باہر نکل جاتا ہے۔ وہی حال ان لوگوں کا ہوگا کہ اسلام میں آتے ہی باہر ہو جائیں گے اور جس طرح تیر شکار کے خون وغیرہ کا بھی کوئی اثر محسوس نہیں ہوتا وہی حال ان کی تلاوت کا ہوگا۔ مراد ان سے خوارج ہیں جنہوں نے خلیفہ برحق حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف علم بغاوت بلند کیا تھا۔ ظاہر میں بڑی دینداری کا دم بھر تے تھے لیکن دل میں ذرا بھی نور ایمان نہ تھا۔ ان ہی کے بارے میں حدیث ہذا میں یہ مضمون بیان ہوا۔ آج کل بھی ایسے لوگ بہت ہیں جو بے محل آیات قرآنی کا استعمال کر کے امت کے مسلمہ مسائل کے خلاف لب کشائی کرتے ہیں۔ وہ در حقیقت اس حدیث کے مصداق ہیں۔
سوفار تیر کا وہ مقام جو چلہ سے لگایا جاتا ہے بعضوں نے یوں ترجمہ کیا ہے راوی کو شک ہے کہ آپ نے سوفار کا ذکر کیا یا نہیں۔ معنی حدیث کا خلاصہ یہ ہے کہ جس طرح تیر شکار کو لگتے ہی باہر نکل جاتا ہے۔ وہی حال ان لوگوں کا ہوگا کہ اسلام میں آتے ہی باہر ہو جائیں گے اور جس طرح تیر شکار کے خون وغیرہ کا بھی کوئی اثر محسوس نہیں ہوتا وہی حال ان کی تلاوت کا ہوگا۔ مراد ان سے خوارج ہیں جنہوں نے خلیفہ برحق حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف علم بغاوت بلند کیا تھا۔ ظاہر میں بڑی دینداری کا دم بھر تے تھے لیکن دل میں ذرا بھی نور ایمان نہ تھا۔ ان ہی کے بارے میں حدیث ہذا میں یہ مضمون بیان ہوا۔ آج کل بھی ایسے لوگ بہت ہیں جو بے محل آیات قرآنی کا استعمال کر کے امت کے مسلمہ مسائل کے خلاف لب کشائی کرتے ہیں۔ وہ در حقیقت اس حدیث کے مصداق ہیں۔