كِتَابُ فَضَائِلِ القُرْآنِ بَابُ مَنْ قَالَ: «لَمْ يَتْرُكِ النَّبِيُّ ﷺ إِلَّا مَا بَيْنَ الدَّفَّتَيْنِ» صحيح حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ رُفَيْعٍ قَالَ دَخَلْتُ أَنَا وَشَدَّادُ بْنُ مَعْقِلٍ عَلَى ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فَقَالَ لَهُ شَدَّادُ بْنُ مَعْقِلٍ أَتَرَكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ شَيْءٍ قَالَ مَا تَرَكَ إِلَّا مَا بَيْنَ الدَّفَّتَيْنِ قَالَ وَدَخَلْنَا عَلَى مُحَمَّدِ بْنِ الْحَنَفِيَّةِ فَسَأَلْنَاهُ فَقَالَ مَا تَرَكَ إِلَّا مَا بَيْنَ الدَّفَّتَيْنِ
کتاب: قرآن کے فضائل کا بیان
باب: جو قرآن ترکہ میں چھوڑا وہ سب مصحف میں۔۔۔
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا ‘ ان سے عبد العزیز بن رفیع نے بیان کیا کہ میں اور شداد بن معقل ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس گئے ۔ شداد بن معقل نے ان سے پوچھا کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس قرآن کے سوا کوئی اور بھی قرآن چھوڑا تھا ۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہما نے کہا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ( وحی متلو ) جو کچھ بھی چھوڑی ہے وہ سب کی سب ان دو دفتیوں کے درمیان صحیفہ میں محفوظ ہے عبد العزیز بن ربیع کہتے ہیں کہ ہم محمد بن حنیفہ کی خدمت میں بھی حاضر ہوئے اور ان سے بھی پوچھا تو انہوں نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو بھی وحی متلو چھوڑی وہ سب دو دفتیوں کے درمیان ( قرآن مجید کی شکل میں ) محفوظ ہے ۔
تشریح :
حضرت امام بخاری نے یہ دونوں اثر لاکران لوگوں کا رد کیا ہے جوکہتے ہیں کہ قرآن شریف میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی امامت کا ذکر اترا تھا مگر ان آیات کو صحابہ نے نکال ڈالا۔ جب عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی ہیں اور محمد بن حنیفہ کو جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے ہیں ان باتوں کی خبر نہ ہو تو اور لوگوں کو کیسے معلوم ہوسکتی ہے ، معلوم ہوا کہ رافضیوں کا گمان غلط ہے ( وحیدی )
اس سے ان رافضیوں کا رد منظور ہے جو کہتے ہیں یہ پورا قرآن نہیں ہے کئی سورتیں جو حضرت علی اور اہل بیت رضی اللہ عنہم کی فضیلت میں اتری تھیں معاذ اللہ صحابہ نے ان کو نکال ڈالا ہے اور ایک شیعہ نے اپنی ایک کتاب میں ایک سورت حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نام موسوم کرکے سورہ علی کے نام نقل کر ڈالی اس کا شروع یہ ہے یا ایھا الذین آمنو آمنو ابالنورین انزلنا ھما یتلوان علیکم آیاتی و یحذرانکم عذاب یوم عظیم الخمعا ذاللہ یہ ساری عبارت بالکل مہمل ہے جسے دیکھنے ہی سے اس کے گھڑنے والے کی حماقت معلوم ہوتی ہے۔ آج کل بھی بہت سے شیعہ حضرا ت اوہام باطلہ میں گرفتار ہیں جن کا خیال ہے کہ قرآن شریف کے دس پارے غائب کردئے گئے ہیں نعوذ باللہ من ھذہ الانحرافات۔
حضرت امام بخاری نے یہ دونوں اثر لاکران لوگوں کا رد کیا ہے جوکہتے ہیں کہ قرآن شریف میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی امامت کا ذکر اترا تھا مگر ان آیات کو صحابہ نے نکال ڈالا۔ جب عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی ہیں اور محمد بن حنیفہ کو جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے ہیں ان باتوں کی خبر نہ ہو تو اور لوگوں کو کیسے معلوم ہوسکتی ہے ، معلوم ہوا کہ رافضیوں کا گمان غلط ہے ( وحیدی )
اس سے ان رافضیوں کا رد منظور ہے جو کہتے ہیں یہ پورا قرآن نہیں ہے کئی سورتیں جو حضرت علی اور اہل بیت رضی اللہ عنہم کی فضیلت میں اتری تھیں معاذ اللہ صحابہ نے ان کو نکال ڈالا ہے اور ایک شیعہ نے اپنی ایک کتاب میں ایک سورت حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نام موسوم کرکے سورہ علی کے نام نقل کر ڈالی اس کا شروع یہ ہے یا ایھا الذین آمنو آمنو ابالنورین انزلنا ھما یتلوان علیکم آیاتی و یحذرانکم عذاب یوم عظیم الخمعا ذاللہ یہ ساری عبارت بالکل مہمل ہے جسے دیکھنے ہی سے اس کے گھڑنے والے کی حماقت معلوم ہوتی ہے۔ آج کل بھی بہت سے شیعہ حضرا ت اوہام باطلہ میں گرفتار ہیں جن کا خیال ہے کہ قرآن شریف کے دس پارے غائب کردئے گئے ہیں نعوذ باللہ من ھذہ الانحرافات۔