كِتَابُ فَضَائِلِ القُرْآنِ بَابُ القُرَّاءِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ صحيح حَدَّثَنَا صَدَقَةُ بْنُ الْفَضْلِ أَخْبَرَنَا يَحْيَى عَنْ سُفْيَانَ عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ عُمَرُ أُبَيٌّ أَقْرَؤُنَا وَإِنَّا لَنَدَعُ مِنْ لَحَنِ أُبَيٍّ وَأُبَيٌّ يَقُولُ أَخَذْتُهُ مِنْ فِي رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَا أَتْرُكُهُ لِشَيْءٍ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى مَا نَنْسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنْسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِنْهَا أَوْ مِثْلِهَا
کتاب: قرآن کے فضائل کا بیان
باب: صحابہ میں قرآن کے قاری کون کون تھے؟
ہم سے صدقہ بن فضل نے بیان کیا ، کہا ہم کو یحییٰ بن سعید قطان نے خبردی ، انہیں سفیان ثوری نے ، انہیں حبیب بن ابی ثابت نے ، انہیں سعید بن جبیر نے اور ان سے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا ، ابی بن کعب ہم میں سب سے اچھے قاری ہیں لیکن ابی جہاں غلطی کرتے ہیں اس کو ہم چھوڑ دیتے ہیں ( وہ بعض منسوخ التلاوۃ آیتوں کو بھی پڑھتے ہیں ) اور کہتے ہیں کہ میں نے تو اس آیت کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ مبارک سے سنا ہے ، میں کسی کے کہنے سے اسے چھوڑنے والا نہیں اور اللہ نے خود فرمایا ہے کہ ماننسخ من آیۃ اوننسھا الآیۃ یعنی ہم جب کسی آیت کو منسوخ کر دیتے ہیں پھر یا تو اسے بھلا دیتے ہیں یا اس سے بہتر لاتے ہیں ۔
تشریح :
گویا اس آیت سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ابی کا رد کیا کہ بعض آیات منسوخ التلاوت یا منسوخ الحکم ہو سکتی ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سننا اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس کی تلاوت منسوخ نہ ہوئی ہو۔
قرآن عزیز کا سرکاری نسخہ
از تبرکات حضرت العلام فاضل نبیل مولانا اسماعیل صاحب شیخ الحدیث دار العلوم محمدیہ گوجرانوالہ ( رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ )
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس قرآن مقدس کی جو تحریر صورت صحف واجزاءمیں موجودتھی اسے سرکاری تحریر کہنا چاہئے اس تحریر کی روشنی میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے واقعہ حرہ کے بعد سرکاری نسخہ مرتب فرمایا اسی کی بنیاد پر وہ سرکاری نسخے لکھے گئے جو حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے مختلف گورنروں کو ارسال فرمائے۔ ہجوں کے اختلاف اور خط کے نامکمل ہونے کی وجہ سے جب شبہ پیدا ہوا تو حفظ کے ساتھ جزوی نوشتوں سے اس کا مقابلہ کرنے کے لئے تصحیح کی خاطر قریش کے لغت ولہجہ کو اساس قرار دیا گیا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت راشدہ میں حفاظ اور قراءکی موت سے قرآن عزیز کے ضائع ہونے کا خطرہ پیدا ہوگیا تھا۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی خلافت راشدہ میں عجمی عنصر کی کثرت اور عجمی ہجوں کی یورش کی وجہ سے سرکاری نسخے پر نظر ثانی کی گئی اور سب سے بڑی خوبی یہ ہوئی کہ تمام مشکوک دستاویز کو ضائع کردیا گیا تاکہ بحث اور تشکیک کے لئے کوئی مواد باقی نہ رہ جائے، اب وثوق کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس بعینہ وہی قرآن مقدس تھا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اور آپ کے اصحاب کرام رضی اللہ عنہم نے اپنی زندگیوں میں بار بار پڑھا اور اسے سرکاری دستاویز کے طور پر لکھوایا اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی بروقت کو شش اس قدر کا رگر ہوئی کہ آج تک اس میں ایک حرف کی بھی کمی وبیشی نہیں ہو سکی اور اس میں متواتر قرات صحیح طور پر آگئی اور تمام شذوذکو ایک طرف کردیا گیا۔ اتقان میں حافظ سیوطی نے اور زرکشی نے ( برہان فی علوم القرآن ) میں بعض امور ایسے ذکر فرمائے ہیں جن سے قرآن عزیز کی جمع وترتیب کے متعلق بعض شبہات پیدا ہوسکتے ہیں۔ بعض دوسری روایات سے بھی اس کی تائیدہوئی ہے، لیکن قرآن عزیزحفظ کے بعد جس عظیم الشان تواتر سے منقول ہوا ہے اس کے سامنے ان آحاد اور آثار کی کوئی اصلیت نہیں رہ جاتی۔ علامہ ابن حزم الملل والنحل میں فرماتے ہیں جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا اس وقت اسلام جزیرہ عرب میں پھیل چکا تھا بحرقلزم اور سواحل یمن سے گزر کر خلیج فارس اور فرات کے کناروں تک اسلام کی روشنی پھیل چکی تھی۔ پھر اسلام شام کی آخری سرحدوں سے ہوتا ہوا بحیرئہ قلزم کے کناروںتک شائع ہوچکا تھا،
اس وقت جزیرئہ عرب میں اس قدر شہر اور بستیاں وجود میں آگئی تھیں کہ جن کی تعداد اللہ کے سوا کوئی نہیں جان سکتا۔ یمن ، بحرین ، عمان ، نجد، بنوطے کے پہاڑ، مضر اور ربیعہ وقضاعہ کی آبادیاں ، طائف ، مکہ مدینہ یہ سب لوگ مسلمان ہوچکے تھے ان میں مسجدیں بھر پور تھیں۔ ہر شہر ہر گاؤں ہر بستی کی مساجد میں قرآن مجید پڑھا یا جاتا تھا۔ بچے اور عورتیں قرآن جانتے تھے اور اس کے لکھے ہوئے نسخے ان کے پاس موجود تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عالم بالا کو تشریف لے گئے مسلمانوں میں کوئی اختلاف نہ تھا وہ صرف ایک جماعت تھے اور ایک ہی دین سے وابستہ تھے حضرت ابو بکر صدیق صکی خلافت راشدہ ڈھائی سال رہی ان کی خلافت میں فارس روم کے بعض حصص اور یمامہ کا علاقہ بھی اسلامی قلم رو میں شامل ہوا قرآن عزیز کی قرات میں مزید اضافہ ہوا لوگوں نے قرآن مقدس کو لکھا۔ حضرت ابوبکر ، حضرت عمر ، حضرت عثمان ، حضرت علی، حضرت ابوذر اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہم وغیرہم نے قرآن مجید کے نسحے لکھے اور جمع کئے ہر شہر میں قرآن مجید کے نسخے موجود تھے اور ان ہی میں پڑھا جارہا تھا۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا صورت حال بدستور تھی ان کی خلافت میں مسیلمہ اور اسود عنسی کا فتنہ کھڑا ہوا، یہ دونوں نبوت کے مدعی تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کا کھلے طور پر اعلان کرتے تھے۔ بعض لوگوں نے زکٰوۃ سے انکار کیا۔ بعض قبائل نے کچھ دن ارتداد اختیار کیا لیکن ان ہی قبائل کے مسلمانوں نے ان کا مقابلہ کیا اور ایک سال نہیں گزرنے پایا تھا کہ فتنہ وفساد ختم ہوگیا اور حالات بدستو اعتدال پر آگئے۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے بعد مسند خلافت کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے زینت بخشی۔ فارس پورا فتح ہوگیا۔ شام ، الجزائر ، مصر اور افریقہ کے بعض علاقے اسلامی قلمرومیں شامل ہوئے۔ مسجد یں تعمیر ہوئیں قرآن عزیز پڑھا جانے لگا تمام ممالک میں صلی اللہ علیہ وسلم قرآن عزیز کے مخطوطے شائع ہوئے مشرق ومغرب تک مکاتب میں علماءسے لے کر بچوں تک۔ قرآن کی تلاوت ہونے لگی، پورے دس سال یہ سلسلہ جاری رہا۔ اسلام میں کبھی اختلاف نہ تھا وہ ایک ہی ملت کے پابند تھے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے انتقال کے وقت مصر، عراق، شام ، یمن کے علاقوں میں کم ازکم قرآن عزیز کے ایک لاکھ نسخے شائع ہوچکے ہوںگے۔ پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت میں اسلامی فتوحات اور بھی وسیع ہوئیں اور قرآن عزیز کی اشاعت مفتوحہ ممالک میں وسیع پیمانہ پر ہوئی۔ قرآن مجید کے شائع شدہ نسخوں کا اس وقت شمار نا ممکن ہوگا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت سے اختلافات کا دور شروع ہوا اور روافض کی تحریک نے زور پکڑا اور روافض ہی کی وجہ سے قرآن مجید کی حفاظت کے متعلق اعتراضات اور شبہات شروع ہوئے ، صورت حال یہ تھی کہ نابغہ اور زہیر کے اشعار میں کوئی کمی بیشی کردے تو یہ ممکن نہیں، دنیا میں اسے ذلیل وخوار ہونا پڑ ے گا۔ قرآن مجید کا معاملہ تو اور بھی مختلف ہے۔ اس وقت قرآن مجید اندلس، بربر، سوڈان ، کابل، خراسان، ترک اور صقلیہ اور ہندوستان تک پھیل چکا تھا۔ اس سے روافض کی حماقت ظاہر ہوئی وہ قرآن مجید کی جمع وتالیف میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو مہتمم کہتے ہیں یہی حال مسیحی اور سماجی مشنریوں کا ہے۔ یہ لوگ روافض سے سیکھ کر قرآن مجید کو اپنے نوشتوں کی طرح محرف ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ ان حالات میں کمی وبیشی ایک حرف کی بھی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ یا کسی دوسرے شخص کے لئے ناممکن تھی۔ روافض اور ان کے تلامذہ کی یہ غلط بیانی یوں بھی واضح ہوتی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ پانچ سال نو ماہ تک با اختیار خلیفہ رہے اور ان کے بعد حضرت حسن ہوئے۔ انہوں نے قرآن کے بدلنے کا حکم نہیں دیا نہ ہی اپنی حکومت میں قرآن عزیز کا دوسرا صحیح نسخہ شائع فرمایا۔ یہ کیسے باور کر لیا جائے کہ پوری اسلامی قلم رو میں غلط اور محرف قرآن پڑھا جائے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ اسے آسانی سے گوارہ کریں۔ ( مختصر الفصل فی الملل والنحل، ابن حزم ) حافظ ابن حزم نے قرآن عزےز کی حفاظت کے متعلق یہ بیان مسیحی اور روافض کی غلط بیانیوں کے متعلق لکھا ہے جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد عرصہ تک شائع ہوتی رہیں ، شیعہ چونکہ مسلمان کہلاتے تھے اور تقیہ کا رواج ان کے ہاں عام تھا اس لئے اس قسم کا مضموم لٹریچر رواۃ کی غلطی سے اہل سنت کی روایا ت میں بھی آگیا گو محدثین نے ایسی روایات کیحقیقت کو واضح کردیا ہے اور ان کے کذب اور وضع کی حقیقت کو واضح کردیا۔ فن حدیث کے ماہران روایات اور آثار کی حقیقت کو سمجھتے ہیں لیکن ابن حزم نے اصولی اور اتفاقی جواب دیا ہے کہ اس عظیم الشان تواتر کے سامنے اس مشکوک ذخیرئہ روایات کی اہمیت نہیں ، ا س لئے جب تعارض ہی نہیں تو تطبیق اور ترجیح کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
ناقل خلیل احمد رازی ولد حضرت مولانا محمد داؤد راز مدظلہ العالی رہپوہ
ضلع گوڑ گاؤ ں ( ھر یانہ )
الحمد للہ ماہ صفرالمظفر 1394ھ کا دوسرا عشرہ ہے، عصر کا وقت ہے۔ آج اس پارے کی تسوید ختم کررہاہوں مجھ کو خود معلوم نہیں کہ اس پارے کے ہر ایک لفظ کو میں نے کتنی کتنی دفعہ پڑھا ہے اور حک واضافہ کے لئے کتنی مرتبہ قلم کو استعمال کیا ہے، پھر بھی انسان ہوں ، کم فہم ہوں ، بس یہی کہہ سکتاہوں کہ اس اہم خدمت میں جو بھی کوتاہی ہوئی ہو اللہ پاک اسے معاف کرے۔ امید ہے کہ مخلص علماءکرام بھی کوتاہیوں کے لئے چشم عفو سے کام لیں گے اور پر خلوص اصلا ح فرما کر میری دعائیں حاصل کریں گے۔ یا اللہ ! جس طرح تو نے اس اہم کتاب کا یہ دوسرا حصہ بھی پورا کرادیا ہے تیسرے حصہ کو بھی جو پارہ 21 سے شروع ہوکر 30 پر ختم ہوا سے بھی پورا کردایجؤ۔ میری عمر مستعار کو اس قدر مہلت عطافرمائیوکہ بہ شرف تکمیل سے مشرف ہو سکوں اور قیامت کے دن اپنے جملہ معاونین کرام وہمدردان عظام کو ہمراہ لے کر لواءحمد کے نیچے حضرت سیدنا امام محمد بن اسماعیل بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی قیادت میں دربار نبوی میں حوض کوثر پر حاضر ی دیکر یہ حقیر خدمت پیش کرسکوں اور ہم کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک سے جام کو ثر نصیب ہو۔ ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم وصلی اللہ علی خیر خلقہ محمد واٰلہ واصحابہ اجمعین برحمتک یا ارحم الراحمین آمین ثم آمین۔
نا چیز خادم حدیث نبوی محمد داؤد ولد عبد اللہ رازالسلفی موضع رہپوہ۔ ضلع ، گوڑگاؤں ہریانہ ( بھارت ) ( 6-3-74 )
گویا اس آیت سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ابی کا رد کیا کہ بعض آیات منسوخ التلاوت یا منسوخ الحکم ہو سکتی ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سننا اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس کی تلاوت منسوخ نہ ہوئی ہو۔
قرآن عزیز کا سرکاری نسخہ
از تبرکات حضرت العلام فاضل نبیل مولانا اسماعیل صاحب شیخ الحدیث دار العلوم محمدیہ گوجرانوالہ ( رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ )
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس قرآن مقدس کی جو تحریر صورت صحف واجزاءمیں موجودتھی اسے سرکاری تحریر کہنا چاہئے اس تحریر کی روشنی میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے واقعہ حرہ کے بعد سرکاری نسخہ مرتب فرمایا اسی کی بنیاد پر وہ سرکاری نسخے لکھے گئے جو حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے مختلف گورنروں کو ارسال فرمائے۔ ہجوں کے اختلاف اور خط کے نامکمل ہونے کی وجہ سے جب شبہ پیدا ہوا تو حفظ کے ساتھ جزوی نوشتوں سے اس کا مقابلہ کرنے کے لئے تصحیح کی خاطر قریش کے لغت ولہجہ کو اساس قرار دیا گیا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت راشدہ میں حفاظ اور قراءکی موت سے قرآن عزیز کے ضائع ہونے کا خطرہ پیدا ہوگیا تھا۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی خلافت راشدہ میں عجمی عنصر کی کثرت اور عجمی ہجوں کی یورش کی وجہ سے سرکاری نسخے پر نظر ثانی کی گئی اور سب سے بڑی خوبی یہ ہوئی کہ تمام مشکوک دستاویز کو ضائع کردیا گیا تاکہ بحث اور تشکیک کے لئے کوئی مواد باقی نہ رہ جائے، اب وثوق کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس بعینہ وہی قرآن مقدس تھا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اور آپ کے اصحاب کرام رضی اللہ عنہم نے اپنی زندگیوں میں بار بار پڑھا اور اسے سرکاری دستاویز کے طور پر لکھوایا اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی بروقت کو شش اس قدر کا رگر ہوئی کہ آج تک اس میں ایک حرف کی بھی کمی وبیشی نہیں ہو سکی اور اس میں متواتر قرات صحیح طور پر آگئی اور تمام شذوذکو ایک طرف کردیا گیا۔ اتقان میں حافظ سیوطی نے اور زرکشی نے ( برہان فی علوم القرآن ) میں بعض امور ایسے ذکر فرمائے ہیں جن سے قرآن عزیز کی جمع وترتیب کے متعلق بعض شبہات پیدا ہوسکتے ہیں۔ بعض دوسری روایات سے بھی اس کی تائیدہوئی ہے، لیکن قرآن عزیزحفظ کے بعد جس عظیم الشان تواتر سے منقول ہوا ہے اس کے سامنے ان آحاد اور آثار کی کوئی اصلیت نہیں رہ جاتی۔ علامہ ابن حزم الملل والنحل میں فرماتے ہیں جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا اس وقت اسلام جزیرہ عرب میں پھیل چکا تھا بحرقلزم اور سواحل یمن سے گزر کر خلیج فارس اور فرات کے کناروں تک اسلام کی روشنی پھیل چکی تھی۔ پھر اسلام شام کی آخری سرحدوں سے ہوتا ہوا بحیرئہ قلزم کے کناروںتک شائع ہوچکا تھا،
اس وقت جزیرئہ عرب میں اس قدر شہر اور بستیاں وجود میں آگئی تھیں کہ جن کی تعداد اللہ کے سوا کوئی نہیں جان سکتا۔ یمن ، بحرین ، عمان ، نجد، بنوطے کے پہاڑ، مضر اور ربیعہ وقضاعہ کی آبادیاں ، طائف ، مکہ مدینہ یہ سب لوگ مسلمان ہوچکے تھے ان میں مسجدیں بھر پور تھیں۔ ہر شہر ہر گاؤں ہر بستی کی مساجد میں قرآن مجید پڑھا یا جاتا تھا۔ بچے اور عورتیں قرآن جانتے تھے اور اس کے لکھے ہوئے نسخے ان کے پاس موجود تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عالم بالا کو تشریف لے گئے مسلمانوں میں کوئی اختلاف نہ تھا وہ صرف ایک جماعت تھے اور ایک ہی دین سے وابستہ تھے حضرت ابو بکر صدیق صکی خلافت راشدہ ڈھائی سال رہی ان کی خلافت میں فارس روم کے بعض حصص اور یمامہ کا علاقہ بھی اسلامی قلم رو میں شامل ہوا قرآن عزیز کی قرات میں مزید اضافہ ہوا لوگوں نے قرآن مقدس کو لکھا۔ حضرت ابوبکر ، حضرت عمر ، حضرت عثمان ، حضرت علی، حضرت ابوذر اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہم وغیرہم نے قرآن مجید کے نسحے لکھے اور جمع کئے ہر شہر میں قرآن مجید کے نسخے موجود تھے اور ان ہی میں پڑھا جارہا تھا۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا صورت حال بدستور تھی ان کی خلافت میں مسیلمہ اور اسود عنسی کا فتنہ کھڑا ہوا، یہ دونوں نبوت کے مدعی تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کا کھلے طور پر اعلان کرتے تھے۔ بعض لوگوں نے زکٰوۃ سے انکار کیا۔ بعض قبائل نے کچھ دن ارتداد اختیار کیا لیکن ان ہی قبائل کے مسلمانوں نے ان کا مقابلہ کیا اور ایک سال نہیں گزرنے پایا تھا کہ فتنہ وفساد ختم ہوگیا اور حالات بدستو اعتدال پر آگئے۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے بعد مسند خلافت کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے زینت بخشی۔ فارس پورا فتح ہوگیا۔ شام ، الجزائر ، مصر اور افریقہ کے بعض علاقے اسلامی قلمرومیں شامل ہوئے۔ مسجد یں تعمیر ہوئیں قرآن عزیز پڑھا جانے لگا تمام ممالک میں صلی اللہ علیہ وسلم قرآن عزیز کے مخطوطے شائع ہوئے مشرق ومغرب تک مکاتب میں علماءسے لے کر بچوں تک۔ قرآن کی تلاوت ہونے لگی، پورے دس سال یہ سلسلہ جاری رہا۔ اسلام میں کبھی اختلاف نہ تھا وہ ایک ہی ملت کے پابند تھے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے انتقال کے وقت مصر، عراق، شام ، یمن کے علاقوں میں کم ازکم قرآن عزیز کے ایک لاکھ نسخے شائع ہوچکے ہوںگے۔ پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت میں اسلامی فتوحات اور بھی وسیع ہوئیں اور قرآن عزیز کی اشاعت مفتوحہ ممالک میں وسیع پیمانہ پر ہوئی۔ قرآن مجید کے شائع شدہ نسخوں کا اس وقت شمار نا ممکن ہوگا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت سے اختلافات کا دور شروع ہوا اور روافض کی تحریک نے زور پکڑا اور روافض ہی کی وجہ سے قرآن مجید کی حفاظت کے متعلق اعتراضات اور شبہات شروع ہوئے ، صورت حال یہ تھی کہ نابغہ اور زہیر کے اشعار میں کوئی کمی بیشی کردے تو یہ ممکن نہیں، دنیا میں اسے ذلیل وخوار ہونا پڑ ے گا۔ قرآن مجید کا معاملہ تو اور بھی مختلف ہے۔ اس وقت قرآن مجید اندلس، بربر، سوڈان ، کابل، خراسان، ترک اور صقلیہ اور ہندوستان تک پھیل چکا تھا۔ اس سے روافض کی حماقت ظاہر ہوئی وہ قرآن مجید کی جمع وتالیف میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو مہتمم کہتے ہیں یہی حال مسیحی اور سماجی مشنریوں کا ہے۔ یہ لوگ روافض سے سیکھ کر قرآن مجید کو اپنے نوشتوں کی طرح محرف ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ ان حالات میں کمی وبیشی ایک حرف کی بھی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ یا کسی دوسرے شخص کے لئے ناممکن تھی۔ روافض اور ان کے تلامذہ کی یہ غلط بیانی یوں بھی واضح ہوتی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ پانچ سال نو ماہ تک با اختیار خلیفہ رہے اور ان کے بعد حضرت حسن ہوئے۔ انہوں نے قرآن کے بدلنے کا حکم نہیں دیا نہ ہی اپنی حکومت میں قرآن عزیز کا دوسرا صحیح نسخہ شائع فرمایا۔ یہ کیسے باور کر لیا جائے کہ پوری اسلامی قلم رو میں غلط اور محرف قرآن پڑھا جائے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ اسے آسانی سے گوارہ کریں۔ ( مختصر الفصل فی الملل والنحل، ابن حزم ) حافظ ابن حزم نے قرآن عزےز کی حفاظت کے متعلق یہ بیان مسیحی اور روافض کی غلط بیانیوں کے متعلق لکھا ہے جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد عرصہ تک شائع ہوتی رہیں ، شیعہ چونکہ مسلمان کہلاتے تھے اور تقیہ کا رواج ان کے ہاں عام تھا اس لئے اس قسم کا مضموم لٹریچر رواۃ کی غلطی سے اہل سنت کی روایا ت میں بھی آگیا گو محدثین نے ایسی روایات کیحقیقت کو واضح کردیا ہے اور ان کے کذب اور وضع کی حقیقت کو واضح کردیا۔ فن حدیث کے ماہران روایات اور آثار کی حقیقت کو سمجھتے ہیں لیکن ابن حزم نے اصولی اور اتفاقی جواب دیا ہے کہ اس عظیم الشان تواتر کے سامنے اس مشکوک ذخیرئہ روایات کی اہمیت نہیں ، ا س لئے جب تعارض ہی نہیں تو تطبیق اور ترجیح کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
ناقل خلیل احمد رازی ولد حضرت مولانا محمد داؤد راز مدظلہ العالی رہپوہ
ضلع گوڑ گاؤ ں ( ھر یانہ )
الحمد للہ ماہ صفرالمظفر 1394ھ کا دوسرا عشرہ ہے، عصر کا وقت ہے۔ آج اس پارے کی تسوید ختم کررہاہوں مجھ کو خود معلوم نہیں کہ اس پارے کے ہر ایک لفظ کو میں نے کتنی کتنی دفعہ پڑھا ہے اور حک واضافہ کے لئے کتنی مرتبہ قلم کو استعمال کیا ہے، پھر بھی انسان ہوں ، کم فہم ہوں ، بس یہی کہہ سکتاہوں کہ اس اہم خدمت میں جو بھی کوتاہی ہوئی ہو اللہ پاک اسے معاف کرے۔ امید ہے کہ مخلص علماءکرام بھی کوتاہیوں کے لئے چشم عفو سے کام لیں گے اور پر خلوص اصلا ح فرما کر میری دعائیں حاصل کریں گے۔ یا اللہ ! جس طرح تو نے اس اہم کتاب کا یہ دوسرا حصہ بھی پورا کرادیا ہے تیسرے حصہ کو بھی جو پارہ 21 سے شروع ہوکر 30 پر ختم ہوا سے بھی پورا کردایجؤ۔ میری عمر مستعار کو اس قدر مہلت عطافرمائیوکہ بہ شرف تکمیل سے مشرف ہو سکوں اور قیامت کے دن اپنے جملہ معاونین کرام وہمدردان عظام کو ہمراہ لے کر لواءحمد کے نیچے حضرت سیدنا امام محمد بن اسماعیل بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی قیادت میں دربار نبوی میں حوض کوثر پر حاضر ی دیکر یہ حقیر خدمت پیش کرسکوں اور ہم کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک سے جام کو ثر نصیب ہو۔ ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم وصلی اللہ علی خیر خلقہ محمد واٰلہ واصحابہ اجمعین برحمتک یا ارحم الراحمین آمین ثم آمین۔
نا چیز خادم حدیث نبوی محمد داؤد ولد عبد اللہ رازالسلفی موضع رہپوہ۔ ضلع ، گوڑگاؤں ہریانہ ( بھارت ) ( 6-3-74 )