‌صحيح البخاري - حدیث 50

كِتَابُ الإِيمَانِ بَابُ سُؤَالِ جِبْرِيلَ النَّبِيَّ ﷺ عَنِ الإِيمَانِ، وَالإِسْلاَمِ، وَالإِحْسَانِ، وَعِلْمِ السَّاعَةِ صحيح حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، أَخْبَرَنَا أَبُو حَيَّانَ التَّيْمِيُّ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَارِزًا يَوْمًا لِلنَّاسِ، فَأَتَاهُ جِبْرِيلُ فَقَالَ: مَا الإِيمَانُ؟ قَالَ: «الإِيمَانُ أَنْ تُؤْمِنَ بِاللَّهِ وَمَلاَئِكَتِهِ، وَكُتُبِهِ، وَبِلِقَائِهِ، وَرُسُلِهِ وَتُؤْمِنَ بِالْبَعْثِ». قَالَ: مَا الإِسْلاَمُ؟ قَالَ: الإِسْلاَمُ: أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ، وَلاَ تُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا، وَتُقِيمَ الصَّلاَةَ، وَتُؤَدِّيَ الزَّكَاةَ المَفْرُوضَةَ، وَتَصُومَ رَمَضَانَ . قَالَ: مَا الإِحْسَانُ؟ قَالَ: «أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ، فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ»، قَالَ: مَتَى السَّاعَةُ؟ قَالَ: مَا المَسْئُولُ عَنْهَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ، وَسَأُخْبِرُكَ عَنْ أَشْرَاطِهَا: إِذَا وَلَدَتِ الأَمَةُ رَبَّهَا، وَإِذَا تَطَاوَلَ رُعَاةُ الإِبِلِ البُهْمُ فِي البُنْيَانِ، فِي خَمْسٍ لاَ يَعْلَمُهُنَّ إِلَّا اللَّهُ ثُمَّ تَلاَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: {إِنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ} [لقمان: 34] الآيَةَ، ثُمَّ أَدْبَرَ فَقَالَ: «رُدُّوهُ» فَلَمْ يَرَوْا شَيْئًا، فَقَالَ: «هَذَا جِبْرِيلُ جَاءَ يُعَلِّمُ النَّاسَ دِينَهُمْ» قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ: جَعَلَ ذَلِكَ كُلَّهُ مِنَ الإِيمَانِ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 50

کتاب: ایمان کے بیان میں باب:ایمان اسلام احسان اور قیامت کے علم کے بارے میں حضرت جبریل کے سوالات نبی ﷺ سے۔ ہم سے مسدد نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے اسماعیل بن ابراہیم نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم کو ابوحیان تیمی نے ابوزرعہ سے خبر دی، انھوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے نقل کیا کہ ایک دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں تشریف فرما تھے کہ آپ کے پاس ایک شخص آیا اور پوچھنے لگا کہ ایمان کسے کہتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایمان یہ ہے کہ تم اللہ پاک کے وجود اور اس کی وحدانیت پر ایمان لاؤ اور اس کے فرشتوں کے وجود پر اور اس ( اللہ ) کی ملاقات کے برحق ہونے پر اور اس کے رسولوں کے برحق ہونے پر اور مرنے کے بعد دوبارہ اٹھنے پر ایمان لاؤ۔ پھر اس نے پوچھا کہ اسلام کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر جواب دیا کہ اسلام یہ ہے کہ تم خالص اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ اور نماز قائم کرو۔ اور زکوٰۃ فرض ادا کرو۔ اور رمضان کے روزے رکھو۔ پھر اس نے احسان کے متعلق پوچھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا احسان یہ کہ تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو اگر یہ درجہ نہ حاصل ہو تو پھر یہ سمجھو کہ وہ تم کو دیکھ رہا ہے۔ پھر اس نے پوچھا کہ قیامت کب آئے گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کے بارے میں جواب دینے والا پوچھنے والے سے کچھ زیادہ نہیں جانتا ( البتہ ) میں تمہیں اس کی نشانیاں بتلا سکتا ہوں۔ وہ یہ ہیں کہ جب لونڈی اپنے آقا کو جنے گی اور جب سیاہ اونٹوں کے چرانے والے ( دیہاتی لوگ ترقی کرتے کرتے ) مکانات کی تعمیر میں ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی کوشش کریں گے ( یاد رکھو ) قیامت کا علم ان پانچ چیزوں میں ہے جن کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی کہ اللہ ہی کو قیامت کا علم ہے کہ وہ کب ہو گی ( آخر آیت تک ) پھر وہ پوچھنے والا پیٹھ پھیر کر جانے لگا۔ آپ نے فرمایا کہ اسے واپس بلا کر لاؤ۔ لوگ دوڑ پڑے مگر وہ کہیں نظر نہیں آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ جبرئیل تھے جو لوگوں کو ان کا دین سکھانے آئے تھے۔ امام ابوعبداللہ بخاری فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تمام باتوں کو ایمان ہی قرار دیا ہے۔
تشریح : شارحین بخاری لکھتے ہیں مقصود البخاری من عقد ذلک الباب ان الدین والاسلام والایمان واحد لااختلاف فی مفہومہما والواو فی ومابین وقولہ تعالی بمعنی مع یعنی حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا اس باب کے منعقد کرنے سے اس امر کا بیان مقصود ہے کہ دین اور اسلام اور ایمان ایک ہیں، اس کے مفہوم میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ اور ومابین میں اور وقولہ تعالیٰ میں ہردوجگہ واؤ مع کے معنی میں ہے جس کا مطلب یہ کہ باب میں پہلا ترجمہ سوال جبرئیل سے متعلق ہے جس کے مقصد کو آپ نے فجعل ذالک کلہ من الایمان سے واضح فرمادیا۔ یعنی دین اسلام احسان اور اعتقاد قیامت سب پر مشتمل ہے۔ دوسرا ترجمہ ومابین لوفد عبدالقیس ہے یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفدعبدالقیس کے لیے ایمان کی جو تفصیل بیان فرمائی تھی اس میں اعمال بیان فرماکر ان سب کو داخل ایمان قرار دیا گیا تھا خواہ وہ اوامر سے ہوں یا نواہی سے۔ تیسرا ترجمہ یہاں آیت کریمہ ومن یبتغ غیرالاسلام ہے جس سے ظاہر ہے کہ اصل دین دین اسلام ہے۔ اور دین اور اسلام ایک ہی چیز کے دو نام ہیں۔ کیونکہ اگر دین اسلام سے مغائر ہوتا تو آیت شریفہ میں اسلام کا تلاش کرنے والا شریعت میں معتبرہے۔ یہاں ان کے لغوی معانی سے کوئی بحث نہیں ہے۔ حضرت الامام کا مقصد یہاں بھی مرجیہ کی تردید ہے جو ایمان کے لیے اعمال کوغیرضروری بتلاتے ہیں۔ تعصب کا برا ہو: فرقہ مرجیہ کی ضلالت پر تمام اہل سنت کا اتفاق ہے اور امام بخاری قدس سرہ بھی ایسے ہی گمراہ فرقوں کی تردید کے لیے یہ جملہ تفصیلات پیش فرما رہے ہیں۔ مگرتعصب کا براہو عصرحاضر کے بعض مترجمین وشارحین بخاری کو یہاں بھی خالصاً حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ پر تعریض نظر آئی ہے اور اس خیال کے پیش نظر انھوں نے یہاں حضرت امام بخاری کو غیرفقیہ زود رنج قرار دے کر دل کی بھڑاس نکالی ہے صاحب انوارالباری کے لفظ یہ ہیں: “ امام بخاری میں تاثر کا مادہ زیادہ تھا وہ اپنے اساتذہ حمیدی، نعیم بن حماد، خرامی، اسحاق بن راہویہ، اسماعیل، عروہ سے زیادہ متاثر ہوگئے۔ جن کو امام صاحب وغیرہ سے للّٰہی بغض تھا۔ دوسرے وہ زودرنج تھے۔ فن حدیث کے امام بے مثال تھے مگر فقہ میں وہ پایہ نہ تھا۔ اسی لیے ان کا کوئی مذہب نہ بن سکا امام اعظم رحمہ اللہ کی فقہی باریکیوں کو سمجھنے کے لیے بہت زیادہ اونچے درجہ کی فقہ کی ضرورت تھی۔ جو نہ سمجھا وہ ان کا مخالف ہوگیا۔ ( انوارالباری، جلد: دوم،ص: 168 ) ” اس بیان پر تفصیلی تبصرہ کے لیے دفاتر بھی ناکافی ہیں۔ مگرآج کے دورمیں ان فرسودہ مباحث میں جاکر علمائے سلف کا باہمی حسد و بغض ثابت کرکے تاریخ اسلام کو مجروح کرنا یہ خدمت ایسے متعصبین حضرات ہی کو مبارک ہو ہمارا توسب کے لیے یہ عقیدہ ہے تلک امۃ قدخلت لہا ماکسبت ( البقرۃ: 134 ) رحمہم اللہ اجمعین۔ آمین۔ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کو زود رنج اور غیرفقیہ قراردینا خود ان لکھنے والوں کے زودرنج اور کم فہم ہونے کی دلیل ہے۔ شارحین بخاری لکھتے ہیں مقصود البخاری من عقد ذلک الباب ان الدین والاسلام والایمان واحد لااختلاف فی مفہومہما والواو فی ومابین وقولہ تعالی بمعنی مع یعنی حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا اس باب کے منعقد کرنے سے اس امر کا بیان مقصود ہے کہ دین اور اسلام اور ایمان ایک ہیں، اس کے مفہوم میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ اور ومابین میں اور وقولہ تعالیٰ میں ہردوجگہ واؤ مع کے معنی میں ہے جس کا مطلب یہ کہ باب میں پہلا ترجمہ سوال جبرئیل سے متعلق ہے جس کے مقصد کو آپ نے فجعل ذالک کلہ من الایمان سے واضح فرمادیا۔ یعنی دین اسلام احسان اور اعتقاد قیامت سب پر مشتمل ہے۔ دوسرا ترجمہ ومابین لوفد عبدالقیس ہے یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفدعبدالقیس کے لیے ایمان کی جو تفصیل بیان فرمائی تھی اس میں اعمال بیان فرماکر ان سب کو داخل ایمان قرار دیا گیا تھا خواہ وہ اوامر سے ہوں یا نواہی سے۔ تیسرا ترجمہ یہاں آیت کریمہ ومن یبتغ غیرالاسلام ہے جس سے ظاہر ہے کہ اصل دین دین اسلام ہے۔ اور دین اور اسلام ایک ہی چیز کے دو نام ہیں۔ کیونکہ اگر دین اسلام سے مغائر ہوتا تو آیت شریفہ میں اسلام کا تلاش کرنے والا شریعت میں معتبرہے۔ یہاں ان کے لغوی معانی سے کوئی بحث نہیں ہے۔ حضرت الامام کا مقصد یہاں بھی مرجیہ کی تردید ہے جو ایمان کے لیے اعمال کوغیرضروری بتلاتے ہیں۔ تعصب کا برا ہو: فرقہ مرجیہ کی ضلالت پر تمام اہل سنت کا اتفاق ہے اور امام بخاری قدس سرہ بھی ایسے ہی گمراہ فرقوں کی تردید کے لیے یہ جملہ تفصیلات پیش فرما رہے ہیں۔ مگرتعصب کا براہو عصرحاضر کے بعض مترجمین وشارحین بخاری کو یہاں بھی خالصاً حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ پر تعریض نظر آئی ہے اور اس خیال کے پیش نظر انھوں نے یہاں حضرت امام بخاری کو غیرفقیہ زود رنج قرار دے کر دل کی بھڑاس نکالی ہے صاحب انوارالباری کے لفظ یہ ہیں: “ امام بخاری میں تاثر کا مادہ زیادہ تھا وہ اپنے اساتذہ حمیدی، نعیم بن حماد، خرامی، اسحاق بن راہویہ، اسماعیل، عروہ سے زیادہ متاثر ہوگئے۔ جن کو امام صاحب وغیرہ سے للّٰہی بغض تھا۔ دوسرے وہ زودرنج تھے۔ فن حدیث کے امام بے مثال تھے مگر فقہ میں وہ پایہ نہ تھا۔ اسی لیے ان کا کوئی مذہب نہ بن سکا امام اعظم رحمہ اللہ کی فقہی باریکیوں کو سمجھنے کے لیے بہت زیادہ اونچے درجہ کی فقہ کی ضرورت تھی۔ جو نہ سمجھا وہ ان کا مخالف ہوگیا۔ ( انوارالباری، جلد: دوم،ص: 168 ) ” اس بیان پر تفصیلی تبصرہ کے لیے دفاتر بھی ناکافی ہیں۔ مگرآج کے دورمیں ان فرسودہ مباحث میں جاکر علمائے سلف کا باہمی حسد و بغض ثابت کرکے تاریخ اسلام کو مجروح کرنا یہ خدمت ایسے متعصبین حضرات ہی کو مبارک ہو ہمارا توسب کے لیے یہ عقیدہ ہے تلک امۃ قدخلت لہا ماکسبت ( البقرۃ: 134 ) رحمہم اللہ اجمعین۔ آمین۔ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کو زود رنج اور غیرفقیہ قراردینا خود ان لکھنے والوں کے زودرنج اور کم فہم ہونے کی دلیل ہے۔