كِتَابُ فَضَائِلِ القُرْآنِ بَابُ تَأْلِيفِ القُرْآنِ صحيح حَدَّثَنَا عَبْدَانُ عَنْ أَبِي حَمْزَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ شَقِيقٍ قَالَ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ لَقَدْ تَعَلَّمْتُ النَّظَائِرَ الَّتِي كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَؤُهُنَّ اثْنَيْنِ اثْنَيْنِ فِي كُلِّ رَكْعَةٍ فَقَامَ عَبْدُ اللَّهِ وَدَخَلَ مَعَهُ عَلْقَمَةُ وَخَرَجَ عَلْقَمَةُ فَسَأَلْنَاهُ فَقَالَ عِشْرُونَ سُورَةً مِنْ أَوَّلِ الْمُفَصَّلِ عَلَى تَأْلِيفِ ابْنِ مَسْعُودٍ آخِرُهُنَّ الْحَوَامِيمُ حم الدُّخَانِ وَعَمَّ يَتَسَاءَلُونَ
کتاب: قرآن کے فضائل کا بیان
باب: قرآن مجید یا آیتوں کی ترتیب کا بیان
ہم سے عبدان نے بیان کیا ، ان سے ابوحمزہ ( محمدبن میمون ) نے ان سے اعمش نے ، ان سے شقیق نے بیان کیا کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا میں ان جڑواں سورتوں کو جانتا ہوں جنہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر رکعت میں دو دو پڑھتے تھے پھر عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ مجلس سے کھڑے ہوگئے ( اوراپنے گھر ) چلے گئے ۔ علقمہ بھی آپ کے ساتھ اندر گئے ۔ جب حضرت علقمہ رضی اللہ عنہ باہر نکلے تو ہم نے ان سے انہیں سورتوں کے متعلق پوچھا ۔ انہوں نے کہا یہ شروع مفصل کی بیس سورتیں ہیں ، ان کی آخر ی سورتیں وہ ہیں جن کی اول میں حم ہے ۔ حم دخان اور عم یتساءلون بھی ان ہی میں سے ہیں ۔
تشریح :
ابوذر کی روایت میں یوں ہے۔ حم کی سورتوں سے میں حم دخان اور عم یتساءلون۔ ابن خزیمہ کی روایت میں یوں ہے ان میں پہلی سورت سورۃ رحمان ہے اور آخیر کی دخان۔ اس روایت سے یہ نکلا کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا مصحف عثمانی ترتیب پر نہ تھا نہ نزول کی ترتیب پر کہتے ہیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا مصحف بہ ترتیب نزول تھا۔ شروع میں سورۃ اقرا پھر سورۃ مدثر ، پھر سورۃ قلم اور اسی طرح پہلے سب مکی سورتیں تھیں۔ پھر مدنی سورتیں اور مصحف عثمانی کی ترتیب صحابہ رضی اللہ عنہ کی رائے اور اجتہاد سے ہوئی تھی۔ جمہور علماءکا یہی قول ہے یعنی سورتوں کی ترتیب لیکن آیتوں کی ترتیب باتفاق علماءتوقیفی ہے یعنی پہلی لکھی ہوئی حضرت جبریل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کہہ دیتے تھے اس آیت کو وہاں رکھواور اس آیت کو وہاں تو آیتوں میں تقدیم تاخیر کسی طرح جائز نہیں اور اسی مضمون کی ایک حدیث ہے جس کو حاکم اور بیہقی نے نکالا۔ حاکم نے کہا وہ صحیح ہے۔ بخاری نے علامات النبوۃ میں وصل کیا۔ حافظ صاحب فرماتے ہیں۔ علی تالیف ابن مسعود فیہ دلالۃ علی ان تالیف ابن مسعود علی غیر التالیف العثمانی وکان اولہ الفاتحۃ ثم البقرۃ ثم النساءثم آل عمران ولم یکن علی ترتیب النزول ویقال ان مصحف علی کان علی ترتیب النزول اولہ اقرا ثم المدثر ثم النون والقلم ثم المزمل ثم تبت ثم التکویر ثم سبح اسم وھکذا الی آخر المکی ثم المدنی واللہ اعلم ( فتح الباری ) یعنی لفظ علی تالیف ابن مسعود میں دلیل ہے کہ حضرت ابن مسعود کا تالیف کردہ قرآن شریف مصحف عثمانی سے غیر تھا اس میں اول سورۃ فاتحہ پھر سورۃ بقرہ پھر سورۃ نساء پھر سورۃ آل عمران درج تھیں اور ترتیب نزول کے موافق نہ تھا ہاں کہا جاتا ہے کہ مصحف علی ترتیب نزول پر تھا۔ وہ سورۃ اقرا سے شروع ہوتا تھا۔ پھر سورۃ مدثر پھر سورۃ نون پھر سورۃ مزمل پھر سورۃ تبت پھر سورۃ تکویر پھر سورۃ سبح اسم پھر اس طرح پہلے کی سورتیں پھر مدنی سورتیں اس میں درج تھیں۔ بہرحال جو ہوا منشائے الٰہی کے تحت ہوا کہ آج دنیائے اسلام میں مصحف عثمانی متداول ہے اور دیگر مصاحف کو قدرت نے خود گم کر دیا تاکہ نفس قرآن پر امت میں اختلاف پیدا نہ ہو سکے۔ بعون اللہ ایسا ہی ہوا اور قیامت تک ایسا ہی ہوتا رہے گا۔ ولو کرہ الکافرون۔
ابوذر کی روایت میں یوں ہے۔ حم کی سورتوں سے میں حم دخان اور عم یتساءلون۔ ابن خزیمہ کی روایت میں یوں ہے ان میں پہلی سورت سورۃ رحمان ہے اور آخیر کی دخان۔ اس روایت سے یہ نکلا کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا مصحف عثمانی ترتیب پر نہ تھا نہ نزول کی ترتیب پر کہتے ہیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا مصحف بہ ترتیب نزول تھا۔ شروع میں سورۃ اقرا پھر سورۃ مدثر ، پھر سورۃ قلم اور اسی طرح پہلے سب مکی سورتیں تھیں۔ پھر مدنی سورتیں اور مصحف عثمانی کی ترتیب صحابہ رضی اللہ عنہ کی رائے اور اجتہاد سے ہوئی تھی۔ جمہور علماءکا یہی قول ہے یعنی سورتوں کی ترتیب لیکن آیتوں کی ترتیب باتفاق علماءتوقیفی ہے یعنی پہلی لکھی ہوئی حضرت جبریل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کہہ دیتے تھے اس آیت کو وہاں رکھواور اس آیت کو وہاں تو آیتوں میں تقدیم تاخیر کسی طرح جائز نہیں اور اسی مضمون کی ایک حدیث ہے جس کو حاکم اور بیہقی نے نکالا۔ حاکم نے کہا وہ صحیح ہے۔ بخاری نے علامات النبوۃ میں وصل کیا۔ حافظ صاحب فرماتے ہیں۔ علی تالیف ابن مسعود فیہ دلالۃ علی ان تالیف ابن مسعود علی غیر التالیف العثمانی وکان اولہ الفاتحۃ ثم البقرۃ ثم النساءثم آل عمران ولم یکن علی ترتیب النزول ویقال ان مصحف علی کان علی ترتیب النزول اولہ اقرا ثم المدثر ثم النون والقلم ثم المزمل ثم تبت ثم التکویر ثم سبح اسم وھکذا الی آخر المکی ثم المدنی واللہ اعلم ( فتح الباری ) یعنی لفظ علی تالیف ابن مسعود میں دلیل ہے کہ حضرت ابن مسعود کا تالیف کردہ قرآن شریف مصحف عثمانی سے غیر تھا اس میں اول سورۃ فاتحہ پھر سورۃ بقرہ پھر سورۃ نساء پھر سورۃ آل عمران درج تھیں اور ترتیب نزول کے موافق نہ تھا ہاں کہا جاتا ہے کہ مصحف علی ترتیب نزول پر تھا۔ وہ سورۃ اقرا سے شروع ہوتا تھا۔ پھر سورۃ مدثر پھر سورۃ نون پھر سورۃ مزمل پھر سورۃ تبت پھر سورۃ تکویر پھر سورۃ سبح اسم پھر اس طرح پہلے کی سورتیں پھر مدنی سورتیں اس میں درج تھیں۔ بہرحال جو ہوا منشائے الٰہی کے تحت ہوا کہ آج دنیائے اسلام میں مصحف عثمانی متداول ہے اور دیگر مصاحف کو قدرت نے خود گم کر دیا تاکہ نفس قرآن پر امت میں اختلاف پیدا نہ ہو سکے۔ بعون اللہ ایسا ہی ہوا اور قیامت تک ایسا ہی ہوتا رہے گا۔ ولو کرہ الکافرون۔