‌صحيح البخاري - حدیث 4988

كِتَابُ فَضَائِلِ القُرْآنِ بَابُ جَمْعِ القُرْآنِ صحيح قَالَ ابْنُ شِهَابٍ وَأَخْبَرَنِي خَارِجَةُ بْنُ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ سَمِعَ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ قَالَ فَقَدْتُ آيَةً مِنْ الْأَحْزَابِ حِينَ نَسَخْنَا الْمُصْحَفَ قَدْ كُنْتُ أَسْمَعُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ بِهَا فَالْتَمَسْنَاهَا فَوَجَدْنَاهَا مَعَ خُزَيْمَةَ بْنِ ثَابِتٍ الْأَنْصَارِيِّ مِنْ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ فَأَلْحَقْنَاهَا فِي سُورَتِهَا فِي الْمُصْحَفِ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 4988

کتاب: قرآن کے فضائل کا بیان باب: قرآن مجید کے جمع کرنے کا بیان ابن شہاب نے بیان کیا کہ مجھے خارجہ بن زید بن ثابت نے خبردی ، انہوں نے حضرت زید بن ثابت سے سنا ، انہوں نے بیان کیا کہ جب ہم ( عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ) مصحف کی صورت میں قرآن مجید کو نقل کر رہے تھے ، تو مجھے سورۃ احزاب کی ایک آیت نہیں ملی ، حالانکہ میں اس آیت کو بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کرتا تھا اور آپ اس کی تلاوت کیا کرتے تھے ، پھر ہم نے اسے تلاش کیا تو وہ خزیمہ بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ کے پاس ملی ۔ وہ آیت یہ تھی من المومنین رجال صدقوا ما عاھدوا اللہ علیہ چنانچہ ہم نے اس آیت کو سورۃ احزاب میں لگا دیا ۔
تشریح : یعنی اپنے ٹھکانے پر تو صرف صورتوں کی ترتیب اور وجوہ قرات وغیرہ میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے تصرف کیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں یہ ترتیب سورتوں کی نہ تھی اور اسی لئے نمازی کو جائز ہے کہ جس سورت کو چاہے پہلے پڑھے جسے چاہے بعد میں پڑھے ان میں ترتیب کا خیال رکھنا کچھ فرض نہیں ہے۔ ہاں اس قدر مناسب ہے کہ پہلی رکعت میں زیادہ آیات پڑھی جائیں دوسری میں کم آیات والی سورت پڑھی جائے۔ تشریح : حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے قرآن پاک کی بہت سی نقلیں تیار کرائیں اور پوری جانچ پڑتال کے بعد ان کو اطراف مملکت اسلامیہ میں بایں طور تقسیم کرادیا کہ ایک نسخہ کوفہ میں ، ایک بصرے میں ، ایک شام میں اور ایک مدینہ میں اپنے پاس رہنے دیا۔ بعض روایتوں میں یوں ہے کہ سات مصحف تیار کرائے اور مکہ اور شام اور یمن اور بحرین اوربصرہ اور کوفہ کو ایک ایک بھیجا اور ایک مدینہ میں رکھا۔ یہ جلانا عین مناسب اور مقتضائے مصلحت تھا۔ یہ حکم حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے سب صحابہ کے سامنے دیا۔ انہوں نے اس پر انکار نہیں کیا۔ بعضوں نے کہا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ان کو جمع کرایا پھر جلوا دیا۔ اس حدیث سے یہ بھی نکلتا ہے کہ جن کاغذوں میں خدا کے نام ہوں ان کو جلا ڈالنا درست ہے۔ اب جو مصحف حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس تھا وہ زندگی بھر انہیں کے پاس رہا۔ مروان نے مانگا توبھی انہوں نے نہیں دیا، ان کی وفات کے بعد مروان نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے وہ مستعار منگوایا اور جلوا ڈالا اب کسی کے پاس کوئی مصحف نہ رہا۔ البتہ کہتے ہیں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اپنا نسخہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے مانگنے پر بھی نہیں دیاتھا۔ لیکن عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد معلوم نہیں وہ مصحف کہاں گیا۔ بعض روایتوں میں ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بھی ایک مصحف بہ ترتیب نزول تیار کیا تھا لیکن اس کا بھی پتہ نہیں چلتا اللہ کو جو منظور تھا وہی ہوا، یہی مصحف عثمانی دنیا میں باقی رہ گیا۔ موافق مخالف ہر ملک اور ہر فرقہ میں جہاں دیکھو وہاں یہی مصحف ہے ( وحیدی ) یعنی اپنے ٹھکانے پر تو صرف صورتوں کی ترتیب اور وجوہ قرات وغیرہ میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے تصرف کیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں یہ ترتیب سورتوں کی نہ تھی اور اسی لئے نمازی کو جائز ہے کہ جس سورت کو چاہے پہلے پڑھے جسے چاہے بعد میں پڑھے ان میں ترتیب کا خیال رکھنا کچھ فرض نہیں ہے۔ ہاں اس قدر مناسب ہے کہ پہلی رکعت میں زیادہ آیات پڑھی جائیں دوسری میں کم آیات والی سورت پڑھی جائے۔ تشریح : حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے قرآن پاک کی بہت سی نقلیں تیار کرائیں اور پوری جانچ پڑتال کے بعد ان کو اطراف مملکت اسلامیہ میں بایں طور تقسیم کرادیا کہ ایک نسخہ کوفہ میں ، ایک بصرے میں ، ایک شام میں اور ایک مدینہ میں اپنے پاس رہنے دیا۔ بعض روایتوں میں یوں ہے کہ سات مصحف تیار کرائے اور مکہ اور شام اور یمن اور بحرین اوربصرہ اور کوفہ کو ایک ایک بھیجا اور ایک مدینہ میں رکھا۔ یہ جلانا عین مناسب اور مقتضائے مصلحت تھا۔ یہ حکم حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے سب صحابہ کے سامنے دیا۔ انہوں نے اس پر انکار نہیں کیا۔ بعضوں نے کہا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ان کو جمع کرایا پھر جلوا دیا۔ اس حدیث سے یہ بھی نکلتا ہے کہ جن کاغذوں میں خدا کے نام ہوں ان کو جلا ڈالنا درست ہے۔ اب جو مصحف حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس تھا وہ زندگی بھر انہیں کے پاس رہا۔ مروان نے مانگا توبھی انہوں نے نہیں دیا، ان کی وفات کے بعد مروان نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے وہ مستعار منگوایا اور جلوا ڈالا اب کسی کے پاس کوئی مصحف نہ رہا۔ البتہ کہتے ہیں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اپنا نسخہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے مانگنے پر بھی نہیں دیاتھا۔ لیکن عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد معلوم نہیں وہ مصحف کہاں گیا۔ بعض روایتوں میں ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بھی ایک مصحف بہ ترتیب نزول تیار کیا تھا لیکن اس کا بھی پتہ نہیں چلتا اللہ کو جو منظور تھا وہی ہوا، یہی مصحف عثمانی دنیا میں باقی رہ گیا۔ موافق مخالف ہر ملک اور ہر فرقہ میں جہاں دیکھو وہاں یہی مصحف ہے ( وحیدی )