كِتَابُ تَفْسِيرِ القُرْآنِ بَابُ قَوْلِهِ كَلَّا لَئِنْ لَمْ يَنْتَهِ لَنَسْفَعَنْ بِالنَّاصِيَةِ نَاصِيَةٍ كَاذِبَةٍ خَاطِئَةٍ صحيح حَدَّثَنَا يَحْيَى حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ عَبْدِ الْكَرِيمِ الْجَزَرِيِّ عَنْ عِكْرِمَةَ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ قَالَ أَبُو جَهْلٍ لَئِنْ رَأَيْتُ مُحَمَّدًا يُصَلِّي عِنْدَ الْكَعْبَةِ لَأَطَأَنَّ عَلَى عُنُقِهِ فَبَلَغَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لَوْ فَعَلَهُ لَأَخَذَتْهُ الْمَلَائِكَةُ تَابَعَهُ عَمْرُو بْنُ خَالِدٍ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ عَنْ عَبْدِ الْكَرِيمِ
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
باب: آیت (( کلا لئن لم الایۃ )) کی تفسیر
ہم سے یحییٰ بن موسیٰ نے بیان کیا ، کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا ، ان سے معمر نے ، ان سے عبدالکریم جزری نے ، ان سے عکرمہ نے بیان کیا اور ان سے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا ابو جہل نے کہا تھا کہ اگر میں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو کعبہ کے پاس نماز پڑھتے دیکھ لیا تو اس کی گردن میں کچل دوں گا ۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ بات پہنچی تو آپ نے فرمایا کہ اگر اس نے ایسا کیا ہوتا تو اسے فرشتے پکڑ لیتے ۔ عبدالرزاق کے ساتھ اس حدیث کو عمرو بن خالد نے روایت کیا ہے ، ان سے عبیداللہ نے ، ان سے عبدالکریم نے بیان کیا ۔
تشریح :
دوسری روایت میں یوں ہے کہ ابو جہل نے اپنے کہنے کے موافق ایک بارکعبے کے پاس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھتے دیکھا۔ وہ آپ کو ایذا دینے کے لئے چلا جب آپ کے قریب پہنچا تو یکا یک ایڑیوں کے بل جھک کر پیچھے ہٹا۔ لوگوں نے پوچھا یہ کیا معاملہ ہے تو تو کہتا تھا میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی گردن کچل ڈالوں گا اب بھاگتا کیوں ہے؟ وہ کہنے لگا جب میں ان کے قریب پہنچا مجھ کو آگ کی ایک خندق اور ہولناک چیزیں پنکھ نظر آئے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا اگر وہ اور نزدیک آتا تو فرشتے اس کو اچک لیتے، اس کا ایک ایک عضو جدا کر ڈالتے ( وحیدی ) کتنے لوگ ایسے بد بخت ہوتے ہیں کہ قدرت کی بہت سی نشانیاں دیکھنے کے باوجود بھی ایمان نہیں لاتے ۔ ابو جہل بد بخت بھی ان ہی لوگوں میں سے تھا جو دل سے اسلام کی حقیقت جانتا اور صداقت محمدی کو مانتا تھا مگر محض قوم کی عار اور تعصب وعناد کی بنا پر مسلمان ہونے کے لئے تیار نہ ہوا ۔ آگے ارشاد باری ہے واسجد واقترب سجدہ کر اور اللہ کی نزدیکی ڈھونڈھ۔ اس میں اشارہ ہے کہ سجدہ میں بندہ اللہ سے بہت نزدیک ہوتا ہے۔ اسی لئے حکم ہے کہ سجدہ میں جاؤ تب دل کھول کر اللہ سے دعائیں کرو کیونکہ سجدے کی دعائیں عموماً قبول ہوتی ہیں۔ کذا جربنا بعون اللہ تعالیٰ وحسن توفیقہ۔
دوسری روایت میں یوں ہے کہ ابو جہل نے اپنے کہنے کے موافق ایک بارکعبے کے پاس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھتے دیکھا۔ وہ آپ کو ایذا دینے کے لئے چلا جب آپ کے قریب پہنچا تو یکا یک ایڑیوں کے بل جھک کر پیچھے ہٹا۔ لوگوں نے پوچھا یہ کیا معاملہ ہے تو تو کہتا تھا میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی گردن کچل ڈالوں گا اب بھاگتا کیوں ہے؟ وہ کہنے لگا جب میں ان کے قریب پہنچا مجھ کو آگ کی ایک خندق اور ہولناک چیزیں پنکھ نظر آئے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا اگر وہ اور نزدیک آتا تو فرشتے اس کو اچک لیتے، اس کا ایک ایک عضو جدا کر ڈالتے ( وحیدی ) کتنے لوگ ایسے بد بخت ہوتے ہیں کہ قدرت کی بہت سی نشانیاں دیکھنے کے باوجود بھی ایمان نہیں لاتے ۔ ابو جہل بد بخت بھی ان ہی لوگوں میں سے تھا جو دل سے اسلام کی حقیقت جانتا اور صداقت محمدی کو مانتا تھا مگر محض قوم کی عار اور تعصب وعناد کی بنا پر مسلمان ہونے کے لئے تیار نہ ہوا ۔ آگے ارشاد باری ہے واسجد واقترب سجدہ کر اور اللہ کی نزدیکی ڈھونڈھ۔ اس میں اشارہ ہے کہ سجدہ میں بندہ اللہ سے بہت نزدیک ہوتا ہے۔ اسی لئے حکم ہے کہ سجدہ میں جاؤ تب دل کھول کر اللہ سے دعائیں کرو کیونکہ سجدے کی دعائیں عموماً قبول ہوتی ہیں۔ کذا جربنا بعون اللہ تعالیٰ وحسن توفیقہ۔