‌صحيح البخاري - حدیث 4954

كِتَابُ تَفْسِيرِ القُرْآنِ سُورَةُ اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ صحيح قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ شِهَابٍ فَأَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَنَّ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيَّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُحَدِّثُ عَنْ فَتْرَةِ الْوَحْيِ قَالَ فِي حَدِيثِهِ بَيْنَا أَنَا أَمْشِي سَمِعْتُ صَوْتًا مِنْ السَّمَاءِ فَرَفَعْتُ بَصَرِي فَإِذَا الْمَلَكُ الَّذِي جَاءَنِي بِحِرَاءٍ جَالِسٌ عَلَى كُرْسِيٍّ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ فَفَرِقْتُ مِنْهُ فَرَجَعْتُ فَقُلْتُ زَمِّلُونِي زَمِّلُونِي فَدَثَّرُوهُ فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ قُمْ فَأَنْذِرْ وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَالرِّجْزَ فَاهْجُرْ قَالَ أَبُو سَلَمَةَ وَهِيَ الْأَوْثَانُ الَّتِي كَانَ أَهْلُ الْجَاهِلِيَّةِ يَعْبُدُونَ قَالَ ثُمَّ تَتَابَعَ الْوَحْيُ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 4954

کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں باب: سورۃ اقراءکی تفسیر محمد بن شہاب نے بیان کیا ، انہیں ابو سلمہ رضی اللہ عنہ نے خبر دی اور ان سے حضرت جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وحی کے کچھ دنوں کے لئے رک جانے کا ذکر فرما رہے تھے ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں چل رہا تھا کہ میں نے اچانک آسمان کی طرف سے ایک آواز سنی ۔ میں نے نظر اٹھا کر دیکھا تو وہی فرشتہ ( جبریل علیہ السلام ) جو میرے پاس غار حرا میں آیا تھا ، آسمان اور زمین کے درمیان کرسی پر بیٹھا ہوا نظر آیا ۔ میں ان سے بہت ڈرا اور گھر واپس آکر میں نے کہا کہ مجھے چادر اڑھا دو چنانچہ گھر والوں نے مجھے چادر اڑھا دی ، پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی یا ایھا المدثر قم فانذر ” اے کپڑے میں لپٹنے والے ! اٹھئے پھر لوگوں کو ڈرایئے اور اپنے پروردگار کی بڑائی بیان کیجئے اور اپنے کپڑوں کو پاک رکھیئے ۔ “ ابوسلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ” الرجز “ جاہلیت کے بت تھے جن کی وہ پرستش کیا کرتے تھے ۔ راوی نے بیان کیا کہ پھر وحی برابر آنے لگی ۔
تشریح : حضرت امام رحمۃ اللہ علیہ اس طویل حدیث کو یہاں اس لئے لائے ہیں کہ اس میں پہلی وحی اقراءباسم ربک الخ کا ذکر ہے نزول قرآن کی ابتدا اسی سے ہوئی۔ ضمنی طور پر اوربھی بہت سی باتیں اس حدیث میں مذکور ہوئی ہیں ۔ حضرت ورقہ بن نوفل، حضرت خدیجہ کے چچا زاد بھائی اس لئے ہوئے کہ حضرت خدیجہ کے والد خویلد اور حضرت ورقہ کے والد نوفل دونوں اسد کے بیٹے اور بھائی بھائی تھے، ورقہ نصرانی ہوگئے تھے مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اس ملاقات سے متاثر ہو کر یہ ایمان لے آئے۔ اقراءباسم ربک کے بعد جو دوسری سورت نازل ہوئی وہ یاایھاالمدثر ہی ہے۔ حضرت امام رحمۃ اللہ علیہ اس طویل حدیث کو یہاں اس لئے لائے ہیں کہ اس میں پہلی وحی اقراءباسم ربک الخ کا ذکر ہے نزول قرآن کی ابتدا اسی سے ہوئی۔ ضمنی طور پر اوربھی بہت سی باتیں اس حدیث میں مذکور ہوئی ہیں ۔ حضرت ورقہ بن نوفل، حضرت خدیجہ کے چچا زاد بھائی اس لئے ہوئے کہ حضرت خدیجہ کے والد خویلد اور حضرت ورقہ کے والد نوفل دونوں اسد کے بیٹے اور بھائی بھائی تھے، ورقہ نصرانی ہوگئے تھے مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اس ملاقات سے متاثر ہو کر یہ ایمان لے آئے۔ اقراءباسم ربک کے بعد جو دوسری سورت نازل ہوئی وہ یاایھاالمدثر ہی ہے۔