‌صحيح البخاري - حدیث 4943

كِتَابُ تَفْسِيرِ القُرْآنِ بَابُ قَوْلِهِ وَالنَّهَارِ إِذَا تَجَلَّى صحيح حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ بْنُ عُقْبَةَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ إِبْرَاهِيمَ عَنْ عَلْقَمَةَ قَالَ دَخَلْتُ فِي نَفَرٍ مِنْ أَصْحَابِ عَبْدِ اللَّهِ الشَّأْمَ فَسَمِعَ بِنَا أَبُو الدَّرْدَاءِ فَأَتَانَا فَقَالَ أَفِيكُمْ مَنْ يَقْرَأُ فَقُلْنَا نَعَمْ قَالَ فَأَيُّكُمْ أَقْرَأُ فَأَشَارُوا إِلَيَّ فَقَالَ اقْرَأْ فَقَرَأْتُ وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَى وَالنَّهَارِ إِذَا تَجَلَّى وَالذَّكَرِ وَالْأُنْثَى قَالَ أَنْتَ سَمِعْتَهَا مِنْ فِي صَاحِبِكَ قُلْتُ نَعَمْ قَالَ وَأَنَا سَمِعْتُهَا مِنْ فِي النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهَؤُلَاءِ يَأْبَوْنَ عَلَيْنَا

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 4943

کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں باب: آیت (( والنھار اذا تجلی )) کی تفسیر ہم سے قبیصہ بن عقبہ نے بیان کیا ، کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا ، ان سے اعمش نے ، ان سے ابراہیم نخعی نے اور ان سے علقمہ بن قیس نے بیان کیا کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے شاگردوں کے ساتھ میں ملک شام پہنچا ہمارے متعلق ابو الدرداءرضی اللہ عنہ نے سنا تو ہم سے ملنے خود تشریف لائے اور دریافت فرمایا تم میں کوئی قرآن مجید کا قاری بھی ہے ؟ ہم سے کہا جی ہاں ہے ۔ دریافت فرمایا کہ سب سے اچھا قاری کون ہے ؟ لوگوں نے میری طرف اشارہ کیا ۔ آپ نے فرمایا کہ پھر کوئی آیت تلاوت کرو ۔ میں نے واللیل اذا یغشی والنھار اذا تجلٰی و الذکر والانثی کی تلاوت کی ۔ ابوالدرداءرضی اللہ عنہ نے پوچھا کی تم نے خود یہ آیت اپنے استاد عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی زبانی اسی طرح سنی ہے ؟ میں نے کہا جی ہاں ۔ انہوں نے اس پر کہاکہ میں نے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی یہ آیت اسی طرح سنی ہے ، لیکن یہ شام والے ہم پر انکار کرتے ہیں ۔
تشریح : ( اس کی بجائے وہ مشہور قرات ” وما خلق الذکر والانثیٰ “ پڑھتے تھے۔ ) شام والے مشہور ومتفق علیہ قرات کرتے تھے مگر حضرت ابوالدرداءرضی اللہ عنہ نے اس آیت کو دوسرے طرز پر سنا تھا، وہ اسی پر مصر تھے پس خاطی کوئی بھی نہیں ہے۔ سات قراتوں کا یہی مطلب ہے۔ ( اس کی بجائے وہ مشہور قرات ” وما خلق الذکر والانثیٰ “ پڑھتے تھے۔ ) شام والے مشہور ومتفق علیہ قرات کرتے تھے مگر حضرت ابوالدرداءرضی اللہ عنہ نے اس آیت کو دوسرے طرز پر سنا تھا، وہ اسی پر مصر تھے پس خاطی کوئی بھی نہیں ہے۔ سات قراتوں کا یہی مطلب ہے۔