كِتَابُ تَفْسِيرِ القُرْآنِ بَابُ قَوْلِهِ {تَبْتَغِي مَرْضَاةَ أَزْوَاجِكَ} صحيح حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ عَنْ يَحْيَى عَنْ عُبَيْدِ بْنِ حُنَيْنٍ أَنَّهُ سَمِعَ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا يُحَدِّثُ أَنَّهُ قَالَ مَكَثْتُ سَنَةً أُرِيدُ أَنْ أَسْأَلَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ عَنْ آيَةٍ فَمَا أَسْتَطِيعُ أَنْ أَسْأَلَهُ هَيْبَةً لَهُ حَتَّى خَرَجَ حَاجًّا فَخَرَجْتُ مَعَهُ فَلَمَّا رَجَعْنَا وَكُنَّا بِبَعْضِ الطَّرِيقِ عَدَلَ إِلَى الْأَرَاكِ لِحَاجَةٍ لَهُ قَالَ فَوَقَفْتُ لَهُ حَتَّى فَرَغَ ثُمَّ سِرْتُ مَعَهُ فَقُلْتُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ مَنْ اللَّتَانِ تَظَاهَرَتَا عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَزْوَاجِهِ فَقَالَ تِلْكَ حَفْصَةُ وَعَائِشَةُ قَالَ فَقُلْتُ وَاللَّهِ إِنْ كُنْتُ لَأُرِيدُ أَنْ أَسْأَلَكَ عَنْ هَذَا مُنْذُ سَنَةٍ فَمَا أَسْتَطِيعُ هَيْبَةً لَكَ قَالَ فَلَا تَفْعَلْ مَا ظَنَنْتَ أَنَّ عِنْدِي مِنْ عِلْمٍ فَاسْأَلْنِي فَإِنْ كَانَ لِي عِلْمٌ خَبَّرْتُكَ بِهِ قَالَ ثُمَّ قَالَ عُمَرُ وَاللَّهِ إِنْ كُنَّا فِي الْجَاهِلِيَّةِ مَا نَعُدُّ لِلنِّسَاءِ أَمْرًا حَتَّى أَنْزَلَ اللَّهُ فِيهِنَّ مَا أَنْزَلَ وَقَسَمَ لَهُنَّ مَا قَسَمَ قَالَ فَبَيْنَا أَنَا فِي أَمْرٍ أَتَأَمَّرُهُ إِذْ قَالَتْ امْرَأَتِي لَوْ صَنَعْتَ كَذَا وَكَذَا قَالَ فَقُلْتُ لَهَا مَا لَكَ وَلِمَا هَا هُنَا وَفِيمَ تَكَلُّفُكِ فِي أَمْرٍ أُرِيدُهُ فَقَالَتْ لِي عَجَبًا لَكَ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ مَا تُرِيدُ أَنْ تُرَاجَعَ أَنْتَ وَإِنَّ ابْنَتَكَ لَتُرَاجِعُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى يَظَلَّ يَوْمَهُ غَضْبَانَ فَقَامَ عُمَرُ فَأَخَذَ رِدَاءَهُ مَكَانَهُ حَتَّى دَخَلَ عَلَى حَفْصَةَ فَقَالَ لَهَا يَا بُنَيَّةُ إِنَّكِ لَتُرَاجِعِينَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى يَظَلَّ يَوْمَهُ غَضْبَانَ فَقَالَتْ حَفْصَةُ وَاللَّهِ إِنَّا لَنُرَاجِعُهُ فَقُلْتُ تَعْلَمِينَ أَنِّي أُحَذِّرُكِ عُقُوبَةَ اللَّهِ وَغَضَبَ رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا بُنَيَّةُ لَا يَغُرَّنَّكِ هَذِهِ الَّتِي أَعْجَبَهَا حُسْنُهَا حُبُّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِيَّاهَا يُرِيدُ عَائِشَةَ قَالَ ثُمَّ خَرَجْتُ حَتَّى دَخَلْتُ عَلَى أُمِّ سَلَمَةَ لِقَرَابَتِي مِنْهَا فَكَلَّمْتُهَا فَقَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ عَجَبًا لَكَ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ دَخَلْتَ فِي كُلِّ شَيْءٍ حَتَّى تَبْتَغِيَ أَنْ تَدْخُلَ بَيْنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَزْوَاجِهِ فَأَخَذَتْنِي وَاللَّهِ أَخْذًا كَسَرَتْنِي عَنْ بَعْضِ مَا كُنْتُ أَجِدُ فَخَرَجْتُ مِنْ عِنْدِهَا وَكَانَ لِي صَاحِبٌ مِنْ الْأَنْصَارِ إِذَا غِبْتُ أَتَانِي بِالْخَبَرِ وَإِذَا غَابَ كُنْتُ أَنَا آتِيهِ بِالْخَبَرِ وَنَحْنُ نَتَخَوَّفُ مَلِكًا مِنْ مُلُوكِ غَسَّانَ ذُكِرَ لَنَا أَنَّهُ يُرِيدُ أَنْ يَسِيرَ إِلَيْنَا فَقَدْ امْتَلَأَتْ صُدُورُنَا مِنْهُ فَإِذَا صَاحِبِي الْأَنْصَارِيُّ يَدُقُّ الْبَابَ فَقَالَ افْتَحْ افْتَحْ فَقُلْتُ جَاءَ الْغَسَّانِيُّ فَقَالَ بَلْ أَشَدُّ مِنْ ذَلِكَ اعْتَزَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَزْوَاجَهُ فَقُلْتُ رَغَمَ أَنْفُ حَفْصَةَ وَعَائِشَةَ فَأَخَذْتُ ثَوْبِي فَأَخْرُجُ حَتَّى جِئْتُ فَإِذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَشْرُبَةٍ لَهُ يَرْقَى عَلَيْهَا بِعَجَلَةٍ وَغُلَامٌ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَسْوَدُ عَلَى رَأْسِ الدَّرَجَةِ فَقُلْتُ لَهُ قُلْ هَذَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ فَأَذِنَ لِي قَالَ عُمَرُ فَقَصَصْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذَا الْحَدِيثَ فَلَمَّا بَلَغْتُ حَدِيثَ أُمِّ سَلَمَةَ تَبَسَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَإِنَّهُ لَعَلَى حَصِيرٍ مَا بَيْنَهُ وَبَيْنَهُ شَيْءٌ وَتَحْتَ رَأْسِهِ وِسَادَةٌ مِنْ أَدَمٍ حَشْوُهَا لِيفٌ وَإِنَّ عِنْدَ رِجْلَيْهِ قَرَظًا مَصْبُوبًا وَعِنْدَ رَأْسِهِ أَهَبٌ مُعَلَّقَةٌ فَرَأَيْتُ أَثَرَ الْحَصِيرِ فِي جَنْبِهِ فَبَكَيْتُ فَقَالَ مَا يُبْكِيكَ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ كِسْرَى وَقَيْصَرَ فِيمَا هُمَا فِيهِ وَأَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ فَقَالَ أَمَا تَرْضَى أَنْ تَكُونَ لَهُمْ الدُّنْيَا وَلَنَا الْآخِرَةُ
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
باب: آیت (( تبتغی مرضات ازواجک الایۃ ))
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا ، کہا ہم سے سلیمان بن بلال نے بیان کیا ، ان سے یحییٰ نے ، ان سے عبید بن حنین نے کہ انہوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کو حدیث بیان کرتے ہوئے سنا ، انہوں نے کہا ایک آیت کے متعلق حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے پوچھنے کے لئے ایک سال تک میں تردد میں رہا ، ان کا اتنا ڈر غالب تھا کہ میں ان سے نہ پوچھ سکا ۔ آخر وہ حج کے لئے گئے تو میں بھی ان کے ساتھ ہولیا ، واپسی میں جب ہم راستہ میں تھے تو رفع حاجت کے لئے وہ پیلوکے درخت میں گئے ۔ بیان کیا کہ میں ان کے انتظار میں کھڑا رہا جب وہ فارغ ہو کر آئے تو پھر میں ان کے ساتھ چلا اس وقت میں نے عرض کیا ۔ امیر المؤمنین ! امہات المؤمنین میں وہ کون دو عورتیں تھیں جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے متفقہ منصوبہ بنایا تھا ؟ انہوں نے بتلایا کہ حفصہ اور عائشہ رضی اللہ عنہما تھیں ۔ بیان کیا کہ میں نے عرض کیا اللہ کی قسم میں یہ سوال آپ سے کرنے کے لئے ایک سال سے ارادہ کر رہا تھا لیکن آپ کے رعب کی وجہ سے پوچھنے کی ہمت نہیں ہوتی تھی ۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے کہا ایسا نہ کیا کرو جس مسئلہ کے متعلق تمہارا خیال ہو کہ میرے پاس اس سلسلے میں کوئی علم ہے تو اسے پوچھ لیا کرو ، اگر میرے پاس اس کا کوئی علم ہوگا تو تمہیں بتادیا کروں گا ۔ بیان کیا کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے کہا اللہ کی قسم ! جاہلیت میں ہماری نظر میں عورتوں کی کوئی عزت نہ تھی ۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں وہ احکام نازل کئے جو نازل کرنے تھے اور ان کے حقوق مقرر کئے جو مقرر کرنے تھے ۔ بتلایا کہ ایک دن میں سوچ رہا تھا کہ میری بیوی نے مجھ سے کہا کہ بہتر ہے اگر تم اس معاملہ کا فلاں فلاں طرح کرو ، میں نے کہا تمہارا اس میں کیا کام ۔ معاملہ مجھ سے متعلق ہے تم اس میں دخل دینے والے کون ہوتی ہو ؟ میری بیوی نے اس پر کہا خطاب کے بیٹے ! تمہارے اس طرز عمل پر حیرت ہے تم اپنی باتوں کا جواب برداشت نہیں کر سکتے تمہاری لڑکی ( حفصہ ) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی جواب دے دیتی ہیں ایک دن تو اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو غصہ بھی کر دیا تھا ۔ یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کھڑے ہوگئے اور اپنی چادر اوڑھ کر حضرت حفصہ کے گھر پہنچے اور فرمایا بیٹی ! کیا تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں کا جواب دے دیتی ہو یہاں تک کہ ایک دن تم نے آنحضرت کو دن بھر ناراض بھی رکھا ہے ۔ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا ہاں اللہ کی قسم ! ہم آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی جواب دے دیتے ہیں ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے کہا جان لو میں تمہیں اللہ کی سزا اور اس کے رسول کی سزا ( ناراضگی ) سے ڈراتاہوں ۔ بیٹی ! اس عورت کی وجہ سے دھوکامیں نہ آجانا جس نے حضور اکرم کی محبت حاصل کرلی ہے ۔ ان کا اشارہ حضرت عائشہ کی طرف تھا کہا کہ پھر میں وہاں سے نکل کر ام المؤمنین حضرت ام سلمہ کے پاس آیا کیونکہ وہ بھی میری رشتہ دار تھیں ۔ میں نے ان سے بھی گفتگو کی انہوں نے کہا ابن خطاب ! تعجب ہے کہ آپ ہر معاملہ میں دخل اندازی کرتے ہیںاور آپ چاہتے ہیں کہ آنحضرت اور ان کی ازواج کے معاملات میں بھی دخل دیں ۔ اللہ کی قسم ! انہوں نے میری ایسی گرفت کی کہ میرے غصہ کو ٹھنڈا کرکے رکھ دیا ، میں ان کے گھر سے باہر نکل آیا ۔ میرے ایک انصاری دوست تھے ، جب میں آنحضرت کی مجلس میں حاضر نہ ہوتا تو وہ مجلس کی تمام باتیں مجھ سے آکر بتایا کرتے اور واجب وہ حاضر نہ ہوتے تو میں انہیں آکر بتایاکرتا تھا ۔ اس زمانہ میں ہمیں غسان کے بادشاہ کی طرف سے ڈر تھا اطلاع ملی تھی کہ وہ مدینہ پر چڑھائی کرنے کا ارادہ کر رہا ہے ، اس زمانہ میں کئی عیسائی وایرانی بادشاہ ایسا غلط گھمنڈ رکھتے تھے کہ یہ مسلمان کیا ہیں ہم جب چاہیں گے ان کا صفایا کر دیں گے مگر یہ سارے خیالات غلط ثابت ہوئے اللہ نے اسلام کو غالب کیا ۔ چنانچہ ہم کو ہر وقت یہی خطرہ رہتا تھا ، ایک دن اچانک میرے انصاری دوست نے دروازہ کھٹکھٹایا اور کہا کھولو ! کھولو ! کھولو ! میں نے کہا معلوم ہوتا ہے غسانی آگئے ۔ انہوں نے کہا بلکہ اس سے بھی زیادہ اہم معاملہ پیش آگیا ہے ، وہ یہ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں سے علیحدگی اختیار کر لی ہے ۔ میں نے کہا حفصہ اور عائشہ رضی اللہ عنہما کی ناک غبار آلود ہو ۔ چنانچہ میںنے اپنا کپڑا پہنا اور باہر نکل آیا ۔ میں جب پہنچا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بالاخانہ میں تشریف رکھتے تھے جس پر سیڑھی سے چڑھا جاتا تھا ۔ آنحضرت کا ایک حبشی غلام ( رباح ) سیڑھی کے سرے پر موجود تھا ، میں نے کہا آنحضرت سے عرض کرو کہ عمربن خطاب رضی اللہ عنہ آیا ہے اور اندر آنے کی اجازت چاہتا ہے ۔ میں نے آنحضرت کی خدمت میںپہنچ کر اپنا سارا واقعہ سنایا ۔ جب میں حضرت ام سلمہ کی گفتگو پر پہنچا تو آپ کو ہنسی آگئی ۔ اس وقت آنحضرت صلی اللہ علےہ وسلم کھجور کی ایک چٹائی پر تشریف رکھتے تھے آپ کے جسم مبارک اور اس چٹائی کے درمیان کوئی اور چیز نہیں تھی آپ کے سر کے نیچے ایک چمڑے کا تکیہ تھا ۔ جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی ۔ پاؤں کی طرف کےکرے کے پتوں کا ڈھیر تھا اور سر کی طرف مشکیزہ لٹک رہا تھا ۔ میں نے چٹائی کے نشانات آپ کے پہلو پر دیکھے تو رو پڑا ۔ آپ نے فرمایا ، کس بات پررونے لگے ہو میں نے عرض کی یارسول اللہ ! قیصر وکسریٰ کودنیا کا ہر طرح کا آرام مل رہا ہے آپ اللہ کے رسول ہیں ( آپ پھر ایسی تنگ زندگی گزارتے ہیں ) آنحضرت نے فرمایا کیاتم اس پر خوش نہیں ہو کہ ان کے حصہ میں دنیا ہے اور ہمارے حصہ میں آخرت ہے ۔
تشریح :
روایت میں ضمنی طور پر بہت سی باتیں ذکر میں آگئی ہیں خاص طور پر حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فاروقی جلال کا بیان بڑے اونچے لفظوں میں بیان فرمایا ہے اس پر مولانا وحیدالزماں مرحوم کا نوٹ درج ذیل ہے۔
ہیبت حق ست ایں از خلق نیست
ہیبت ایں مرد صاحب دلق نیست
” حضرت عمر کا جاہ و جلال ایسا ہی تھا یہ اللہ کی طرف سے تھا اتنا سخت ترین رعب کہ موافق مخالف سب تھراتے رہتے تھے۔ مقابلہ تو کیا چیز ہے مقابلہ کے خیال کی بھی کسی کو جرات نہیں ہوتی ۔ “ اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ دس بارہ سال اورزندہ رہتے تو ساری دنیا میں اسلام ہی اسلام نظر آتا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے مخالفین جو شیعہ اور روافض ہیں وہ بھی آپ کے حسن انتظام اور خوبی سیاست اور جلال اور دبدبہ کے معترف ہیں۔ ایک مجلس میں چند رافضی بیٹھے ہوئے جناب عمر کی شان میں کچھ بے ادبی کی باتیں کر رہے تھے، انہیں میں سے ایک باانصاف شخص نے کہا کہ حضرت عمر کو انتقال کئے ہوئے آج تیرہ سو برس گزر چکے ہیں اب تم ان کی برائی کرتے ہو بھلا سچ کہنا اگر حضرت عمر ایک تلوار کاندھے پر رکھے ہوئے اس وقت تمہارے سامنے آجائیں تو تم ایسی باتیں کر سکو گے۔ انہوں نے اقرار کیا کہ اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ سامنے آجائیں تو ہمارے منہ سے بات نہ نکلے ( ص ) ۔ اس موقع پر حضرت عمر کا بیان دوسری روایت میں یوں ہے جب میں آپ کے پاس پہنچا دیکھا تو آپ کے چہرے پر ملال معلوم ہوتا تھا میں نے ادھر ادھر کی باتیں شروع کیں گویا آپ کا دل بہلایا پھر ذکر کرتے کرتے میں نے کہا یا رسول اللہ ! میری جورو اگر مجھ سے بڑھ بڑھ کر کچھ مانگے تو میں اس کی گردن ہی توڑ ڈالوں ، اس پر آپ ہنس دیئے آپ کا رنج جاتا رہا۔ سبحان اللہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی دانائی اور لیاقت اور علم مجلسی پر آفریں۔ مسلمانو! دیکھو پیغمبر کا عشق اس کو کہتے ہیں۔ پیغمبر صاحب کا رنج صحابہ کو ذرا بھی گوارا نہیں تھا۔ اپنی بیٹیوں کو ٹھونکنے اور تنبیہ کرنے پر مستعد تھے۔ افسوس ہے کہ ایسے بزرگان دین عاشقان رسول پر ہم تہمتیں باندھیں اور اس زمانہ کے بد معاش منافق لوگوں پر قیاس کرکے ان کی برائی کریں۔ یہ شیطان ہے جو تم کو تباہ کرنا چاہتا ہے اور بزرگان دین نثار ان سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت تم کو بدگمان بناتا ہے توبہ کرو توبہ لا حول ولا قوۃ الا باللہ ( وحیدی )
روایت میں سلم کے پتوں کا ذکر ہے۔ سلم قرظ کو کہتے ہیں جس کے پتوں سے چمڑا صاف کرتے ہیں غالباً کیکر کا درخت ہے جس کی چھال سے چمڑہ رنگا جاتا ہے۔ اس موقع پر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بے سرو سامانی دیکھ کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا اظہار ملال بھی بجا تھاہائے بادشاہ کو نین نے دنیا میں زندگی بے سروسامانی اور تکلیف کے ساتھ بسر کی۔ مسلمانو! ہمارے سردارنے دنیا اس طرح کاٹی توہم کیوں اپنی بے سروسامانی اور مفلسی پر رنج کریں اور دنیا کے بے حقیقت اور فانی مال ومتاع کے لئے ان دنیا دار کتوں سے کیوں ڈریں۔ یہ ہمارا کیا بگاڑ سکتے ہیں ایک بوریا اور ایک پانی کا کوزہ ہم کو کہیں بھی مل جائے گا۔ کوئی ہم کو ڈراتا ہے دیکھوشرع کی سچی بات کہو گے تو نوکری چھن جائے گی کوئی کہتا ہے شہر سے نکالے جاؤ گے۔ ارے بے وقوفو! شہر سے نکالیں گے پر زمین سے نہیں نکال سکتے۔ ساری زمین میں کہیں بھی رہ جائیں گے نوکری چھین لیں گے تو چھین لیں ہم تجارت اور محنت کرکے اپنی روٹی کمالیں گے۔ پروردگار رازق مطلق ہے وہ جب تک زندگی ہے کسی بہانے سے روٹی دے گا۔ تم لاکھ ڈراؤ ہم ڈرانے والے نہیں ہمارا بھروسہ اللہ پر ہے۔ وعلی اللہ فلیتوکل المومنون ( وحیدی ) حضرت حفصہ جن کا روایت میں ذکر ہے حضرت عمر بن خطاب کی صاحبزادی ہیں، ان کی والدہ زینب ہیں جو مظعون کی بیٹی ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے یہ حضرت خنیس بن حذافہ سہمی کے نکاح میں تھیں اور حضرت خنیس کے ہمراہ ہجرت کر گئی تھی ، غزوہ بدر کے بعد حضرت خنیس کا انتقال ہو گیا۔ پھر حضرت عمر نے ان کا نکاح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کر دیا۔ یہ 3ھ کا واقعہ ہے ۔ ایک موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ایک طلاق دے دی تھی لیکن اللہ پاک نے آپ پر وحی سے اطلاع کردی کہ حفصہ سے رجوع کر لو کیونکہ وہ بہت روزہ رکھتی ہیں، رات کو عبادت کرنے والی ہیں اور وہ جنت میں بھی آپ کی زوجہ رہیں گی۔ چنانچہ آپ نے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے رجوع کرلیا۔ ان کی وفات شعبان45ھ میں بعمر60 سال ہوئی۔ رضی اللہ عنہا وارضاھا ( آمین )
روایت میں ضمنی طور پر بہت سی باتیں ذکر میں آگئی ہیں خاص طور پر حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فاروقی جلال کا بیان بڑے اونچے لفظوں میں بیان فرمایا ہے اس پر مولانا وحیدالزماں مرحوم کا نوٹ درج ذیل ہے۔
ہیبت حق ست ایں از خلق نیست
ہیبت ایں مرد صاحب دلق نیست
” حضرت عمر کا جاہ و جلال ایسا ہی تھا یہ اللہ کی طرف سے تھا اتنا سخت ترین رعب کہ موافق مخالف سب تھراتے رہتے تھے۔ مقابلہ تو کیا چیز ہے مقابلہ کے خیال کی بھی کسی کو جرات نہیں ہوتی ۔ “ اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ دس بارہ سال اورزندہ رہتے تو ساری دنیا میں اسلام ہی اسلام نظر آتا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے مخالفین جو شیعہ اور روافض ہیں وہ بھی آپ کے حسن انتظام اور خوبی سیاست اور جلال اور دبدبہ کے معترف ہیں۔ ایک مجلس میں چند رافضی بیٹھے ہوئے جناب عمر کی شان میں کچھ بے ادبی کی باتیں کر رہے تھے، انہیں میں سے ایک باانصاف شخص نے کہا کہ حضرت عمر کو انتقال کئے ہوئے آج تیرہ سو برس گزر چکے ہیں اب تم ان کی برائی کرتے ہو بھلا سچ کہنا اگر حضرت عمر ایک تلوار کاندھے پر رکھے ہوئے اس وقت تمہارے سامنے آجائیں تو تم ایسی باتیں کر سکو گے۔ انہوں نے اقرار کیا کہ اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ سامنے آجائیں تو ہمارے منہ سے بات نہ نکلے ( ص ) ۔ اس موقع پر حضرت عمر کا بیان دوسری روایت میں یوں ہے جب میں آپ کے پاس پہنچا دیکھا تو آپ کے چہرے پر ملال معلوم ہوتا تھا میں نے ادھر ادھر کی باتیں شروع کیں گویا آپ کا دل بہلایا پھر ذکر کرتے کرتے میں نے کہا یا رسول اللہ ! میری جورو اگر مجھ سے بڑھ بڑھ کر کچھ مانگے تو میں اس کی گردن ہی توڑ ڈالوں ، اس پر آپ ہنس دیئے آپ کا رنج جاتا رہا۔ سبحان اللہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی دانائی اور لیاقت اور علم مجلسی پر آفریں۔ مسلمانو! دیکھو پیغمبر کا عشق اس کو کہتے ہیں۔ پیغمبر صاحب کا رنج صحابہ کو ذرا بھی گوارا نہیں تھا۔ اپنی بیٹیوں کو ٹھونکنے اور تنبیہ کرنے پر مستعد تھے۔ افسوس ہے کہ ایسے بزرگان دین عاشقان رسول پر ہم تہمتیں باندھیں اور اس زمانہ کے بد معاش منافق لوگوں پر قیاس کرکے ان کی برائی کریں۔ یہ شیطان ہے جو تم کو تباہ کرنا چاہتا ہے اور بزرگان دین نثار ان سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت تم کو بدگمان بناتا ہے توبہ کرو توبہ لا حول ولا قوۃ الا باللہ ( وحیدی )
روایت میں سلم کے پتوں کا ذکر ہے۔ سلم قرظ کو کہتے ہیں جس کے پتوں سے چمڑا صاف کرتے ہیں غالباً کیکر کا درخت ہے جس کی چھال سے چمڑہ رنگا جاتا ہے۔ اس موقع پر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بے سرو سامانی دیکھ کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا اظہار ملال بھی بجا تھاہائے بادشاہ کو نین نے دنیا میں زندگی بے سروسامانی اور تکلیف کے ساتھ بسر کی۔ مسلمانو! ہمارے سردارنے دنیا اس طرح کاٹی توہم کیوں اپنی بے سروسامانی اور مفلسی پر رنج کریں اور دنیا کے بے حقیقت اور فانی مال ومتاع کے لئے ان دنیا دار کتوں سے کیوں ڈریں۔ یہ ہمارا کیا بگاڑ سکتے ہیں ایک بوریا اور ایک پانی کا کوزہ ہم کو کہیں بھی مل جائے گا۔ کوئی ہم کو ڈراتا ہے دیکھوشرع کی سچی بات کہو گے تو نوکری چھن جائے گی کوئی کہتا ہے شہر سے نکالے جاؤ گے۔ ارے بے وقوفو! شہر سے نکالیں گے پر زمین سے نہیں نکال سکتے۔ ساری زمین میں کہیں بھی رہ جائیں گے نوکری چھین لیں گے تو چھین لیں ہم تجارت اور محنت کرکے اپنی روٹی کمالیں گے۔ پروردگار رازق مطلق ہے وہ جب تک زندگی ہے کسی بہانے سے روٹی دے گا۔ تم لاکھ ڈراؤ ہم ڈرانے والے نہیں ہمارا بھروسہ اللہ پر ہے۔ وعلی اللہ فلیتوکل المومنون ( وحیدی ) حضرت حفصہ جن کا روایت میں ذکر ہے حضرت عمر بن خطاب کی صاحبزادی ہیں، ان کی والدہ زینب ہیں جو مظعون کی بیٹی ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے یہ حضرت خنیس بن حذافہ سہمی کے نکاح میں تھیں اور حضرت خنیس کے ہمراہ ہجرت کر گئی تھی ، غزوہ بدر کے بعد حضرت خنیس کا انتقال ہو گیا۔ پھر حضرت عمر نے ان کا نکاح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کر دیا۔ یہ 3ھ کا واقعہ ہے ۔ ایک موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ایک طلاق دے دی تھی لیکن اللہ پاک نے آپ پر وحی سے اطلاع کردی کہ حفصہ سے رجوع کر لو کیونکہ وہ بہت روزہ رکھتی ہیں، رات کو عبادت کرنے والی ہیں اور وہ جنت میں بھی آپ کی زوجہ رہیں گی۔ چنانچہ آپ نے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے رجوع کرلیا۔ ان کی وفات شعبان45ھ میں بعمر60 سال ہوئی۔ رضی اللہ عنہا وارضاھا ( آمین )