كِتَابُ تَفْسِيرِ القُرْآنِ بَابُ قَوْلِهِ {وَأُولاَتُ الأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَنْ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ، وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مِنْ أَمْرِهِ يُسْرًا} صحيح وَقَالَ سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ وَأَبُو النُّعْمَانِ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ مُحَمَّدٍ قَالَ كُنْتُ فِي حَلْقَةٍ فِيهَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي لَيْلَى وَكَانَ أَصْحَابُهُ يُعَظِّمُونَهُ فَذَكَرُوا لَهُ فَذَكَرَ آخِرَ الْأَجَلَيْنِ فَحَدَّثْتُ بِحَدِيثِ سُبَيْعَةَ بِنْتِ الْحَارِثِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ قَالَ فَضَمَّزَ لِي بَعْضُ أَصْحَابِهِ قَالَ مُحَمَّدٌ فَفَطِنْتُ لَهُ فَقُلْتُ إِنِّي إِذًا لَجَرِيءٌ إِنْ كَذَبْتُ عَلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ وَهُوَ فِي نَاحِيَةِ الْكُوفَةِ فَاسْتَحْيَا وَقَالَ لَكِنْ عَمُّهُ لَمْ يَقُلْ ذَاكَ فَلَقِيتُ أَبَا عَطِيَّةَ مَالِكَ بْنَ عَامِرٍ فَسَأَلْتُهُ فَذَهَبَ يُحَدِّثُنِي حَدِيثَ سُبَيْعَةَ فَقُلْتُ هَلْ سَمِعْتَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ فِيهَا شَيْئًا فَقَالَ كُنَّا عِنْدَ عَبْدِ اللَّهِ فَقَالَ أَتَجْعَلُونَ عَلَيْهَا التَّغْلِيظَ وَلَا تَجْعَلُونَ عَلَيْهَا الرُّخْصَةَ لَنَزَلَتْ سُورَةُ النِّسَاءِ الْقُصْرَى بَعْدَ الطُّولَى وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَنْ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
باب: آیت (( واولات الاحمال اجلھن ان یضعن حملھن )) کی تفسیر
اور سلیمان بن حرب اور النعمان نے بیان کیا ، کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا ، ان سے ایوب نے اور ان سے محمد بن سیرین نے بیان کیا کہ میں ایک مجلس میں جس میں عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ بھی تھے موجود تھا ۔ ان کے شاگرد ان کی بہت عزت کیا کرتے تھے ۔ میں نے وہاں سبیعہ بنت الحارث کا عبداللہ بن عتبہ بن مسعود سے بیان کیا کہ اس پر ان کے شاگرد نے زبان اور آنکھوں کے اشارے سے ہونٹ کاٹ کر مجھے تنبیہ کی ۔ محمد بن سیرین نے بیان کیا کہ میں سمجھ گیا اور کہا کہ عبداللہ بن عتبہ کوفہ میں ابھی زندہ موجود ہیں ۔ اگر میں ان کی طرف بھی جھوٹ نسبت کرتا ہوں تو بڑی جرات کی بات ہوگی مجھے تنبیہ کرنے والے صاحب اس پر شرمندہ ہوگئے اور عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ نے کہا لیکن ان کے چچا تویہ بات نہیں کرتے تھے ( ابن سیرین نے بیان کیاکہ ) پھر میں ابو عطیہ مالک بن عامر سے ملا اوران سے یہ مسئلہ پوچھا وہ بھی سبیعہ والی حدیث بیان کرنے لگے لیکن میں نے ان سے کہا آپ نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بھی اس سلسلہ میں کچھ سنا ہے ؟ انہوں نے بیان کیا کہ ہم حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر تھے تو انہوں نے کہا کیا تم اس پر ( جس کے شوہر کا انتقال ہو گیا اور وہ حاملہ ہو ۔ عدت کی مدت کو طول دے کر ) سختی کرنا چاہتے ہو اور رخصت وسہولت دینے کے لئے تیار نہیں ، بات یہ ہے کہ چھوٹی سورۃ نساءیعنی ( سورۃ الطلاق ) بڑی سورۃ النساءکے بعدنازل ہوئی ہے اور کہا واولات الاحمال اجلھن ان یضعن حملھن الایۃ اور حمل والیوں کی عدت ان کے حمل کا پیدا ہوجانا ہے ۔
تشریح :
لمبی مدت سے جس کا خاوند فوت ہو گیا ہو چار ماہ اور دس دن مراد ہیں۔ حاملہ عورت جس کا شوہر وفات پا گیا ہو ان کی عدت سے متعلق عدت کے سلسلے میں جمہور کا یہی مسلک ہے کہ بچہ کا پیدا ہو جانا ہی اس کی عدت ہے اوراس کے بعد وہ دوسرا نکاح کرسکتی ہے خواہ مدت طویل ہو یا مختصر ۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا بھی یہی مسلک تھا پس ان کے بارے میں حضرت عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ کا خیال صحیح نہیں تھا جیسا کہ مالک بن عامر کی روایت سے ظاہر ہوتا ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ مدت طویل کے قائل تھے مگر یہ خیال ان کا صحیح نہ تھا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کو عام عربی محاورہ کے مطابق اپنا بھتیجا کہہ دیا جبکہ ان میں کوئی ظاہری قرابت نہ تھی۔
لمبی مدت سے جس کا خاوند فوت ہو گیا ہو چار ماہ اور دس دن مراد ہیں۔ حاملہ عورت جس کا شوہر وفات پا گیا ہو ان کی عدت سے متعلق عدت کے سلسلے میں جمہور کا یہی مسلک ہے کہ بچہ کا پیدا ہو جانا ہی اس کی عدت ہے اوراس کے بعد وہ دوسرا نکاح کرسکتی ہے خواہ مدت طویل ہو یا مختصر ۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا بھی یہی مسلک تھا پس ان کے بارے میں حضرت عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ کا خیال صحیح نہیں تھا جیسا کہ مالک بن عامر کی روایت سے ظاہر ہوتا ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ مدت طویل کے قائل تھے مگر یہ خیال ان کا صحیح نہ تھا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کو عام عربی محاورہ کے مطابق اپنا بھتیجا کہہ دیا جبکہ ان میں کوئی ظاہری قرابت نہ تھی۔