‌صحيح البخاري - حدیث 4905

كِتَابُ تَفْسِيرِ القُرْآنِ بَابُ قَوْلِهِ: {سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَسْتَغْفَرْتَ لَهُمْ أَمْ لَمْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ، لَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ لَهُمْ، إِنَّ اللَّهَ لاَ يَهْدِي القَوْمَ الفَاسِقِينَ} صحيح حَدَّثَنَا عَلِيٌّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ قَالَ عَمْرٌو سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ كُنَّا فِي غَزَاةٍ قَالَ سُفْيَانُ مَرَّةً فِي جَيْشٍ فَكَسَعَ رَجُلٌ مِنْ الْمُهَاجِرِينَ رَجُلًا مِنْ الْأَنْصَارِ فَقَالَ الْأَنْصَارِيُّ يَا لَلْأَنْصَارِ وَقَالَ الْمُهَاجِرِيُّ يَا لَلْمُهَاجِرِينَ فَسَمِعَ ذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ مَا بَالُ دَعْوَى الْجَاهِلِيَّةِ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ كَسَعَ رَجُلٌ مِنْ الْمُهَاجِرِينَ رَجُلًا مِنْ الْأَنْصَارِ فَقَالَ دَعُوهَا فَإِنَّهَا مُنْتِنَةٌ فَسَمِعَ بِذَلِكَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ فَقَالَ فَعَلُوهَا أَمَا وَاللَّهِ لَئِنْ رَجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ لَيُخْرِجَنَّ الْأَعَزُّ مِنْهَا الْأَذَلَّ فَبَلَغَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَامَ عُمَرُ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ دَعْنِي أَضْرِبْ عُنُقَ هَذَا الْمُنَافِقِ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَعْهُ لَا يَتَحَدَّثُ النَّاسُ أَنَّ مُحَمَّدًا يَقْتُلُ أَصْحَابَهُ وَكَانَتْ الْأَنْصَارُ أَكْثَرَ مِنْ الْمُهَاجِرِينَ حِينَ قَدِمُوا الْمَدِينَةَ ثُمَّ إِنَّ الْمُهَاجِرِينَ كَثُرُوا بَعْدُ قَالَ سُفْيَانُ فَحَفِظْتُهُ مِنْ عَمْرٍو قَالَ عَمْرٌو سَمِعْتُ جَابِرًا كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 4905

کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں باب: آیت (( سواءعلیھم استغفرت لھم ام لم تستغفرلھم لن یغفراللہ لھم الایۃ )) کی تفسیر ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا ، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا کہ ان سے عمرو بن دینار نے بیان کیا اور انہوں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے سنا ، انہوں نے بیان کیا کہ ہم ایک غزوہ ( تبوک ) میں تھے ۔ سفیان نے ایک مرتبہ ( بجائے غزوہ کے ) ” جیش “ ( لشکر ) کا لفظ کہا ۔ مہاجرین میں سے ایک آدمی نے انصار کے ایک آدمی کو لات ماردی ۔ انصاری نے کہا کہ یا للانصار یعنی اے انصاریو ! دوڑو اور مہاجر نے کہا یا للمھاجرین یعنی اے مہاجرین ! دوڑو ۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسے سنا اور فرمایا کیا قصہ ہے ؟ یہ جاہلیت کی پکار کیسی ہے ؟ لوگوں نے بتایا کہ یا رسول اللہ ! ایک مہاجر نے ایک انصاری کو لات سے مار دیا ہے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس طرح جاہلیت کی پکار کو چھوڑ دو کہ یہ نہایت ناپاک باتیں ہیں ۔ عبداللہ بن ابی نے بھی یہ بات سنی تو کہا اچھا اب یہاں تک نوبت پہنچ گئی ۔ خدا کی قسم ! جب ہم مدینہ لوٹیں گے تو ہم سے عزت والا ذلیلوں کو نکال کر باہر کردے گا ۔ اس کی خبر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچ گئی ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر عرض کیا یا رسول اللہ ! مجھے اجازت دیں کہ میں اس منافق کو ختم کردوں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے چھوڑ دو تاکہ لوگ یہ نہ کہیں کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اپنے ساتھیوں کو قتل کرا دیتے ہیں ۔ جب مہاجرین مدینۃ منورہ میں آئے تو انصار کی تعداد سے ان کی تعداد کم تھی ۔ لیکن بعد میں ان مہاجرین کی تعداد زیادہ ہو گئی تھی ۔ سفیان نے بیان کیا کہ میں نے حدیث عمرو بن دینار سے یاد کی ، عمرو نے بیان کیا کہ میں نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے سنا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے ۔