كِتَابُ الإِيمَانِ بَابُ خَوْفِ المُؤْمِنِ مِنْ أَنْ يَحْبَطَ عَمَلُهُ وَهُوَ لاَ يَشْعُرُ صحيح أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُبَادَةُ بْنُ الصَّامِتِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ يُخْبِرُ بِلَيْلَةِ القَدْرِ، فَتَلاَحَى رَجُلاَنِ مِنَ المُسْلِمِينَ فَقَالَ: «إِنِّي خَرَجْتُ لِأُخْبِرَكُمْ بِلَيْلَةِ القَدْرِ، وَإِنَّهُ تَلاَحَى فُلاَنٌ وَفُلاَنٌ، فَرُفِعَتْ، وَعَسَى أَنْ يَكُونَ خَيْرًا لَكُمْ، التَمِسُوهَا فِي السَّبْعِ وَالتِّسْعِ وَالخَمْسِ»
کتاب: ایمان کے بیان میں
باب:مومن کو ڈرنا چاہئے کہ کہیں اس کے اعمال مٹ نہ جائیں اور اس کو خبر تک نہ ہو۔
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے اسماعیل بن جعفر نے بیان کیا، انھوں نے حمید سے، انھوں نے انس رضی اللہ عنہ سے، کہا مجھ کو عبادہ بن صامت نے خبر دی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے حجرے سے نکلے، لوگوں کو شب قدر بتانا چاہتے تھے ( وہ کون سی رات ہے ) اتنے میں دو مسلمان آپس میں لڑ پڑے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، میں تو اس لیے باہر نکلا تھا کہ تم کو شب قدر بتلاؤں اور فلاں فلاں آدمی لڑ پڑے تو وہ میرے دل سے اٹھالی گئی اور شاید اسی میں کچھ تمہاری بہتری ہو۔ ( تو اب ایسا کرو کہ ) شب قدر کو رمضان کی ستائیسویں، انتیسویں و پچیسویں رات میں ڈھونڈا کرو۔
تشریح :
اس حدیث سے بھی حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصود مرجیہ کی تردید کرتے ہوئے یہ بتلانا ہے کہ نیک اعمال سے ایمان بڑھتا ہے اور گناہوں سے گھٹتا ہے۔
شب قدر کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں سے ایک پوشیدہ رات ہے اور وہ ہرسال ان تواریخ میں گھومتی رہتی ہے، جو لوگ شب قدر کو ستائیسویں شب کے ساتھ مخصوص سمجھتے ہیں، ان کا خیال صحیح نہیں۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ:
حدیث 45 میں اور اسی طرح بہت سی مرویات میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا نام باربار آتا ہے لہٰذا ان کے مختصر حالات جاننے کے لیے یہ کافی ہے کہ آپ علم حدیث کے سب سے بڑے حافظ اور اساطین میں شمار ہیں، صاحب فتویٰ ائمہ کی جماعت میں بلند مرتبہ رکھتے تھے۔ علمی شوق میں سارا وقت صحبت نبوی میں گزارتے تھے دعائیں بھی ازدیاد علم ہی کی مانگتے تھے، نشرحدیث میں بھی اتنے ہی سرگرم تھے، مرویات کی تعداد5374 تک پہنچی ہوئی ہے۔ جن میں 325 متفق علیہ ہیں، فقہ میں بھی کامل دستگاہ حاصل تھی۔ عربی کے علاوہ فارسی وعبرانی بھی جانتے تھے، مسائل توارۃ سے بھی پوری واقفیت تھی۔
خشیت ربانی کایہ عالم تھا کہ “ احتساب قیامت ” کے ذکر پر چیخ مارکر بے ہوش ہوجاتے تھے، ایک مرتبہ مخصوص طور پر یہ حدیث سنائی جس کے دوران میں کئی مرتبہ بے ہوش ہوئے۔
“ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ بروز قیامت سب سے پہلے عالم قرآن، شہید اور دولت مند فیصلہ کے لیے طلب ہوں گے، اول الذکر سے پوچھا جائے گا کہ میں نے تجھے علم قرآن عطا کیا، اس پر تونے عمل بھی کیا؟ جواب دے گا شبانہ روز تلاوت کرتا رہتا تھا۔ فرمائے گا، جھوٹ بولتا ہے، تواس لیے تلاوت کرتا تھا کہ قاری کا خطاب مل جائے، مل گیا۔ دولت مند سے سوال ہوگا کہ میں نے تجھے دولت مند بنا کر دوسروں کی دست نگری سے بے نیاز نہیں کیا تھا؟ اس کا بدلا کیا دیا؟ عرض کرے گا صلہ رحمی کرتا تھا، صدقہ دیتا تھا۔ ارشادہوگا، جھوٹ بولتا ہے مقصد تو یہ تھا کہ سخی مشہور ہوجائے، وہ ہوگیا۔ شہید سے سوال ہوگا۔ وہ ک ہے گا کہ الہ العالمین میں توتیرے حکم جہاد ہی کے تحت لڑا، یہاں تک کہ تیری راہ میں مارا گیا۔ حکم ہوگا غلط ہے، تیری نیت تو یہ تھی کہ دنیا میں شجاع وجری مشہور ہو جائے، وہ مقصد حاصل ہوگیا۔ ہمارے لیے کیا کیا؟ یہ حدیث بیان کرکے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے زانو پر ہاتھ مارکر ارشاد فرمایا کہ سب سے پہلے انھیں تینوں سے جہنم کی آگ بھڑکائی جائے گی۔ ” ( ترمذی، ابواب الزہد )
عبادت سے عشق تھا، گھر میں ایک بیوی اور ایک خادم تھا، تینوں باری باری تہائی تہائی شب مصروف عبادت رہتے تھے بعض اوقات پوری پوری راتیں نماز میں گذار دیتے۔آغاز ماہ میں تین روزے التزام کے ساتھ رکھتے، ایک روز تکبیر کی آواز سن کر ایک صاحب نے پوچھا توفرمایا کہ خدا کا شکر ادا کررہاہوں کہ ایک دن تھا کہ میں برہ بنت غزوان کے پاس محض روٹی پر ملازم تھا، اس کے بعد وہ دن بھی اللہ نے دکھایا کہ وہ میرے عقد میں آگئی۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بے حد محبت تھی، اسوئہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر سختی سے پابند تھے، اہل بیت اطہار سے والہانہ محبت رکھتے تھے اور جب حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو دیکھتے توآبدیدہ ہوجاتے تھے۔ اطاعت والدین کا یہ کتنا شان دار مظاہرہ تھا کہ شوق عبادت کے باوجود محض ماں کی تنہائی کے خیال سے ان کی زندگی میں حج نہیں کیا۔ ( مسلم، جلد: 2 )
قابل فخر خصوصیت یہ ہے کہ ویسے تو آپ کے اخلاق بہت بلند تھے اور حق گوئی کے جوش میں بڑے سے بڑے شخص کو فوراً پیچھے روک دیتے تھے، چنانچہ جب مدینہ میں ہنڈی یا چک کا رواج ہوا ہے تو آپ نے مروان سے جاکر کہا کہ تونے ربا حلال کردیا، کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اشیائے خوردنی کی بیع اس وقت تک جائز نہیں جب تک کہ بائع اسے ناپ تول نہ لے، اسی طرح اس کے یہاں تصاویر آویزاں دیکھ کر اسے ٹوکا اور اسے سرتسلیم خم کرنا پڑا۔ ایک دفعہ مروان کی موجودگی میں فرمایاکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحیح فرمایا ہے کہ میری امت کی ہلاکت قریش کے لونڈوں کے ہاتھوں میں ہوگی۔
لیکن سب سے نمایاں چیز یہ تھی کہ منصب امارت پر پہنچ کر اپنے فقر کو نہ بھولے۔ یاتویہ حالت تھی کہ روٹی کے لیے گھوڑے کے پیچھے دوڑتے، مسلسل فاقوں سے غش پہ غش آتے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سواکوئی پوچھنے والا نہ تھا۔ اصحاب صفہ میں تھے کسی سے سوال نہ کرتے، لکڑیاں جنگل سے کاٹ لاتے، اس سے بھی کام نہ چلتا، رہ گزر پر بیٹھ جاتے کہ کوئی کھلانے کے لیے لے جائے یایہ عالم ہوا کہ گورنری پر پہنچ گئے، سب کچھ حاصل ہوگیا، لیکن فقیرانہ سادگی برابر قائم رکھی، ویسے اچھے سے اچھا پہنا، کتاں کے بنے ہوئے کپڑے پہنے اور ایک سے ناک صاف کرکے کہا، واہ واہ! ابوہریرہ آج تو کتاں سے ناک صاف کرتے ہو، حالانکہ کل شدت فاقہ سے مسجد نبوی میں غش کھاکر گر پڑا کرتے تھے۔ شہر سے نکلتے توسواری میں گدھا ہوتا، جس پر معمولی نمدہ کسا ہوتا۔ چھال کی رسی کی لگام ہوتی۔ جب سامنے کوئی آ جاتا تو مزاحا خود کہتے، راستہ چھوڑو امیرکی سواری آرہی ہے۔
بڑے مہمان نواز اور سیرچشم تھے، اللہ تعالیٰ آج کسی کو معمولی فارغ البالی بھی عطا کرتا ہے توغرور سے حالت اور ہوجاتی ہے مگر خدا نے آپ کو زمین سے اٹھاکر عرش پر بٹھادیا، لیکن سادگی کا وہی عالم رہا۔ ( رضی اللہ عنہ )
اس حدیث سے بھی حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصود مرجیہ کی تردید کرتے ہوئے یہ بتلانا ہے کہ نیک اعمال سے ایمان بڑھتا ہے اور گناہوں سے گھٹتا ہے۔
شب قدر کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں سے ایک پوشیدہ رات ہے اور وہ ہرسال ان تواریخ میں گھومتی رہتی ہے، جو لوگ شب قدر کو ستائیسویں شب کے ساتھ مخصوص سمجھتے ہیں، ان کا خیال صحیح نہیں۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ:
حدیث 45 میں اور اسی طرح بہت سی مرویات میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا نام باربار آتا ہے لہٰذا ان کے مختصر حالات جاننے کے لیے یہ کافی ہے کہ آپ علم حدیث کے سب سے بڑے حافظ اور اساطین میں شمار ہیں، صاحب فتویٰ ائمہ کی جماعت میں بلند مرتبہ رکھتے تھے۔ علمی شوق میں سارا وقت صحبت نبوی میں گزارتے تھے دعائیں بھی ازدیاد علم ہی کی مانگتے تھے، نشرحدیث میں بھی اتنے ہی سرگرم تھے، مرویات کی تعداد5374 تک پہنچی ہوئی ہے۔ جن میں 325 متفق علیہ ہیں، فقہ میں بھی کامل دستگاہ حاصل تھی۔ عربی کے علاوہ فارسی وعبرانی بھی جانتے تھے، مسائل توارۃ سے بھی پوری واقفیت تھی۔
خشیت ربانی کایہ عالم تھا کہ “ احتساب قیامت ” کے ذکر پر چیخ مارکر بے ہوش ہوجاتے تھے، ایک مرتبہ مخصوص طور پر یہ حدیث سنائی جس کے دوران میں کئی مرتبہ بے ہوش ہوئے۔
“ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ بروز قیامت سب سے پہلے عالم قرآن، شہید اور دولت مند فیصلہ کے لیے طلب ہوں گے، اول الذکر سے پوچھا جائے گا کہ میں نے تجھے علم قرآن عطا کیا، اس پر تونے عمل بھی کیا؟ جواب دے گا شبانہ روز تلاوت کرتا رہتا تھا۔ فرمائے گا، جھوٹ بولتا ہے، تواس لیے تلاوت کرتا تھا کہ قاری کا خطاب مل جائے، مل گیا۔ دولت مند سے سوال ہوگا کہ میں نے تجھے دولت مند بنا کر دوسروں کی دست نگری سے بے نیاز نہیں کیا تھا؟ اس کا بدلا کیا دیا؟ عرض کرے گا صلہ رحمی کرتا تھا، صدقہ دیتا تھا۔ ارشادہوگا، جھوٹ بولتا ہے مقصد تو یہ تھا کہ سخی مشہور ہوجائے، وہ ہوگیا۔ شہید سے سوال ہوگا۔ وہ ک ہے گا کہ الہ العالمین میں توتیرے حکم جہاد ہی کے تحت لڑا، یہاں تک کہ تیری راہ میں مارا گیا۔ حکم ہوگا غلط ہے، تیری نیت تو یہ تھی کہ دنیا میں شجاع وجری مشہور ہو جائے، وہ مقصد حاصل ہوگیا۔ ہمارے لیے کیا کیا؟ یہ حدیث بیان کرکے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے زانو پر ہاتھ مارکر ارشاد فرمایا کہ سب سے پہلے انھیں تینوں سے جہنم کی آگ بھڑکائی جائے گی۔ ” ( ترمذی، ابواب الزہد )
عبادت سے عشق تھا، گھر میں ایک بیوی اور ایک خادم تھا، تینوں باری باری تہائی تہائی شب مصروف عبادت رہتے تھے بعض اوقات پوری پوری راتیں نماز میں گذار دیتے۔آغاز ماہ میں تین روزے التزام کے ساتھ رکھتے، ایک روز تکبیر کی آواز سن کر ایک صاحب نے پوچھا توفرمایا کہ خدا کا شکر ادا کررہاہوں کہ ایک دن تھا کہ میں برہ بنت غزوان کے پاس محض روٹی پر ملازم تھا، اس کے بعد وہ دن بھی اللہ نے دکھایا کہ وہ میرے عقد میں آگئی۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بے حد محبت تھی، اسوئہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر سختی سے پابند تھے، اہل بیت اطہار سے والہانہ محبت رکھتے تھے اور جب حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو دیکھتے توآبدیدہ ہوجاتے تھے۔ اطاعت والدین کا یہ کتنا شان دار مظاہرہ تھا کہ شوق عبادت کے باوجود محض ماں کی تنہائی کے خیال سے ان کی زندگی میں حج نہیں کیا۔ ( مسلم، جلد: 2 )
قابل فخر خصوصیت یہ ہے کہ ویسے تو آپ کے اخلاق بہت بلند تھے اور حق گوئی کے جوش میں بڑے سے بڑے شخص کو فوراً پیچھے روک دیتے تھے، چنانچہ جب مدینہ میں ہنڈی یا چک کا رواج ہوا ہے تو آپ نے مروان سے جاکر کہا کہ تونے ربا حلال کردیا، کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اشیائے خوردنی کی بیع اس وقت تک جائز نہیں جب تک کہ بائع اسے ناپ تول نہ لے، اسی طرح اس کے یہاں تصاویر آویزاں دیکھ کر اسے ٹوکا اور اسے سرتسلیم خم کرنا پڑا۔ ایک دفعہ مروان کی موجودگی میں فرمایاکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحیح فرمایا ہے کہ میری امت کی ہلاکت قریش کے لونڈوں کے ہاتھوں میں ہوگی۔
لیکن سب سے نمایاں چیز یہ تھی کہ منصب امارت پر پہنچ کر اپنے فقر کو نہ بھولے۔ یاتویہ حالت تھی کہ روٹی کے لیے گھوڑے کے پیچھے دوڑتے، مسلسل فاقوں سے غش پہ غش آتے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سواکوئی پوچھنے والا نہ تھا۔ اصحاب صفہ میں تھے کسی سے سوال نہ کرتے، لکڑیاں جنگل سے کاٹ لاتے، اس سے بھی کام نہ چلتا، رہ گزر پر بیٹھ جاتے کہ کوئی کھلانے کے لیے لے جائے یایہ عالم ہوا کہ گورنری پر پہنچ گئے، سب کچھ حاصل ہوگیا، لیکن فقیرانہ سادگی برابر قائم رکھی، ویسے اچھے سے اچھا پہنا، کتاں کے بنے ہوئے کپڑے پہنے اور ایک سے ناک صاف کرکے کہا، واہ واہ! ابوہریرہ آج تو کتاں سے ناک صاف کرتے ہو، حالانکہ کل شدت فاقہ سے مسجد نبوی میں غش کھاکر گر پڑا کرتے تھے۔ شہر سے نکلتے توسواری میں گدھا ہوتا، جس پر معمولی نمدہ کسا ہوتا۔ چھال کی رسی کی لگام ہوتی۔ جب سامنے کوئی آ جاتا تو مزاحا خود کہتے، راستہ چھوڑو امیرکی سواری آرہی ہے۔
بڑے مہمان نواز اور سیرچشم تھے، اللہ تعالیٰ آج کسی کو معمولی فارغ البالی بھی عطا کرتا ہے توغرور سے حالت اور ہوجاتی ہے مگر خدا نے آپ کو زمین سے اٹھاکر عرش پر بٹھادیا، لیکن سادگی کا وہی عالم رہا۔ ( رضی اللہ عنہ )