‌صحيح البخاري - حدیث 4868

كِتَابُ تَفْسِيرِ القُرْآنِ بَابُ 84سُورَةُ اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ صحيح حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا يَحْيَى حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسٍ قَالَ انْشَقَّ الْقَمَرُ فِرْقَتَيْنِ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 4868

کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں باب: 84سورۃ اقتربت الساعۃ کی تفسیر آیت (( وانشق القمر وان یروا آیۃ یعرضوا )) کی تفسیر ہم سے مسدد نے بیان کیا ، کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا ، ان سے شعبہ نے ، ان سے قتادہ نے اور ان سے حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ چاند دو ٹکڑوں میں پھٹ گیا تھا ۔
تشریح : قسطلانی نے کہا یہ پانچ حدیثیں ہیں جو شق القمر کے باب میں وارد ہیں۔ تین شخص ان کے راوی ہیں حضرت ابن مسعود اور حضرت عبداللہ بن عباس اور حضرت علی۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ صرف روایت کے گواہ ہیں باقی حضرت انس رضی اللہ عنہ تو اس وقت مدینہ میں تھے ان کی عمر پانچ برس کی ہوگی اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما تو اس وقت تک پیدا بھی نہیں ہوئے تھے لیکن ان کے سوا اورایک جماعت صحابہ نے بھی شق القمر کا واقعہ نقل کیا ہے ۔ مترجم کہتا ہے اگر شق القمر نہ ہوا ہوتا اور قرآن میں یہ اترتا کہ چاند پھٹ گیا توسب کے سب قرآن کو غلط سمجھتے، اسلام سے پھرجاتے۔ بس یہی ایک دلیل اس واقعہ کے ثبوت کے لئے کافی ہے اور اس تاویل کی کوئی ضرورت نہیں کہ ماضی بمعنی مستقبل ہے جیسے ونفخ فی الصور ( الکہف: 99 ) وجاءربک والملک صفا صفا ( الفجر: 22 ) میں اس لئے کہ جو کام آئندہ ممکن الوقوع ہے اس کا زمانہ ماضی میں بھی واقع ہونا ممکن ہے جب سچے شخص اس کے وقوع کی گواہی دیں۔ اب یہ کہنا کہ اجرام علویہ قابل خرق والتیام نہیں ہیں ایک خود رائے شخص ارسطو کی تقلید ہے جس نے اس پر کوئی دلیل قائم نہیں کی۔ اگرارسطو کو یہ معلوم ہوتاکہ مرکز عالم آفتاب ہے اور زمین بھی ایک سیارہ اور اجرام علوی میںداخل ہے چاند زمیں کا تابع ہے اس پر بڑے بڑے غار موجود ہیں تو ایسی بے وقوفی کی بات نہ کہتا ۔ زمین قابل خرق والتیام نہیں یہ کیا معنی خود سورج قابل خرق والتیام ہے بہت سے حکیم کہتے ہیں کہ زمین سورج ہی کا ایک ٹکڑاہے جو الگ ہو کر آرہا ہے اور اپنے ثقل کی وجہ سے سورج سے اتنے فاصلہ پر تھما ہوا ہے رہا یہ امر کہ تم نے اپنی عمر میں اجرام علویہ کا خرق والتیام نہیں دیکھاتو تم کیا تمہاری عمر کیا پشہ کے داند کہ خانہ ازکیت ( وحیدی ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں آپ کی دعاؤں سے چاند کا پھٹ جانا بالکل حق الیقین ہے ۔ معجزہ اسی چیز کو کہا جاتا ہے جز انسانی عقل کو عاجز کرنے والا ہو ۔ انبیاء کرام کے معجزات برحق ہیں معجزات کا انکار کرنا یا ان میں بے جا تاویلات سے کام لینا یہ سچے مومن مسلمان کی نشانی ہے ۔ قسطلانی نے کہا یہ پانچ حدیثیں ہیں جو شق القمر کے باب میں وارد ہیں۔ تین شخص ان کے راوی ہیں حضرت ابن مسعود اور حضرت عبداللہ بن عباس اور حضرت علی۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ صرف روایت کے گواہ ہیں باقی حضرت انس رضی اللہ عنہ تو اس وقت مدینہ میں تھے ان کی عمر پانچ برس کی ہوگی اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما تو اس وقت تک پیدا بھی نہیں ہوئے تھے لیکن ان کے سوا اورایک جماعت صحابہ نے بھی شق القمر کا واقعہ نقل کیا ہے ۔ مترجم کہتا ہے اگر شق القمر نہ ہوا ہوتا اور قرآن میں یہ اترتا کہ چاند پھٹ گیا توسب کے سب قرآن کو غلط سمجھتے، اسلام سے پھرجاتے۔ بس یہی ایک دلیل اس واقعہ کے ثبوت کے لئے کافی ہے اور اس تاویل کی کوئی ضرورت نہیں کہ ماضی بمعنی مستقبل ہے جیسے ونفخ فی الصور ( الکہف: 99 ) وجاءربک والملک صفا صفا ( الفجر: 22 ) میں اس لئے کہ جو کام آئندہ ممکن الوقوع ہے اس کا زمانہ ماضی میں بھی واقع ہونا ممکن ہے جب سچے شخص اس کے وقوع کی گواہی دیں۔ اب یہ کہنا کہ اجرام علویہ قابل خرق والتیام نہیں ہیں ایک خود رائے شخص ارسطو کی تقلید ہے جس نے اس پر کوئی دلیل قائم نہیں کی۔ اگرارسطو کو یہ معلوم ہوتاکہ مرکز عالم آفتاب ہے اور زمین بھی ایک سیارہ اور اجرام علوی میںداخل ہے چاند زمیں کا تابع ہے اس پر بڑے بڑے غار موجود ہیں تو ایسی بے وقوفی کی بات نہ کہتا ۔ زمین قابل خرق والتیام نہیں یہ کیا معنی خود سورج قابل خرق والتیام ہے بہت سے حکیم کہتے ہیں کہ زمین سورج ہی کا ایک ٹکڑاہے جو الگ ہو کر آرہا ہے اور اپنے ثقل کی وجہ سے سورج سے اتنے فاصلہ پر تھما ہوا ہے رہا یہ امر کہ تم نے اپنی عمر میں اجرام علویہ کا خرق والتیام نہیں دیکھاتو تم کیا تمہاری عمر کیا پشہ کے داند کہ خانہ ازکیت ( وحیدی ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں آپ کی دعاؤں سے چاند کا پھٹ جانا بالکل حق الیقین ہے ۔ معجزہ اسی چیز کو کہا جاتا ہے جز انسانی عقل کو عاجز کرنے والا ہو ۔ انبیاء کرام کے معجزات برحق ہیں معجزات کا انکار کرنا یا ان میں بے جا تاویلات سے کام لینا یہ سچے مومن مسلمان کی نشانی ہے ۔