كِتَابُ تَفْسِيرِ القُرْآنِ بَابُ قَوْلِهِ {أَفَرَأَيْتُمُ اللَّاتَ وَالعُزَّى} صحيح حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَنَا أَبُو الْأَشْهَبِ حَدَّثَنَا أَبُو الْجَوْزَاءِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فِي قَوْلِهِ اللَّاتَ وَالْعُزَّى كَانَ اللَّاتُ رَجُلًا يَلُتُّ سَوِيقَ الْحَاجِّ
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
باب: آیت (( افرایتم اللات والعزٰی )) کی تفسیر
ہم سے مسلم بن ابراہیم فراہیدی نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابوالاشھب جعفر بن حیان نے بیان کیا ، کہا کہ ہم سے ابو الجوزاءنے بیان کیا اور ان سے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے لات اور عزیٰ کے حال میں کہا کہ ” لات “ ایک شخص کو کہتے تھے وہ حاجیوں کے لئے ستو گھولتا تھا ۔
تشریح :
اسی لئے بعضوں نے لات کو بتشدید تاءپڑھا ہے اور جنہوں نے تخفیف کے ساتھ پڑھا ہے ان کی قرات پر یہ توجیہ ہو سکتی ہے کہ کثرت استعمال سے تخفیف ہو گئی ۔ کہتے ہیں اس شخص کا نام عمرو بن لحی یا حرمہ بن غنم تھا۔ یہ گھی اور ستو ملاکر ایک پتھر کے پاس حاجیوں کو کھلایا کرتا جب مر گیا تو لوگ اس پتھر کو پوجنے لگے، جہاں پہ کھلایا کرتا تھا اور اس پتھر کانام لات رکھ دیا تاکہ اس شخص کی یاد گار رہے۔ ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے نکالا جو کوئی اس کا ستو کھا تا وہ موٹا ہوجاتا اس لئے اس کی پرستش کرنے لگے خدا وند قدوس کی مار ہو ان بے وقوفوں پر۔ ( وحیدی )
اب بھی بہت سے کم فہم عوام کا یہی حال ہے کہ اپنی خود ساختہ عقیدت کی بنا پر کتنے ہی بزرگان کو ان کی وفات کے بعد قاضی الحاجات سمجھ کر ان کی پوجا پرستش شروع کر دیتے ہیں۔
آج ٹاٹا نگر جمشید پور بہار میں برمکان جناب محمد اسحاق صاحب گارڈ یہ نوٹ لکھ رہا ہوں یہاں بتلایا گیا کہ بالکل اسی طرح سے ایک صاحب یہاں چونا بھٹی میں کام کیا کرتے تھے اتفاق سے وہ دیوانے ہو گئے اور لوگوں نے ان کو خدا رسیدہ سمجھ کر ” بابا “ بنا لیا ۔ اب ان کے انتقال کے بعد ان کی قبر کو مزار کی شکل میں آراستہ پیراستہ کر کے ” چونا بابا “ کے نام مشہور کردیا گیا ہے اور وہاں سالانہ عرس اور قوالیاں ہوتی ہیں بہت سے لوگ ان کو قاضی الحاجات سمجھ کر ان کی قبر پر ہاتھ باندھ کر اپنی عرضیاں پیش کرتے ہیں ۔ خدا جانے مسلمانوں کی عقل کہاں ماری گئی ہے کہ وہ ایسے توہمات میں مبتلا ہو کر پر چم تو حید کی اپنے ہاتھوں سے دھجیاں بکھیر رہے ہیں انا للہ اللھم اھدقومی فانھم لا یعلمون آمین
اسی لئے بعضوں نے لات کو بتشدید تاءپڑھا ہے اور جنہوں نے تخفیف کے ساتھ پڑھا ہے ان کی قرات پر یہ توجیہ ہو سکتی ہے کہ کثرت استعمال سے تخفیف ہو گئی ۔ کہتے ہیں اس شخص کا نام عمرو بن لحی یا حرمہ بن غنم تھا۔ یہ گھی اور ستو ملاکر ایک پتھر کے پاس حاجیوں کو کھلایا کرتا جب مر گیا تو لوگ اس پتھر کو پوجنے لگے، جہاں پہ کھلایا کرتا تھا اور اس پتھر کانام لات رکھ دیا تاکہ اس شخص کی یاد گار رہے۔ ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے نکالا جو کوئی اس کا ستو کھا تا وہ موٹا ہوجاتا اس لئے اس کی پرستش کرنے لگے خدا وند قدوس کی مار ہو ان بے وقوفوں پر۔ ( وحیدی )
اب بھی بہت سے کم فہم عوام کا یہی حال ہے کہ اپنی خود ساختہ عقیدت کی بنا پر کتنے ہی بزرگان کو ان کی وفات کے بعد قاضی الحاجات سمجھ کر ان کی پوجا پرستش شروع کر دیتے ہیں۔
آج ٹاٹا نگر جمشید پور بہار میں برمکان جناب محمد اسحاق صاحب گارڈ یہ نوٹ لکھ رہا ہوں یہاں بتلایا گیا کہ بالکل اسی طرح سے ایک صاحب یہاں چونا بھٹی میں کام کیا کرتے تھے اتفاق سے وہ دیوانے ہو گئے اور لوگوں نے ان کو خدا رسیدہ سمجھ کر ” بابا “ بنا لیا ۔ اب ان کے انتقال کے بعد ان کی قبر کو مزار کی شکل میں آراستہ پیراستہ کر کے ” چونا بابا “ کے نام مشہور کردیا گیا ہے اور وہاں سالانہ عرس اور قوالیاں ہوتی ہیں بہت سے لوگ ان کو قاضی الحاجات سمجھ کر ان کی قبر پر ہاتھ باندھ کر اپنی عرضیاں پیش کرتے ہیں ۔ خدا جانے مسلمانوں کی عقل کہاں ماری گئی ہے کہ وہ ایسے توہمات میں مبتلا ہو کر پر چم تو حید کی اپنے ہاتھوں سے دھجیاں بکھیر رہے ہیں انا للہ اللھم اھدقومی فانھم لا یعلمون آمین