‌صحيح البخاري - حدیث 483

كِتَابُ الصَّلاَةِ بَابٌ: المَسَاجِدُ الَّتِي عَلَى طُرُقِ المَدِينَةِ، وَالمَوَاضِعِ الَّتِي صَلَّى فِيهَا النَّبِيُّ ﷺ صحيح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ المُقَدَّمِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا فُضَيْلُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ، قَالَ: رَأَيْتُ سَالِمَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ يَتَحَرَّى أَمَاكِنَ مِنَ الطَّرِيقِ فَيُصَلِّي فِيهَا، وَيُحَدِّثُ أَنَّ أَبَاهُ كَانَ يُصَلِّي فِيهَا «وَأَنَّهُ رَأَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي فِي تِلْكَ الأَمْكِنَةِ». وَحَدَّثَنِي نَافِعٌ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّهُ كَانَ يُصَلِّي فِي تِلْكَ الأَمْكِنَةِ، وَسَأَلْتُ سَالِمًا، فَلاَ أَعْلَمُهُ إِلَّا وَافَقَ نَافِعًا فِي الأَمْكِنَةِ كُلِّهَا إِلَّا أَنَّهُمَا اخْتَلَفَا فِي مَسْجِدٍ بِشَرَفِ الرَّوْحَاءِ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 483

کتاب: نماز کے احکام و مسائل باب: مدینہ کے راستے کی مساجد کا بیان ہم سے محمد بن ابی بکر مقدمی نے بیان کیا کہا ہم سے فضیل بن سلیمان نے، کہا ہم سے موسیٰ بن عقبہ نے، کہا میں نے سالم بن عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو دیکھا کہ وہ ( مدینہ سے مکہ تک ) راستے میں کئی جگہوں کو ڈھونڈھ کو وہاں نماز پڑھتے اور کہتے کہ ان کے باپ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بھی ان مقامات پر نماز پڑھا کرتے تھے۔ اور انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان مقامات پر نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے اور موسیٰ بن عقبہ نے کہا کہ مجھ سے نافع نے ابن عمر رضی اللہ عنہما کے متعلق بیان کیا کہ وہ ان مقامات پر نماز پڑھا کرتے تھے۔ اور میں نے سالم سے پوچھا تو مجھے خوب یاد ہے کہ انھوں نے بھی نافع کے بیان کے مطابق ہی تمام مقامات کا ذکر کیا۔ فقط مقام شرف روحاء کی مسجد کے متعلق دونوں نے اختلاف کیا۔
تشریح : شرف الروحاءمدینہ سے 30 یا 36 میل کے فاصلہ پر ایک مقام ہے جس کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس جگہ سترنبیوں نے عبادت الٰہی کی ہے اوریہاں سے حضرت موسیٰ علیہ السلام حج یا عمرے کی نیت سے گزرے تھے۔ عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما سنت رسول کے پیش نظر اس جگہ نماز پڑھا کرتے تھے اورحضرت عمررضی اللہ عنہ نے ایسے تاریخی مقامات کو ڈھونڈھنے سے اس لیے منع کیاکہ ایسا نہ ہوآگے چل کر لوگ اس کو ضروری سمجھ لیں۔ حافظ ابن حجررحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ کی مراد یہ تھی کہ خالی اس قسم کے آثار کی زیارت کرنا بغیرنماز کی نیت کے بے فائدہ ہے اور عتبان کی حدیث اوپر گزر چکی ہے انھوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر میں کسی جگہ نماز پڑھ دیجیے تاکہ میں اس کونماز کی جگہ بنالوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی درخواست کو منظور فرمایاتھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ صالحین کے آثار سے بایں طور برکت لینا درست ہے، خاص طور پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہرقول وہرفعل وہرنقش قدم ہمارے لیے سرمایہ برکت وسعادت ہیں۔ مگراس بارے میں جوافراط وتفریط سے کام لیاگیا ہے وہ بھی حد درجہ قابل مذمت ہے۔ مثلاً صاحب انوارالباری ( دیوبندی ) نے اپنی کتاب مذکور جلد 5 ص 157 پر ایک جگہ حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی طرف منسوب کیاہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیشاب اورتمام فضلات کو بھی طاہر کہتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ جیسے سیدالفقہاءایسا نہیں کہہ سکتے مگر یہی وہ غلو ہے جو تبرکات انبیاءکے نام پر کیاگیا ہے، اللہ تعالیٰ ہم کو افراط و تفریط سے بچائے۔ آمین۔ شرف الروحاءمدینہ سے 30 یا 36 میل کے فاصلہ پر ایک مقام ہے جس کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس جگہ سترنبیوں نے عبادت الٰہی کی ہے اوریہاں سے حضرت موسیٰ علیہ السلام حج یا عمرے کی نیت سے گزرے تھے۔ عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما سنت رسول کے پیش نظر اس جگہ نماز پڑھا کرتے تھے اورحضرت عمررضی اللہ عنہ نے ایسے تاریخی مقامات کو ڈھونڈھنے سے اس لیے منع کیاکہ ایسا نہ ہوآگے چل کر لوگ اس کو ضروری سمجھ لیں۔ حافظ ابن حجررحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ کی مراد یہ تھی کہ خالی اس قسم کے آثار کی زیارت کرنا بغیرنماز کی نیت کے بے فائدہ ہے اور عتبان کی حدیث اوپر گزر چکی ہے انھوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر میں کسی جگہ نماز پڑھ دیجیے تاکہ میں اس کونماز کی جگہ بنالوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی درخواست کو منظور فرمایاتھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ صالحین کے آثار سے بایں طور برکت لینا درست ہے، خاص طور پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہرقول وہرفعل وہرنقش قدم ہمارے لیے سرمایہ برکت وسعادت ہیں۔ مگراس بارے میں جوافراط وتفریط سے کام لیاگیا ہے وہ بھی حد درجہ قابل مذمت ہے۔ مثلاً صاحب انوارالباری ( دیوبندی ) نے اپنی کتاب مذکور جلد 5 ص 157 پر ایک جگہ حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی طرف منسوب کیاہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیشاب اورتمام فضلات کو بھی طاہر کہتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ جیسے سیدالفقہاءایسا نہیں کہہ سکتے مگر یہی وہ غلو ہے جو تبرکات انبیاءکے نام پر کیاگیا ہے، اللہ تعالیٰ ہم کو افراط و تفریط سے بچائے۔ آمین۔