كِتَابُ تَفْسِيرِ القُرْآنِ بَابُ قَوْلِهِ {ثُمَّ تَوَلَّوْا عَنْهُ، وَقَالُوا: مُعَلَّمٌ مَجْنُونٌ} صحيح حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ خَالِدٍ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدٌ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ سُلَيْمَانَ وَمَنْصُورٍ عَنْ أَبِي الضُّحَى عَنْ مَسْرُوقٍ قَالَ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ بَعَثَ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ قُلْ مَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ وَمَا أَنَا مِنْ الْمُتَكَلِّفِينَ فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا رَأَى قُرَيْشًا اسْتَعْصَوْا عَلَيْهِ فَقَالَ اللَّهُمَّ أَعِنِّي عَلَيْهِمْ بِسَبْعٍ كَسَبْعِ يُوسُفَ فَأَخَذَتْهُمْ السَّنَةُ حَتَّى حَصَّتْ كُلَّ شَيْءٍ حَتَّى أَكَلُوا الْعِظَامَ وَالْجُلُودَ فَقَالَ أَحَدُهُمْ حَتَّى أَكَلُوا الْجُلُودَ وَالْمَيْتَةَ وَجَعَلَ يَخْرُجُ مِنْ الْأَرْضِ كَهَيْئَةِ الدُّخَانِ فَأَتَاهُ أَبُو سُفْيَانَ فَقَالَ أَيْ مُحَمَّدُ إِنَّ قَوْمَكَ قَدْ هَلَكُوا فَادْعُ اللَّهَ أَنْ يَكْشِفَ عَنْهُمْ فَدَعَا ثُمَّ قَالَ تَعُودُونَ بَعْدَ هَذَا فِي حَدِيثِ مَنْصُورٍ ثُمَّ قَرَأَ فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ إِلَى عَائِدُونَ أَنَكْشِفُ عَنْهُمْ عَذَابَ الْآخِرَةِ فَقَدْ مَضَى الدُّخَانُ وَالْبَطْشَةُ وَاللِّزَامُ وَقَالَ أَحَدُهُمْ الْقَمَرُ وَقَالَ الْآخَرُ وَالرُّومُ
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
باب: آیت (( ثم تولوا عنہ وقالوا معلم مجنون )) کی تفسیر
ہم سے بشر بن خالد نے بیان کیا ، کہا ہم کو محمد نے خبر دی ، انہیں شعبہ نے ، انہیں سلیمان اور منصور نے ، انہیں ابو الضحیٰ نے اور ان سے مسروق نے بیان کیا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث کیا اور آپ نے فرمایا ، کہہ دو کہ میں تم سے کسی اجر کا طالب نہیں ہوں اور نہ میں بناوٹی باتیں کرنے والوں میں سے ہوں “ ۔ پھر جب آپ نے دیکھا کہ قریش عناد سے باز نہیں آتے تو آپ نے ان کے لئے بد دعا کی کہ ” اے اللہ ! ان کے خلاف میری مدد ایسے قحط سے کر جیسا یوسف علیہ السلام کے زمانہ میں پڑا تھا “ ۔ قحط پڑا اور پر چیز ختم ہو گئی ۔ لوگ ہڈیاں اور چمڑے کھانے پر مجبور ہو گئے ( سلیمان اور منصور ) راویان حدیث میںسے ایک نے بیان کیا کہ ” وہ چمڑے اور مردار کھانے پر مجبور ہوگئے “ اور زمین سے دھواں سا نکلنے لگا ۔ آخر ابو سفیان آئے اور کہا کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ کی قوم ہلاک ہو چکی ، اللہ سے دعا کیجئے کہ ان سے قحط کو دور کردے ۔ آنحضرت نے دعا فرمائی اور قحط ختم ہوگیا ۔ لیکن اس کے بعدوہ پھر کفر کی طرف لوٹ گئے ۔ منصور کی روایت میں ہے کہ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی ” تو آپ اس روز کا انتظار کریں جب آسمان کی طرف ایک نظر آنے والا دھواں پیدا ہو “ ۔ عائدون تک کیا آخر ت کا عذاب بھی ان سے دور ہو سکے گا ؟ ” دھواں “ اور ” سخت پکڑ “ اور ” ہلاکت “ گزر چکے ۔ بعض نے ” چاند “ اور بعض نے ” غلبہ روم “ کا بھی ذکر کیا ہے ۔ کہ یہ بھی گزر چکا ہے ۔
تشریح :
یہ اگلی روایتوں کے خلاف نہیں ہے جن میں یہ مذکور ہے کہ دیکھنے والے کو زمین وآسمان کے بیچ میں ایک دھواں سامعلوم ہوتا کیونکہ احتمال ہے کہ یہ دھواں زمین سے آسمان تک پھیلا ہو یا دونوں باتیں ہوئی ہوں، اکثر ایسا ہوتا ہے جب بارش بالکل نہیں ہوتی تو زمین بالکل گرم ہو کر اس میں سے ایک مادہ دھواں کی طرح نکلتا ہے۔ اٹالیا کی طرف تو ایسے ( آتش فشاں ) پہاڑ موجود ہیں جن میں سے رات دن آگ نکلتی ہے وہاں دھواں رہتا ہے اور کبھی کبھی زمین میں سے یہ گرم مادہ نکل کر دور دور تک بہتا چلا گیا ہے اور جو چیز سامنے آئی درخت آدمی جانور وغیرہ اس کو جلا کر خاک سیاہ کردیا ہے۔ ( وحیدی )
یہ اگلی روایتوں کے خلاف نہیں ہے جن میں یہ مذکور ہے کہ دیکھنے والے کو زمین وآسمان کے بیچ میں ایک دھواں سامعلوم ہوتا کیونکہ احتمال ہے کہ یہ دھواں زمین سے آسمان تک پھیلا ہو یا دونوں باتیں ہوئی ہوں، اکثر ایسا ہوتا ہے جب بارش بالکل نہیں ہوتی تو زمین بالکل گرم ہو کر اس میں سے ایک مادہ دھواں کی طرح نکلتا ہے۔ اٹالیا کی طرف تو ایسے ( آتش فشاں ) پہاڑ موجود ہیں جن میں سے رات دن آگ نکلتی ہے وہاں دھواں رہتا ہے اور کبھی کبھی زمین میں سے یہ گرم مادہ نکل کر دور دور تک بہتا چلا گیا ہے اور جو چیز سامنے آئی درخت آدمی جانور وغیرہ اس کو جلا کر خاک سیاہ کردیا ہے۔ ( وحیدی )