‌صحيح البخاري - حدیث 4821

كِتَابُ تَفْسِيرِ القُرْآنِ بَابُ قَوْلِهِ {يَغْشَى النَّاسَ هَذَا عَذَابٌ أَلِيمٌ} صحيح حَدَّثَنَا يَحْيَى حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ مُسْلِمٍ عَنْ مَسْرُوقٍ قَالَ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ إِنَّمَا كَانَ هَذَا لِأَنَّ قُرَيْشًا لَمَّا اسْتَعْصَوْا عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَعَا عَلَيْهِمْ بِسِنِينَ كَسِنِي يُوسُفَ فَأَصَابَهُمْ قَحْطٌ وَجَهْدٌ حَتَّى أَكَلُوا الْعِظَامَ فَجَعَلَ الرَّجُلُ يَنْظُرُ إِلَى السَّمَاءِ فَيَرَى مَا بَيْنَهُ وَبَيْنَهَا كَهَيْئَةِ الدُّخَانِ مِنْ الْجَهْدِ فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ يَغْشَى النَّاسَ هَذَا عَذَابٌ أَلِيمٌ قَالَ فَأُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقِيلَ لَهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ اسْتَسْقِ اللَّهَ لِمُضَرَ فَإِنَّهَا قَدْ هَلَكَتْ قَالَ لِمُضَرَ إِنَّكَ لَجَرِيءٌ فَاسْتَسْقَى لَهُمْ فَسُقُوا فَنَزَلَتْ إِنَّكُمْ عَائِدُونَ فَلَمَّا أَصَابَتْهُمْ الرَّفَاهِيَةُ عَادُوا إِلَى حَالِهِمْ حِينَ أَصَابَتْهُمْ الرَّفَاهِيَةُ فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ يَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَةَ الْكُبْرَى إِنَّا مُنْتَقِمُونَ قَالَ يَعْنِي يَوْمَ بَدْرٍ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 4821

کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں باب: آیت (( یغشی الناس ھذا عذاب الیم )) کی تفسیر ہم سے یحییٰ نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابو معاویہ نے بیان کیا ، ان سے اعمش نے ، ان سے مسلم نے ، ان سے مسروق نے بیان کیا اور ان سے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ یہ ( قحط ) اس لئے پڑا تھا کہ قریش جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت قبول کرنے کی بجائے شرک پر جمے رہے تو آپ نے ان کے لئے ایسے قحط کی بد دعا کی جیسا یوسف علیہ السلام کے زمانہ میں پڑا تھا ۔ چنانچہ قحط کی نوبت یہاں تک پہنچی کہ لوگ ہڈیاں تک کھانے لگے ۔ لوگ آسمان کی طرف نظر اٹھاتے لیکن بھوک اور فاقہ کی شدت کی وجہ سے دھویں کے سوا اور کچھ نظر نہ آتا اسی کے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی ” تو آپ انتظار کریں اس روز کا جب آسمان کی طرف نظر آنے والا دھواں پیدا ہو جو لوگوں پر چھاجائے ۔ یہ ایک دردناک عذاب ہوگا “ ۔ بیان کیا کہ پھر ایک صاحب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی یا رسول اللہ ! قبیلہ مضر کے لئے بارش کی دعا کیجئے کہ وہ برباد ہوچکے ہیں ۔ آنحضرت نے فرمایا ، مضر کے حق میں دعا کرنے کے لئے کہتے ہو ، تم بڑے جری ہو ، آخر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے دعا فرمائی اور بارش ہوئی ۔ اس پر آیت انکم عائدون نازل ہوئی ( یعنی اگر چہ تم نے ایمان کا وعدہ کیا ہے لیکن تم کفر کی طرف پھر لوٹ جاؤ گے ) چنانچہ جب پھر ان میں خوشحالی ہوئی تو شرک کی طرف لوٹ گئے ( اور اپنے ایمان کے وعدے کو بھلا دیا ) اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی ” جس روز ہم بڑی سخت پکڑ پکڑیں گے ( اس روز ) ہم پورا بدلہ لے لیں گے “ ۔ بیان کیا اس آیت سے مراد بدر کی لڑائی ہے ۔
تشریح : قال لمضر ای قال علیہ السلام عجیبا اتامرنی ان استسقی لمضر مع ما معھم علیہ من معصیۃ اللہ والاشراک بہ انک لجری ای ذو جراۃ حیث تشرک باللہ وتطلب رحمتہ فاستسقی علیہ السلام الخ ( قسطلانی ) یعنی آپ نے مضر قبیلہ کے لئے تعجب سے فرمایا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے نافرمان اور مشرک ہیں۔ تم بڑے جرات مند ہو جو ایسے مشرکین کے لئے اللہ سے دعا کراتے ہو پھر آپ نے ان کے لئے بارش کی دعا فرمائی ۔ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) قال لمضر ای قال علیہ السلام عجیبا اتامرنی ان استسقی لمضر مع ما معھم علیہ من معصیۃ اللہ والاشراک بہ انک لجری ای ذو جراۃ حیث تشرک باللہ وتطلب رحمتہ فاستسقی علیہ السلام الخ ( قسطلانی ) یعنی آپ نے مضر قبیلہ کے لئے تعجب سے فرمایا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے نافرمان اور مشرک ہیں۔ تم بڑے جرات مند ہو جو ایسے مشرکین کے لئے اللہ سے دعا کراتے ہو پھر آپ نے ان کے لئے بارش کی دعا فرمائی ۔ ( صلی اللہ علیہ وسلم )