‌صحيح البخاري - حدیث 4811

كِتَابُ تَفْسِيرِ القُرْآنِ بَابُ قَوْلِهِ: {وَمَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ} صحيح حَدَّثَنَا آدَمُ حَدَّثَنَا شَيْبَانُ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ إِبْرَاهِيمَ عَنْ عَبِيدَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ جَاءَ حَبْرٌ مِنْ الْأَحْبَارِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ إِنَّا نَجِدُ أَنَّ اللَّهَ يَجْعَلُ السَّمَوَاتِ عَلَى إِصْبَعٍ وَالْأَرَضِينَ عَلَى إِصْبَعٍ وَالشَّجَرَ عَلَى إِصْبَعٍ وَالْمَاءَ وَالثَّرَى عَلَى إِصْبَعٍ وَسَائِرَ الْخَلَائِقِ عَلَى إِصْبَعٍ فَيَقُولُ أَنَا الْمَلِكُ فَضَحِكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى بَدَتْ نَوَاجِذُهُ تَصْدِيقًا لِقَوْلِ الْحَبْرِ ثُمَّ قَرَأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ وَالْأَرْضُ جَمِيعًا قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَالسَّمَوَاتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى عَمَّا يُشْرِكُونَ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 4811

کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں باب: آیت (( وماقدروااللہ حق قدرہ )) کی تفسیرمیں ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا ، کہا ہم سے شیبان بن عبدالرحمان نے بیان کیا ، ان سے منصور نے ، ان سے ابراہیم نخعی نے ، ان سے عبیدہ سلما نی نے اور ان سے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہ علماءیہود میں سے ایک شخص رسول کر یم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا کہ اے محمد ! ہم تورات میں پاتے ہیںکہ اللہ تعا لیٰ آسمانوںکو ایک انگلی پر رکھ لے گا اس طرح زمین کو ایک انگلی پر ، درختوں کو ایک انگلی پر ، پانی اور مٹی کو ایک انگلی پر اور تمام مخلوقات کو ایک انگلی پر ، پھرفرمائے گا کہ میں ہی بادشاہ ہوں ۔ آنحضرت اس پر ہنس دیئے اور آپ کے سامنے کے دانت دکھائی دینے لگے ۔ آپ کا یہ ہنسنا اس یہودی عالم کی تصدیق میں تھا ۔ پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت کی ۔ ” اور ان لوگوں نے اللہ کی عظمت نہ کی جیسی عظمت کرنا چاہئے تھی اور حال یہ کہ ساری زمین اسی کی مٹھی میں ہوگی قیامت کے دن اور آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں لپٹے ہوں گے ۔ وہ ان لوگوں کے شرک سے بالکل پاک اور بلند تر ہے ۔ “
تشریح : اس حدیث سے پروردگار کے لئے انگلیاں ثابت ہوتی ہیں کیونکہ آنحضرت نے اس یہودی کی تصدیق کی اور یہ امر محال ہے کہ آنحضرت باطل کی تصدیق کریں۔ اب بعضے لوگوں کا یہ کہنا تصدیقا لہ راوی کا گمان ہے جو اس نے اپنے گمان سے کہہ دیا۔ حالانکہ آنحضرت تصدیق کی راہ سے نہیں ہنسے تھے بلکہ اس یہودی کی بات کو غلط جان کر ، کیونکہ یہود مشبہہ اور مجسمہ تھے۔ وہ اللہ کے لئے انگلیاں وغیرہ ثابت کرتے تھے ، صحیح نہیں ہے کہ اس لئے کہ فضیل بن عیاض نے منصور سے روایت کی اس میں یہ بھی ہے تعجبا منا قالہ الحبر وتصدیقا لہ ترمذی نے کہا یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ دوسری صحیح حدیث میں ہے ۔ ما من قلب الا وھو بین اصبعین من اصابع الرحمن اور ابن عباس رضی اللہ عنہما کی صحیح حدیث میں ہے اتانی اللیلۃ ربی فی احسن صورۃ فوضع یدہ بین کتفی حتی وجدت برد اناملہ بین ثدیی ۔ انامل انگلیوں کی پور یں۔ غرض انگلیوں کااثبات پروردگار کے لئے ایسا ہی ہے جیسے وجہ اور یدین اور قدم اور رجل اور جنب وغیرہ کا اور اہلحدیث کا عقیدہ ان کی نسبت یہ ہے کہ یہ سب اپنے معنی ظاہر ی پر محمول ہیں لیکن ان کی حقیقت اللہ ہی جانتا ہے اور متکلمین ان چیزوں کی تاویل کرتے ہیں قدرت وغیرہ سے۔ میں کہتا ہوں محمد بن صلت راوی نے اس حدیث کی روایت کرتے وقت اپنی چھنگلیاں کی طرف اشارہ کیا پھر پاس والی انگلی کی طرف پھر اس کے پاس والی انگلی کی طرف، یہاں تک کہ انگوٹھے تک پہنچے اور اس سے اہل تاویل کا مذہب رد ہوتا ہے۔ ( وحیدی ) اس حدیث سے پروردگار کے لئے انگلیاں ثابت ہوتی ہیں کیونکہ آنحضرت نے اس یہودی کی تصدیق کی اور یہ امر محال ہے کہ آنحضرت باطل کی تصدیق کریں۔ اب بعضے لوگوں کا یہ کہنا تصدیقا لہ راوی کا گمان ہے جو اس نے اپنے گمان سے کہہ دیا۔ حالانکہ آنحضرت تصدیق کی راہ سے نہیں ہنسے تھے بلکہ اس یہودی کی بات کو غلط جان کر ، کیونکہ یہود مشبہہ اور مجسمہ تھے۔ وہ اللہ کے لئے انگلیاں وغیرہ ثابت کرتے تھے ، صحیح نہیں ہے کہ اس لئے کہ فضیل بن عیاض نے منصور سے روایت کی اس میں یہ بھی ہے تعجبا منا قالہ الحبر وتصدیقا لہ ترمذی نے کہا یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ دوسری صحیح حدیث میں ہے ۔ ما من قلب الا وھو بین اصبعین من اصابع الرحمن اور ابن عباس رضی اللہ عنہما کی صحیح حدیث میں ہے اتانی اللیلۃ ربی فی احسن صورۃ فوضع یدہ بین کتفی حتی وجدت برد اناملہ بین ثدیی ۔ انامل انگلیوں کی پور یں۔ غرض انگلیوں کااثبات پروردگار کے لئے ایسا ہی ہے جیسے وجہ اور یدین اور قدم اور رجل اور جنب وغیرہ کا اور اہلحدیث کا عقیدہ ان کی نسبت یہ ہے کہ یہ سب اپنے معنی ظاہر ی پر محمول ہیں لیکن ان کی حقیقت اللہ ہی جانتا ہے اور متکلمین ان چیزوں کی تاویل کرتے ہیں قدرت وغیرہ سے۔ میں کہتا ہوں محمد بن صلت راوی نے اس حدیث کی روایت کرتے وقت اپنی چھنگلیاں کی طرف اشارہ کیا پھر پاس والی انگلی کی طرف پھر اس کے پاس والی انگلی کی طرف، یہاں تک کہ انگوٹھے تک پہنچے اور اس سے اہل تاویل کا مذہب رد ہوتا ہے۔ ( وحیدی )