كِتَابُ تَفْسِيرِ القُرْآنِ بَابُ قَوْلِهِ: {وَمَا أَنَا مِنَ المُتَكَلِّفِينَ صحيح حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي الضُّحَى عَنْ مَسْرُوقٍ قَالَ دَخَلْنَا عَلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ يَا أَيُّهَا النَّاسُ مَنْ عَلِمَ شَيْئًا فَلْيَقُلْ بِهِ وَمَنْ لَمْ يَعْلَمْ فَلْيَقُلْ اللَّهُ أَعْلَمُ فَإِنَّ مِنْ الْعِلْمِ أَنْ يَقُولَ لِمَا لَا يَعْلَمُ اللَّهُ أَعْلَمُ قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لِنَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْ مَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ وَمَا أَنَا مِنْ الْمُتَكَلِّفِينَ وَسَأُحَدِّثُكُمْ عَنْ الدُّخَانِ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَعَا قُرَيْشًا إِلَى الْإِسْلَامِ فَأَبْطَئُوا عَلَيْهِ فَقَالَ اللَّهُمَّ أَعِنِّي عَلَيْهِمْ بِسَبْعٍ كَسَبْعِ يُوسُفَ فَأَخَذَتْهُمْ سَنَةٌ فَحَصَّتْ كُلَّ شَيْءٍ حَتَّى أَكَلُوا الْمَيْتَةَ وَالْجُلُودَ حَتَّى جَعَلَ الرَّجُلُ يَرَى بَيْنَهُ وَبَيْنَ السَّمَاءِ دُخَانًا مِنْ الْجُوعِ قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ يَغْشَى النَّاسَ هَذَا عَذَابٌ أَلِيمٌ قَالَ فَدَعَوْا رَبَّنَا اكْشِفْ عَنَّا الْعَذَابَ إِنَّا مُؤْمِنُونَ أَنَّى لَهُمْ الذِّكْرَى وَقَدْ جَاءَهُمْ رَسُولٌ مُبِينٌ ثُمَّ تَوَلَّوْا عَنْهُ وَقَالُوا مُعَلَّمٌ مَجْنُونٌ إِنَّا كَاشِفُو الْعَذَابِ قَلِيلًا إِنَّكُمْ عَائِدُونَ أَفَيُكْشَفُ الْعَذَابُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ قَالَ فَكُشِفَ ثُمَّ عَادُوا فِي كُفْرِهِمْ فَأَخَذَهُمْ اللَّهُ يَوْمَ بَدْرٍ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى يَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَةَ الْكُبْرَى إِنَّا مُنْتَقِمُونَ
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
باب: آیت (( وما انا من المتکلفین )) کی تفسیر میں
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا ، کہا ہم سے جریر نے بیان کیا ، ان سے اعمش نے ، ان سے ابو الضحیٰ نے ، ان سے مسروق نے کہ ہم عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی خدمت میںحاضر ہوئے ۔ انہوں نے کہا اے لوگو ! جس شخص کو کسی چیز کا علم ہو تو وہ اسے بیان کرے اگر علم نہ ہوتو کہے کہ اللہ ہی کو زیادہ علم ہے کیونکہ یہ بھی علم ہی ہے کہ جو چیز نہ جانتا ہو اس کے متعلق کہہ دے کہ اللہ ہی زیادہ جاننے والا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی کہہ دیا تھا کہ ” آپ کہہ دیجئے کہ میں تم سے اس قرآن یا تبلیغ وحی پر کوئی اجرت نہیںچاہتا ہوں اور نہ میں بناوٹ کرنے والا ہوں “ اور میں ” دخان “ ( دھوئیں ) کے بارے میں بتاؤں گا ( جس کا ذکر قرآن میں آیاہے ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کو اسلام کی دعوت دی تو انہوں نے تاخیر کی ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے حق میں بد دعا کی اے اللہ ! ان پر یوسف علیہ السلام کے زمانہ کی سی قحط سالی کے ذریعہ میری مدد کر ۔ چنانچہ قحط پڑا اور اتنا زبر دست کہ ہر چیز ختم ہو گئی اور لوگ مردار اور چمڑے کھانے پر مجبور ہو گئے ۔ بھوک کی شدت کی وجہ سے یہ حال تھاکہ آسمان کی طرف دھواں ہی دھواں نظر آتا ۔ اسی کے بارے میںاللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ” پس انتظار کرو اس دن کا جب آسمان کھلا ہوا دھواں لائے گا جو لوگوں پر چھا جائے گا ۔ یہ دردناک عذاب ہے ۔ “ بیان کیا کہ پھر قریش دعا کرنے لگے کہ ” اے ہمارے رب ! اس عذاب کو ہم سے ہٹا لے تو ہم ایمان لائیں گے لیکن وہ نصیحت سننے والے کہاں ہیں ان کے پاس تو رسول صاف معجزات و دلائل کے ساتھ آچکا اور وہ اس سے منہ موڑ چکے ہیں اور کہہ چکے ہیں کہ اسے تو سکھایا جارہا ہے ، یہ مجنون ہے ، بےشک ہم تھوڑے دنوں کے لئے ان سے عذاب ہٹالیں گے یقینا تم پھر کفر ہی کی طرف لوٹ جاؤگے کیا قیامت میں بھی عذاب ہٹایا جائے گا ۔ “ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ پھر یہ عذاب تو ان سے دور کردیا گیا لیکن جب وہ دوبارہ کفر میں مبتلا ہو گئے تو جنگ بدر میں اللہ نے انہیں پکڑا ۔ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد میں اسی طرف اشارہ ہے کہ ” جس دن ہم سخت پکڑ کریں گے ، بلا شبہ ہم بدلہ لینے والے ہیں ۔ “
تشریح :
یہ آخری جملہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر آج دنیا کا عذاب جو قحط کی صورت میں ان پر نازل ہوا ہے ان سے دور کردیا جائے توکیا قیامت میں بھی ایسا ممکن ہے؟ نہیں وہاں توان کی بڑی سخت پکڑ ہوگی اور کوئی چیز اللہ کے عذاب سے انہیں نہ بچا سکے گی۔
یہ آخری جملہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر آج دنیا کا عذاب جو قحط کی صورت میں ان پر نازل ہوا ہے ان سے دور کردیا جائے توکیا قیامت میں بھی ایسا ممکن ہے؟ نہیں وہاں توان کی بڑی سخت پکڑ ہوگی اور کوئی چیز اللہ کے عذاب سے انہیں نہ بچا سکے گی۔