كِتَابُ تَفْسِيرِ القُرْآنِ سُورَةُ ص صحيح حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ الطَّنَافِسِيُّ عَنْ الْعَوَّامِ قَالَ سَأَلْتُ مُجَاهِدًا عَنْ سَجْدَةٍ فِي ص فَقَالَ سَأَلْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ مِنْ أَيْنَ سَجَدْتَ فَقَالَ أَوَ مَا تَقْرَأُ وَمِنْ ذُرِّيَّتِهِ دَاوُدَ وَسُلَيْمَانَ أُولَئِكَ الَّذِينَ هَدَى اللَّهُ فَبِهُدَاهُمْ اقْتَدِهْ فَكَانَ دَاوُدُ مِمَّنْ أُمِرَ نَبِيُّكُمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَقْتَدِيَ بِهِ فَسَجَدَهَا دَاوُدُ عَلَيْهِ السَّلَام فَسَجَدَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عُجَابٌ عَجِيبٌ الْقِطُّ الصَّحِيفَةُ هُوَ هَا هُنَا صَحِيفَةُ الْحِسَابِ وَقَالَ مُجَاهِدٌ فِي عِزَّةٍ مُعَازِّينَ الْمِلَّةِ الْآخِرَةِ مِلَّةُ قُرَيْشٍ الْاخْتِلَاقُ الْكَذِبُ الْأَسْبَابُ طُرُقُ السَّمَاءِ فِي أَبْوَابِهَا قَوْلُهُ جُنْدٌ مَا هُنَالِكَ مَهْزُومٌ يَعْنِي قُرَيْشًا أُولَئِكَ الْأَحْزَابُ الْقُرُونُ الْمَاضِيَةُ فَوَاقٍ رُجُوعٍ قِطَّنَا عَذَابَنَا اتَّخَذْنَاهُمْ سُخْرِيًّا أَحَطْنَا بِهِمْ أَتْرَابٌ أَمْثَالٌ وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ الْأَيْدُ الْقُوَّةُ فِي الْعِبَادَةِ الْأَبْصَارُ الْبَصَرُ فِي أَمْرِ اللَّهِ حُبَّ الْخَيْرِ عَنْ ذِكْرِ رَبِّي مِنْ ذِكْرِ طَفِقَ مَسْحًا يَمْسَحُ أَعْرَافَ الْخَيْلِ وَعَرَاقِيبَهَا الْأَصْفَادِ الْوَثَاقِ
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں باب: سورۃ ص کی تفسیر مجھ سے محمد بن عبداللہ ذہلی نے بیان کیا ، کہا ہم سے محمدبن عبید طنافسی نے ، ان سے عوام بن حوشب نے بیان کیا کہ میں نے مجاہد سے سورئہ ص میں سجدہ کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہاکہ میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا تھا کہ اس سورت میں آیت سجدہ کے لئے دلیل کیا ہے ؟ انہوں نے کہا کیا تم ( سورت انعام ) میں یہ نہیں پڑھتے کہ ” اور ان کی نسل سے داؤد اور سلیمان ہیں ، یہی وہ لوگ ہیں جنہیں اللہ نے یہ ہدایت دی تھی ، سو آپ بھی ان کی ہدایت کی اتباع کریں “ ۔ داؤد علیہ السلام بھی ان میں سے تھے جن کی ا تباع کا آنحضور کو حکم تھا ( چونکہ داؤد علیہ السلام کے سجدہ کا اس میں ذکر ہے اس لئے آنحضرت نے بھی اس موقع پر سجدہ کیا ) عجاب کا معنی عجیب القط قط کہتے ہیں کاغذ کے ٹکڑے ( پرچے ) کو یہاں نیکیوں کا پرچہ مراد ہے ( یا حساب کا پرچہ ) اور مجاہد رحمہ اللہ نے کہا فی عزۃ کا معنی یہ ہے کہ وہ شرارت و سرکشی کرنے والے ہیں ۔ الملۃ الا خرۃ سے مراد قریش کا دین ہے ۔ اختلاق سے مراد جھوٹ ۔ الاسباب آسمان کے راستے دروازے مراد ہیں ۔ جند ما ھنالک الایۃ سے قریش کے لوگ مراد ہیں ۔ اولئک الاحزاب سے اگلی امتیں مراد ہیں ۔ جن پر اللہ کا عذاب اترا ، ۔ فواق کا معنی پھرنا ، لوٹنا ۔ عجل لنا قطنا میں قط سے عذاب مراد ہے ۔ اتخذنا ھم سخریا ہم نے ان کو ٹھٹھے میں گھیر لیا تھا ۔ اتراب جوڑوالے اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا اید کا معنی عبادت کی قوت ۔ الابصار اللہ کے کاموں کو غور سے دیکھنے والے ۔ حب الخیر عن ذکر ربی میں عن من کے معنی میں ہے ۔ وطفق مسحا گھوڑوں کے پاؤں اور ایال پر محبت سے ہاتھ پھیرنا شروع کیا ۔ یا بقول بعض تلوار سے ان کو کاٹنے لگے ( قولہ وطفق مسحا بالسوق والاعناق ای یمسح اعراف الخیل وعراقیبھا حبالھا ( حاشیہ بخاری ) الاصفاد کے معنی زنجیریں ۔