كِتَابُ تَفْسِيرِ القُرْآنِ 36سُورَةُ يس{وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَهَا ذَلِكَ تَقْدِيرُ العَزِيزِ العَلِيمِ} صحيح حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ سَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ قَوْلِهِ تَعَالَى وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَهَا قَالَ مُسْتَقَرُّهَا تَحْتَ الْعَرْشِ
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
باب: 36 سورۃ یٰسین کی تفسیر آیت (( والشمس تجری لمستقر )) کی تفسیر
ہم سے حمیدی نے بیان کیا ، کہا ہم سے وکیع نے بیان کیا ، کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا ، ان سے ابراہیم تیمی نے ، ان سے ان کے والد نے اور ان سے حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ نے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اللہ تعالیٰ کے فرمان ” اور سورج اپنے ٹھکانے کی طرف چلتا رہتا ہے “ کے متعلق سوال کیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کا ٹھکانا عرش کے نیچے ہے ۔
تشریح :
ابن کثیر اور قسطلانی نے کہا کہ عرش کروی نہیں ہے جیسے اہل ہیئات سمجھتے ہیں بلکہ وہ ایک قبہ ہے۔ اس میں پائے ہیں جس کو فرشتے تھامے ہوئے ہیں۔ تو عرش آدمیوں کی سر کی جانب اوپر کی طرف ہے۔ پھر وہ دن کو سورج عرش کے بہت قریب ہوتا ہے اور آدھی رات وقت چوتھے آسمان پر اپنے مقام عرش سے دور ہوتا ہے، اسی وقت سجدہ کرتا ہے اور اس کی مشرق کی طرف جانے کی اور وہاں سے نکلنے کی اجازت ملتی ہے۔ سجدے سے اس کی عاجزی اور انقیاد مراد ہے۔ میں کہتاہوں یہ اس زمانے کی تقریریں ہیں۔ جب زمین کا کروی ہونا اور زمین کی طرف آبادی ہونا اس کا علم اچھی طرح لوگوں کو نہ تھا۔ اب یہ بات تجربہ اور مشاہدہ سے ثابت ہو گئی ہے کہ زمین کروی ہے لیکن اس میں حکیموں کا اختلاف ہے کہ زمین آفتاب کے گرد گھوم رہی ہے یا آفتاب زمین کے گرد گھوم رہا ہے۔ حال کے حکیموں نے پہلا قول اختیار کیا ہے اور حدیث سے دوسرے قول کی تائید ہوتی ہے۔ اب جب عرش سب جانب سے زمین کے اوپر ہو تو اس کا بھی کروی ہونا ضروری ہے اور باعتبار اختلاف آفاق کے ہر آن میں کہیں نہ کہیں طلوع ہورہا ہے کہیں نہ کہیں غروب ۔ اس صورت میں حدیث میں اشکال پید اہوگا اور اس کا جواب یہ ہے کہ سجدے سے انقیاد اور خضوع مراد ہے تو وہ ہر وقت عرش کے تلے گویا سجدے میں ہے اور پروردگار سے آگے بڑھنے کی اجازت مانگ رہاہے۔ قیامت کے قریب یہ اجازت اس کو نہ ملے گی اور حکم ہوگا کہ جدھر سے آیا ہے ادھر لوٹ جا تو وہ پھر مغرب سے نمودار ہوگا۔ واللہ اعلم آمناباللہ وکما قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ( وحیدی )
والشمس تجری لمستقر لھا قال صاحب اللمعات قد ذکر لہ فی التفاسیر وجوہ غیرھا فی ھذا الحدیث ولا شک ان ما وقع فی الحدیث المتفق علیہ ھو المعتبرو المعتمد والعجب من البیضاوی انہ ذکر وجوھا فی تفسیرہ ولم یذکر ھذا الوجہ ولعلہ اوقعہ تفلسفہ نعوذ باللہ من ذالک وفی کلام الصلیبی ایضا ما یشعر لضیق الصدر نسال اللہ العافیۃ انتھی ( حاشیہ بخاری، ص: 709 ) صاحب لمعات نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان والشمس تجری الخ ( اور سورج اپنے ٹھکانے کی طرف چلتا رہتا ہے ) کے بارے میں تفسیروں میں دوسری باتیں بیان کی گئی ہیں اور اس حدیث کے مضمون کو چھوڑ دیا گیا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ مذکورہ بخاری و مسلم کی حدیث میں سورج کے بارے میں جو بیان کیا گیا ہے وہی قابل اعتماد واعتبار ہے۔ امام بیضاوی پر تعجب ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنی تفسیر میں سورج کی حالت پر بہت سی وجوہات بیان کی ہیں اور وہ وجہ اور بیان چھوڑ دیا ہے جو اس حدیث میں ہے، یہ شاید ان پر یونانی فلسفہ کا اثر ہے۔ پناہ بخدا اور اس موقع پر علامہ طیبی رحمہ اللہ نے جو کہا ہے اس سے بھی سینے میں تنگی اور بھنچاؤ پیدا ہوتا ہے ( جسے شرح صدر کے ساتھ قبول نہیں کیا جا سکتا )
ابن کثیر اور قسطلانی نے کہا کہ عرش کروی نہیں ہے جیسے اہل ہیئات سمجھتے ہیں بلکہ وہ ایک قبہ ہے۔ اس میں پائے ہیں جس کو فرشتے تھامے ہوئے ہیں۔ تو عرش آدمیوں کی سر کی جانب اوپر کی طرف ہے۔ پھر وہ دن کو سورج عرش کے بہت قریب ہوتا ہے اور آدھی رات وقت چوتھے آسمان پر اپنے مقام عرش سے دور ہوتا ہے، اسی وقت سجدہ کرتا ہے اور اس کی مشرق کی طرف جانے کی اور وہاں سے نکلنے کی اجازت ملتی ہے۔ سجدے سے اس کی عاجزی اور انقیاد مراد ہے۔ میں کہتاہوں یہ اس زمانے کی تقریریں ہیں۔ جب زمین کا کروی ہونا اور زمین کی طرف آبادی ہونا اس کا علم اچھی طرح لوگوں کو نہ تھا۔ اب یہ بات تجربہ اور مشاہدہ سے ثابت ہو گئی ہے کہ زمین کروی ہے لیکن اس میں حکیموں کا اختلاف ہے کہ زمین آفتاب کے گرد گھوم رہی ہے یا آفتاب زمین کے گرد گھوم رہا ہے۔ حال کے حکیموں نے پہلا قول اختیار کیا ہے اور حدیث سے دوسرے قول کی تائید ہوتی ہے۔ اب جب عرش سب جانب سے زمین کے اوپر ہو تو اس کا بھی کروی ہونا ضروری ہے اور باعتبار اختلاف آفاق کے ہر آن میں کہیں نہ کہیں طلوع ہورہا ہے کہیں نہ کہیں غروب ۔ اس صورت میں حدیث میں اشکال پید اہوگا اور اس کا جواب یہ ہے کہ سجدے سے انقیاد اور خضوع مراد ہے تو وہ ہر وقت عرش کے تلے گویا سجدے میں ہے اور پروردگار سے آگے بڑھنے کی اجازت مانگ رہاہے۔ قیامت کے قریب یہ اجازت اس کو نہ ملے گی اور حکم ہوگا کہ جدھر سے آیا ہے ادھر لوٹ جا تو وہ پھر مغرب سے نمودار ہوگا۔ واللہ اعلم آمناباللہ وکما قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ( وحیدی )
والشمس تجری لمستقر لھا قال صاحب اللمعات قد ذکر لہ فی التفاسیر وجوہ غیرھا فی ھذا الحدیث ولا شک ان ما وقع فی الحدیث المتفق علیہ ھو المعتبرو المعتمد والعجب من البیضاوی انہ ذکر وجوھا فی تفسیرہ ولم یذکر ھذا الوجہ ولعلہ اوقعہ تفلسفہ نعوذ باللہ من ذالک وفی کلام الصلیبی ایضا ما یشعر لضیق الصدر نسال اللہ العافیۃ انتھی ( حاشیہ بخاری، ص: 709 ) صاحب لمعات نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان والشمس تجری الخ ( اور سورج اپنے ٹھکانے کی طرف چلتا رہتا ہے ) کے بارے میں تفسیروں میں دوسری باتیں بیان کی گئی ہیں اور اس حدیث کے مضمون کو چھوڑ دیا گیا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ مذکورہ بخاری و مسلم کی حدیث میں سورج کے بارے میں جو بیان کیا گیا ہے وہی قابل اعتماد واعتبار ہے۔ امام بیضاوی پر تعجب ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنی تفسیر میں سورج کی حالت پر بہت سی وجوہات بیان کی ہیں اور وہ وجہ اور بیان چھوڑ دیا ہے جو اس حدیث میں ہے، یہ شاید ان پر یونانی فلسفہ کا اثر ہے۔ پناہ بخدا اور اس موقع پر علامہ طیبی رحمہ اللہ نے جو کہا ہے اس سے بھی سینے میں تنگی اور بھنچاؤ پیدا ہوتا ہے ( جسے شرح صدر کے ساتھ قبول نہیں کیا جا سکتا )