كِتَابُ تَفْسِيرِ القُرْآنِ بَابٌ: سُورَةُ سَبَإٍ {حَتَّى إِذَا فُزِّعَ عَنْ قُلُوبِهِمْ قَالُوا [ص مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ؟ قَالُوا: الحَقَّ وَهُوَ العَلِيُّالكَبِيرُ}34 صحيح حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ حَدَّثَنَا عَمْرٌو قَالَ سَمِعْتُ عِكْرِمَةَ يَقُولُ سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ يَقُولُ إِنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا قَضَى اللَّهُ الْأَمْرَ فِي السَّمَاءِ ضَرَبَتْ الْمَلَائِكَةُ بِأَجْنِحَتِهَا خُضْعَانًا لِقَوْلِهِ كَأَنَّهُ سِلْسِلَةٌ عَلَى صَفْوَانٍ فَإِذَا فُزِّعَ عَنْ قُلُوبِهِمْ قَالُوا مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ قَالُوا لِلَّذِي قَالَ الْحَقَّ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ فَيَسْمَعُهَا مُسْتَرِقُ السَّمْعِ وَمُسْتَرِقُ السَّمْعِ هَكَذَا بَعْضُهُ فَوْقَ بَعْضٍ وَوَصَفَ سُفْيَانُ بِكَفِّهِ فَحَرَفَهَا وَبَدَّدَ بَيْنَ أَصَابِعِهِ فَيَسْمَعُ الْكَلِمَةَ فَيُلْقِيهَا إِلَى مَنْ تَحْتَهُ ثُمَّ يُلْقِيهَا الْآخَرُ إِلَى مَنْ تَحْتَهُ حَتَّى يُلْقِيَهَا عَلَى لِسَانِ السَّاحِرِ أَوْ الْكَاهِنِ فَرُبَّمَا أَدْرَكَ الشِّهَابُ قَبْلَ أَنْ يُلْقِيَهَا وَرُبَّمَا أَلْقَاهَا قَبْلَ أَنْ يُدْرِكَهُ فَيَكْذِبُ مَعَهَا مِائَةَ كَذْبَةٍ فَيُقَالُ أَلَيْسَ قَدْ قَالَ لَنَا يَوْمَ كَذَا وَكَذَا كَذَا وَكَذَا فَيُصَدَّقُ بِتِلْكَ الْكَلِمَةِ الَّتِي سَمِعَ مِنْ السَّمَاءِ
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
باب: سورۃ سبا کی تفسیر آیت (( حتی اذا فزع عن قلوبھم الایۃ 34)) کی تفسیر
ہم سے عبد اللہ بن زبیر حمیدی نے بیان کیا ، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے ، کہا ہم سے عمرو بن دینار نے ، کہا کہ میں نے عکرمہ سے سنا ، وہ بیان کرتے تھے کہ میں نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا ، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب اللہ تعالیٰ آسمان پر کسی بات کا فیصلہ کرتا ہے تو فرشتے اللہ تعالیٰ کے فیصلہ کو سن کر جھکتے ہوئے عاجزی کرتے ہوئے اپنے بازو پھڑ پھڑاتے ہیں ، اللہ کا فرمان انہیں اس طرح سنائی دیتا ہے جیسے صاف چکنے پتھر پر زنجیر چلانے سے آواز پیدا ہوتی ہے ۔ پھر جب ان کے دلوں سے گھبراہٹ دور ہوجاتی ہے تو وہ آپس میں پوچھتے ہیں کہ تمہارے رب نے کیا فرمایا ؟ وہ کہتے ہیں کہ حق بات کا حکم فرمایا اور وہ بہت اونچا ، سب سے بڑا ہے پھر ان کی یہی گفتگو چوری چھپے سننے والے شیطان سنا بھاگتے ہیں ، شیطان آسمان کے نیچے یوں نیچے اوپر ہوتے ہیں ، سفیان نے اس موقع پر ہتھیلی کوموڑ کر انگلیاں الگ الگ کرکے شیاطین کے جمع ہونے کی کیفیت بتائی کہ اس طرح شیطان ایک کے اوپر ایک رہتے ہیں ۔ پھر وہ شیاطین کوئی ایک کلمہ سن لیتے ہیں اور اپنے نیچے والے کو بتاتے ہیں ۔ اس طرح وہ کلمہ سا حر یا کاہن تک پہنچتا ہے ۔ کبھی تو ایسا ہوتا ہے کہ اس سے پہلے کہ وہ یہ کلمہ اپنے سے نیچے والے کو بتائیں آگ کا گولا انہیں آدبوچتا ہے اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ جب وہ بتا لیتے ہیں تو آگ کا انگارا ان پر پڑتا ہے ، اس کے بعد کاہن اس میں سو جھوٹ ملا کر لوگوں سے بیان کرتا ہے ( ایک بات جب اس کاہن کی صحیح ہو جاتی ہے تو ان کے ماننے والوں کی طرف سے ) کہا جاتا ہے کہ کیا اسی طرح ہم سے فلاں دن کاہن نہیں کہا تھا ، اسی ایک کلمہ کی وجہ سے جو آسمان پر شیاطین نے سناتھا کاہنوں اور ساحروں کی بات کو لوگ سچا جاننے لگتے ہیں ۔
تشریح :
آج کے سائنسی دور میں بھی ایسے کمزور اعتقاد والے بکثرت موجود ہیں جو جو تشیوں کی باتوں میں آکر اپنا سب کچھ برباد کر ڈالتے ہیں۔ مسلمانوں میں بھی ایسے کمزور خیال کے عوام موجود ہیں حالانکہ یہ اسلامی تعلیم کے سخت خلاف ہے۔
آج کے سائنسی دور میں بھی ایسے کمزور اعتقاد والے بکثرت موجود ہیں جو جو تشیوں کی باتوں میں آکر اپنا سب کچھ برباد کر ڈالتے ہیں۔ مسلمانوں میں بھی ایسے کمزور خیال کے عوام موجود ہیں حالانکہ یہ اسلامی تعلیم کے سخت خلاف ہے۔