‌صحيح البخاري - حدیث 4796

كِتَابُ تَفْسِيرِ القُرْآنِ بَابُ قَوْلِهِ {إِنْ تُبْدُوا شَيْئًا أَوْ تُخْفُوهُ فَإِنَّ ) صحيح حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ حَدَّثَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ اسْتَأْذَنَ عَلَيَّ أَفْلَحُ أَخُو أَبِي الْقُعَيْسِ بَعْدَمَا أُنْزِلَ الْحِجَابُ فَقُلْتُ لَا آذَنُ لَهُ حَتَّى أَسْتَأْذِنَ فِيهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِنَّ أَخَاهُ أَبَا الْقُعَيْسِ لَيْسَ هُوَ أَرْضَعَنِي وَلَكِنْ أَرْضَعَتْنِي امْرَأَةُ أَبِي الْقُعَيْسِ فَدَخَلَ عَلَيَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ لَهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أَفْلَحَ أَخَا أَبِي الْقُعَيْسِ اسْتَأْذَنَ فَأَبَيْتُ أَنْ آذَنَ لَهُ حَتَّى أَسْتَأْذِنَكَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَا مَنَعَكِ أَنْ تَأْذَنِي عَمُّكِ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ الرَّجُلَ لَيْسَ هُوَ أَرْضَعَنِي وَلَكِنْ أَرْضَعَتْنِي امْرَأَةُ أَبِي الْقُعَيْسِ فَقَالَ ائْذَنِي لَهُ فَإِنَّهُ عَمُّكِ تَرِبَتْ يَمِينُكِ قَالَ عُرْوَةُ فَلِذَلِكَ كَانَتْ عَائِشَةُ تَقُولُ حَرِّمُوا مِنْ الرَّضَاعَةِ مَا تُحَرِّمُونَ مِنْ النَّسَبِ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 4796

کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں باب: آیت (( ان تبدوا شیئا او تخفوہ )) کی تفسیر ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا ، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی ، انہیں زہری نے ، ان سے عروہ بن زبیر نے بیان کیا ، ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ پردہ کا حکم نازل ہونے کے بعد ابو القعیس کے بھائی افلح رضی اللہ عنہ نے مجھ سے ملنے کی اجازت چاہی ، لیکن میں نے کہلوا دیا کہ جب تک اس سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت حاصل نہ کر لوں ، ان سے نہیں مل سکتی ۔ میں نے سوچا کہ ان کے بھائی ابو القعیس نے مجھے تھوڑا ہی دودھ پلایا تھا ، دودھ پلانے والی تو ابو القعیس کی بیوی تھی ۔ پھر آنحضرت تشریف لائے تو میں نے آپ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! ابو القعیس کے بھائی افلح رضی اللہ عنہ نے مجھ سے ملنے کی اجازت چاہی ، لیکن میں نے یہ کہلوا دیا کہ جب تک آنحضرت سے اجازت نہ لے لوں ان سے ملاقات نہیں کر سکتی ۔ اس پر آنحضرت نے فرمایا کہ اپنے چچا سے ملنے سے تم نے کیوں انکار کر دیا ۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ابوالقعیس نے مجھے تھوڑا ہی دودھ پلایا تھا ، دودھ پلانے والی تو ان کی بیوی تھیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انہیں اندر آنے کی اجازت دے دو وہ تمہارے چچا ہیں ۔ عروہ نے بیان کیا کہ اسی وجہ سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی تھیں کہ رضاعت سے بھی وہ چیز یں ( مثلاً نکاح وغیرہ ) حرام ہو جاتی ہیں جو نسب کی وجہ سے حرام ہوتی ہیں ۔
تشریح : کسی بچہ یا بچی کو ماں کے علاوہ کوئی اور عورت دودھ پلادے تو وہ شرعاً دودھ کی ماں بن جاتی ہے اور اس کے احکام حقیقی ماں کی طرح ہوجاتے ہیں، اس کا خاوند باپ کے درجہ میں اور اس کے لڑکے بھائی کے درجہ میں آجاتے ہیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے قول کا مطلب یہی کہ رضاعی چچا، رضاعی پھوپھی، رضاعی ماموں، رضاعی خالہ سب محرم ہیں۔ اس حدیث کی مطابقت ترجمہ باب سے کئی وجوہ سے ہے ۔ ایک یہ کہ اس حدیث سے رضاعی باپ اور رضاعی چچا کے سامنے نکلناثابت ہوتا ہے اورآیت میں جو اٰباءھن کا لفظ تھا اس کی تفسیر حدیث سے ہو گئی کہ رضاعی باپ اور چچا بھی اٰباءھن میں داخل ہیں کیونکہ دوسری حدیث میں ہے۔ عم الرجل صنو ابیہ۔ دوسرے یہ کہ آیت میں ازواج مطہرات کے پاس جن لوگوں کا آنا روا تھا ان کا ذکر ہے اور حدیث میں بھی ان ہی کا تذکرہ ہے کہ ایک شخص حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آیا۔ تیسرے یہ کہ حدیث میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ قول مذکور ہے کہ جتنے رشتے خون کیوجہ سے حرام ہوتے ہیں وہی دودھ کی وجہ سے حرام ہو جاتے ہیں تو اس سے آیت کی تفسیر ہو گئی یعنی دوسرے محارم کا بھی ازواج مطہرات کے پاس آنا روا ہے گو آیت میں ان کا ذکر نہیں ہے جیسے دادا، نانا، ماموں ، چچا وغیرہ اور تعجب ہے اس شخص پر جس نے حضرت امام بخاری پر یہ اعتراض کیا کہ حدیث ترجمہ باب کے موافق نہیں ہے۔ قسطلانی نے کہا امام بخاری نے یہ حدیث لا کر عکرمہ اور شعبی کا رد کیا ہے جو چچا یا ماموں کے سامنے عورت کو دوپٹہ اتار کو آنا مکروہ جانتے ہیں۔ کسی بچہ یا بچی کو ماں کے علاوہ کوئی اور عورت دودھ پلادے تو وہ شرعاً دودھ کی ماں بن جاتی ہے اور اس کے احکام حقیقی ماں کی طرح ہوجاتے ہیں، اس کا خاوند باپ کے درجہ میں اور اس کے لڑکے بھائی کے درجہ میں آجاتے ہیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے قول کا مطلب یہی کہ رضاعی چچا، رضاعی پھوپھی، رضاعی ماموں، رضاعی خالہ سب محرم ہیں۔ اس حدیث کی مطابقت ترجمہ باب سے کئی وجوہ سے ہے ۔ ایک یہ کہ اس حدیث سے رضاعی باپ اور رضاعی چچا کے سامنے نکلناثابت ہوتا ہے اورآیت میں جو اٰباءھن کا لفظ تھا اس کی تفسیر حدیث سے ہو گئی کہ رضاعی باپ اور چچا بھی اٰباءھن میں داخل ہیں کیونکہ دوسری حدیث میں ہے۔ عم الرجل صنو ابیہ۔ دوسرے یہ کہ آیت میں ازواج مطہرات کے پاس جن لوگوں کا آنا روا تھا ان کا ذکر ہے اور حدیث میں بھی ان ہی کا تذکرہ ہے کہ ایک شخص حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آیا۔ تیسرے یہ کہ حدیث میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ قول مذکور ہے کہ جتنے رشتے خون کیوجہ سے حرام ہوتے ہیں وہی دودھ کی وجہ سے حرام ہو جاتے ہیں تو اس سے آیت کی تفسیر ہو گئی یعنی دوسرے محارم کا بھی ازواج مطہرات کے پاس آنا روا ہے گو آیت میں ان کا ذکر نہیں ہے جیسے دادا، نانا، ماموں ، چچا وغیرہ اور تعجب ہے اس شخص پر جس نے حضرت امام بخاری پر یہ اعتراض کیا کہ حدیث ترجمہ باب کے موافق نہیں ہے۔ قسطلانی نے کہا امام بخاری نے یہ حدیث لا کر عکرمہ اور شعبی کا رد کیا ہے جو چچا یا ماموں کے سامنے عورت کو دوپٹہ اتار کو آنا مکروہ جانتے ہیں۔