‌صحيح البخاري - حدیث 4777

كِتَابُ تَفْسِيرِ القُرْآنِ بَابُ قَوْلِهِ: {إِنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ} صحيح حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ عَنْ جَرِيرٍ عَنْ أَبِي حَيَّانَ عَنْ أَبِي زُرْعَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَوْمًا بَارِزًا لِلنَّاسِ إِذْ أَتَاهُ رَجُلٌ يَمْشِي فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا الْإِيمَانُ قَالَ الْإِيمَانُ أَنْ تُؤْمِنَ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَلِقَائِهِ وَتُؤْمِنَ بِالْبَعْثِ الْآخِرِ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا الْإِسْلَامُ قَالَ الْإِسْلَامُ أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ وَلَا تُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَتُقِيمَ الصَّلَاةَ وَتُؤْتِيَ الزَّكَاةَ الْمَفْرُوضَةَ وَتَصُومَ رَمَضَانَ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا الْإِحْسَانُ قَالَ الْإِحْسَانُ أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَتَى السَّاعَةُ قَالَ مَا الْمَسْئُولُ عَنْهَا بِأَعْلَمَ مِنْ السَّائِلِ وَلَكِنْ سَأُحَدِّثُكَ عَنْ أَشْرَاطِهَا إِذَا وَلَدَتْ الْمَرْأَةُ رَبَّتَهَا فَذَاكَ مِنْ أَشْرَاطِهَا وَإِذَا كَانَ الْحُفَاةُ الْعُرَاةُ رُءُوسَ النَّاسِ فَذَاكَ مِنْ أَشْرَاطِهَا فِي خَمْسٍ لَا يَعْلَمُهُنَّ إِلَّا اللَّهُ إِنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنْزِلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْأَرْحَامِ ثُمَّ انْصَرَفَ الرَّجُلُ فَقَالَ رُدُّوا عَلَيَّ فَأَخَذُوا لِيَرُدُّوا فَلَمْ يَرَوْا شَيْئًا فَقَالَ هَذَا جِبْرِيلُ جَاءَ لِيُعَلِّمَ النَّاسَ دِينَهُمْ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 4777

کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں باب:آیت (( ان اللہ عندہ علم الساعۃ )) الخ کی تفسیر مجھ سے اسحاق نے بیان کیا ، ان سے جریر نے ، ان سے ابو حیان نے ، ان سے ابو زرعہ نے اور ان سے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن لوگوں کے ساتھ تشریف رکھتے تھے کہ ایک نیا آدمی خدمت میں حاضر ہوااور پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ایمان کیا ہے ؟ آنحضرت نے فرمایا کہ ایمان یہ ہے کہ تم اللہ اوراس کے فرشتوں ، رسولوں اور اس کی ملاقات پر ایمان لاؤ اور قیامت کے دن پر ایمان لاؤ ۔ انہوں نے پوچھا ، یا رسول اللہ ! اسلام کیا ہے ؟ آنحضرت نے فرمایا اسلام یہ ہے کہ تنہا اللہ کی عبادت کرو اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤ ، نماز قائم کرو اور فرض زکوٰۃ ادا کرو اور زمضان کے روزے رکھو ۔ انہوں نے پوچھا ، یا رسول اللہ ! حسان کیا ہے ؟ آنحضرت نے فرمایا کہ احسان یہ ہے کہ تم اللہ کی اس طرح عبادت کرو گویا کہ تم اسے دیکھ رہے ہو ورنہ یہ عقیدہ لازما رکھو کہ اگر تم اسے نہیں دیکھتے تو وہ تمہیں ضرور دیکھ رہا ہے ۔ انہوں نے پوچھا یا رسول اللہ ! قیامت کب قائم ہوگی ؟ آنحضرت نے فرمایا کہ جس سے پوچھا جارہا ہے خود وہ سائل سے زیادہ اس کے واقع ہونے کے متعلق نہیں جانتا ۔ البتہ میں تمہیں اس کی چند نشانیاں بتاتا ہوں ۔ جب عورت ایسی اولاد جنے جو اس کے آقا بن جائیں تو یہ قیامت کی نشانی ہے ، جب ننگے پاؤں ، ننگے جسم والے لوگ لوگوں پر حاکم ہوجائیں تو یہ قیامت کی نشانی ہے ۔ قیامت بھی ان پانچ چیزوں میں سے ہے جسے اللہ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا ” بیشک اللہ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے ۔ وہی مینہ برساتا ہے اور وہی جانتا ہے کہ ماں کے رحم میں کیا ہے ( لڑکا یا لڑکی ) پھر وہ صاحب اٹھ کر چلے گئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہیں میرے پاس واپس بلا لاؤ ۔ لوگوں نے انہیں تلاش کیا تاکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں دوبارہ لائیں لیکن ان کا کہیں پتہ نہیں تھا ۔ پھر آپ نے فرمایا کہ یہ صاحب جبرئیل تھے ( انسانی صورت میں ) لوگوں کو دین کی باتیں سکھانے آئے تھے ۔
تشریح : ایمان اور اسلام تو سب مومنین کو شامل ہے اور احسان ولایت کا درجہ ہے پھر احسان کا اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ آدمی دنیا کے تمام خیالات کو دور کرکے اللہ کی یاد میں ایسا غرق ہوجائے جیسے اللہ کا مشاہدہ کررہا ہے اور ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ اللہ ہم کو دیکھ رہا ہے۔ ہر وقت یہ سمجھ کر گناہ اور بری باتوں سے بچا رہے۔ جب یہ حاصل ہو جائے تو وہ آدمی یقینا ولی اللہ ہے۔ اب یہ ضروری نہیں کہ اسے کشف وکرامت حاصل ہو کشف وکرامت کا ذکر کرنا نادانی ہے۔ ان تلد الامۃ ربتھا کا مطلب یہ کہ لونڈیوں کی اولاد بہت پیدا ہوتو ماں لونڈی اوربیٹا گویا اس کا مالک ہوا۔ آخر حدیث میں زمانہ حاضرہ پر اشارہ ہے کہ جنگلوں کے رہنے والے بکریاں اونٹ چرانے والے لوگ شہروں کا رخ کرینگے اور بڑے بڑے عہدے پاکر بڑے بڑے مکانات بنائیں گے اور وہ آج کل ہورہا ہے جیسا کہ مشاہدہ ہے۔ ایمان اور اسلام تو سب مومنین کو شامل ہے اور احسان ولایت کا درجہ ہے پھر احسان کا اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ آدمی دنیا کے تمام خیالات کو دور کرکے اللہ کی یاد میں ایسا غرق ہوجائے جیسے اللہ کا مشاہدہ کررہا ہے اور ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ اللہ ہم کو دیکھ رہا ہے۔ ہر وقت یہ سمجھ کر گناہ اور بری باتوں سے بچا رہے۔ جب یہ حاصل ہو جائے تو وہ آدمی یقینا ولی اللہ ہے۔ اب یہ ضروری نہیں کہ اسے کشف وکرامت حاصل ہو کشف وکرامت کا ذکر کرنا نادانی ہے۔ ان تلد الامۃ ربتھا کا مطلب یہ کہ لونڈیوں کی اولاد بہت پیدا ہوتو ماں لونڈی اوربیٹا گویا اس کا مالک ہوا۔ آخر حدیث میں زمانہ حاضرہ پر اشارہ ہے کہ جنگلوں کے رہنے والے بکریاں اونٹ چرانے والے لوگ شہروں کا رخ کرینگے اور بڑے بڑے عہدے پاکر بڑے بڑے مکانات بنائیں گے اور وہ آج کل ہورہا ہے جیسا کہ مشاہدہ ہے۔