‌صحيح البخاري - حدیث 4772

كِتَابُ تَفْسِيرِ القُرْآنِ بَابٌ: سُورَةُ القَصَصِ قَوْلِهِ: {إِنَّكَ لاَ تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ}28 صحيح حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ قَالَ أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيَّبِ عَنْ أَبِيهِ قَالَ لَمَّا حَضَرَتْ أَبَا طَالِبٍ الْوَفَاةُ جَاءَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَجَدَ عِنْدَهُ أَبَا جَهْلٍ وَعَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي أُمَيَّةَ بْنِ الْمُغِيرَةِ فَقَالَ أَيْ عَمِّ قُلْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ كَلِمَةً أُحَاجُّ لَكَ بِهَا عِنْدَ اللَّهِ فَقَالَ أَبُو جَهْلٍ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي أُمَيَّةَ أَتَرْغَبُ عَنْ مِلَّةِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَلَمْ يَزَلْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعْرِضُهَا عَلَيْهِ وَيُعِيدَانِهِ بِتِلْكَ الْمَقَالَةِ حَتَّى قَالَ أَبُو طَالِبٍ آخِرَ مَا كَلَّمَهُمْ عَلَى مِلَّةِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ وَأَبَى أَنْ يَقُولَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاللَّهِ لَأَسْتَغْفِرَنَّ لَكَ مَا لَمْ أُنْهَ عَنْكَ فَأَنْزَلَ اللَّهُ مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَنْ يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَأَنْزَلَ اللَّهُ فِي أَبِي طَالِبٍ فَقَالَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ أُولِي الْقُوَّةِ لَا يَرْفَعُهَا الْعُصْبَةُ مِنْ الرِّجَالِ لَتَنُوءُ لَتُثْقِلُ فَارِغًا إِلَّا مِنْ ذِكْرِ مُوسَى الْفَرِحِينَ الْمَرِحِينَ قُصِّيهِ اتَّبِعِي أَثَرَهُ وَقَدْ يَكُونُ أَنْ يَقُصَّ الْكَلَامَ نَحْنُ نَقُصُّ عَلَيْكَ عَنْ جُنُبٍ عَنْ بُعْدٍ عَنْ جَنَابَةٍ وَاحِدٌ وَعَنْ اجْتِنَابٍ أَيْضًا يَبْطِشُ وَيَبْطُشُ يَأْتَمِرُونَ يَتَشَاوَرُونَ الْعُدْوَانُ وَالْعَدَاءُ وَالتَّعَدِّي وَاحِدٌ آنَسَ أَبْصَرَ الْجِذْوَةُ قِطْعَةٌ غَلِيظَةٌ مِنْ الْخَشَبِ لَيْسَ فِيهَا لَهَبٌ وَالشِّهَابُ فِيهِ لَهَبٌ وَالْحَيَّاتُ أَجْنَاسٌ الْجَانُّ وَالْأَفَاعِي وَالْأَسَاوِدُ رِدْءًا مُعِينًا قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ يُصَدِّقُنِي وَقَالَ غَيْرُهُ سَنَشُدُّ سَنُعِينُكَ كُلَّمَا عَزَّزْتَ شَيْئًا فَقَدْ جَعَلْتَ لَهُ عَضُدًا مَقْبُوحِينَ مُهْلَكِينَ وَصَّلْنَا بَيَّنَّاهُ وَأَتْمَمْنَاهُ يُجْبَى يُجْلَبُ بَطِرَتْ أَشِرَتْ فِي أُمِّهَا رَسُولًا أُمُّ الْقُرَى مَكَّةُ وَمَا حَوْلَهَا تُكِنُّ تُخْفِي أَكْنَنْتُ الشَّيْءَ أَخْفَيْتُهُ وَكَنَنْتُهُ أَخْفَيْتُهُ وَأَظْهَرْتُهُ وَيْكَأَنَّ اللَّهَ مِثْلُ أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَشَاءُ وَيَقْدِرُ يُوَسِّعُ عَلَيْهِ وَيُضَيِّقُ عَلَيْهِ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 4772

کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں باب: سورۃ القصص کی تفسیر آیت (( انک لا تھدی من احببت الایۃ 28 )) کی تفسیر ہم سے ابو الیمان نے بیان کیا ، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی ، ان سے زہری نے بیان کیا ۔ انہیں سعید بن مسیب نے خبر دی اور ان سے ان کے والد ( حضرت مسیب بن حزن ) نے بیان کیا کہ جب ابو طالب کی وفات کا وقت قریب ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس آئے ، ابو جہل اور عبد اللہ بن ابی امیہ بن مغیرہ وہاں پہلے ہی سے موجود تھے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، چچا ! آپ صرف کلمہ لا الٰہ الا اللہ پڑھ دیجئے تاکہ اس کلمہ کے ذریعہ اللہ کی بارگاہ میں آپ کی شفاعت کروں ۔ اس پر ابو جہل اور عبد اللہ بن ابی امیہ بولے کیا تم عبد المطلب کے مذہب سے پھر جاؤ گے ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بار بار ان سے یہی کہتے رہے ( کہ آپ صرف ایک کلمہ پڑھ لیں ) اور یہ دونوں بھی اپنی بات ان کے سامنے بار بار دہراتے رہے ( کہ کیا تم عبدالمطلب کے مذہب سے پھر جاؤ گے ؟ ) آخر ابو طالب کی زبان سے جو آخری کلمہ نکلا وہ یہی تھا کہ وہ عبدالمطلب کے مذہب پر ہی قائم ہیں ۔ انہوں نے ” لاالٰہ الا اللہ “ پڑھنے سے انکار کردیا ۔ راوی نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ کی قسم ! میں آپ کے لئے طلب مغفرت کرتا رہوں گا تا آنکہ مجھے اس سے روک نہ دیا جائے ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی ” نبی اور ایمان والوں کے لئے یہ مناسب نہیںہے کہ وہ مشرکین کے لئے دعائے مغفرت کریں “ ۔ اور خاص ابو طالب کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گےا کہ ” جس کو تم چاہو ہدایت نہیں کر سکتے ، البتہ اللہ ہدایت دیتا ہے اسے جس کے لئے وہ ہدایت چاہتا ہے ۔ “ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا ۔ (( لتنوءبالعصبۃ اولی القوۃ )) سے یہ مراد ہے کہ کئی زور دار آدمی مل کر بھی اس کی کنجیاں نہیں اٹھا سکتے تھے ۔ لتنوءکا مطلب ڈھوئی جاتی تھیں ۔ فارغا کا معنی یہ ہے کہ موسیٰ کی ماں کے دل میں موسیٰ کے سوا اور کوئی خاص نہیں رہا تھا ۔ الفرحین کا معنی خوشی سے اتراتے ہوئے ۔ قصیہ یعنی اس کے پیچھے پیچھے چلی جا ۔ قص کے معنی بیان کرنے کے ہوتے ہیں جیسے سورئہ یوسف میں فرمایا نحن نقص علیک ، عن جنب یعنی دور سے عن جنابۃ کا بھی یہی معنی ہے اور عن اجتناب کا بھی یہی ہے ۔ یبطش بہ کسرہ طاءاور یبطش بہ ضمہ طاءدونوں قرات ہیں ۔ یا تمرون مشورہ کر رہے ہیں ۔ عدوان اور عدو اور تعدی سب کا ایک ہی مفہوم ہے یعنی حد سے بڑھ جانا ظلم کرنا ۔ آنس کا معنی دیکھنا ۔ جذوۃ لکڑی کا موٹا ٹکڑا جس کے سر ے پر آگ لگی ہو مگر اس میں شعلہ نہ ہو اور شہاب جو آیت اواتیکم بشھاب قبس میں ہے اس سے مراد ایسی جلتی ہوئی لکڑی جس میں شعلہ ہو ۔ حیات یعنی سانپوں کی مختلف قسمیں جان ، افعی ، اسود وغیرہ ردئً ا یعنی مددگار پشت پناہ ۔ ابن عباس نے یصدقنی بہ ضمہ قاف پڑھا ہے ۔ اوروں نے کہا سنشد کا معنی یہ ہے کہ ہم تیری مدد کریں گے عرب لوگ کا محاورہ ہے جب کسی کو قوت دیتے ہیں تو کہتے ہیں جعلنا لہ عضدا ، مقبوحین کا معنی ہلاک کئے گئے وصلنا ہم نے اس کو بیان کیا اور پورا کیا یجبٰی کچھے آتے ہیں ۔ بطرت شرارت کی ۔ فی امھا رسولا ام القری مکہ اور اس کے اطراف کو کہتے ہیں ۔ تکن کا معنی چھپاتی ہیں ۔ عرب لوگ کہتے ہیں اکننت یعنی میں نے اس کو چھپالیا ۔ کننتہ کا بھی یہی معنی ہے ۔ ویکان اللہ کا معنی الم تر ان اللہ کے یعنی کیا تو نے نہیں دیکھا ۔ یبسط الرزق لمن یشاءویقدر یعنی اللہ جس کو چاہتا ہے فراغت سے روزی دیتا ہے جسے چاہتا ہے تنگی سے دیتا ہے ۔