‌صحيح البخاري - حدیث 4768

كِتَابُ تَفْسِيرِ القُرْآنِ بَابُ 26سُورَةُ الشُّعَرَاءِ{وَلاَ تُخْزِنِي يَوْمَ يُبْعَثُونَ} صحيح وَقَالَ إِبْرَاهِيمُ بْنُ طَهْمَانَ: عَنْ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ المَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنَّ إِبْرَاهِيمَ عَلَيْهِ الصَّلاَةُ وَالسَّلاَمُ يَرَى أَبَاهُ يَوْمَ القِيَامَةِ، عَلَيْهِ الغَبَرَةُ وَالقَتَرَةُ» الغَبَرَةُ هِيَ القَتَرَةُ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 4768

کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں باب: 26سورۃ شعراءکی تفسیر آیت (( ولا تخزنی یوم یبعثون )) کی تفسیر اور ہم سے ابراہیم بن طہمان نے کہا کہ ان سے ابن ابی ذئب نے بیان کیا ، ان سے سعید بن ابی سعید مقبری نے ، ان سے ان کے والد نے اور ان سے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابراہیم علیہ الصلٰوۃ والسلام اپنے والد ( آذر ) کو قیامت کے دن گرد آلود کالا کلوٹا دیکھیں گے ۔ امام بخاری نے کہا ۔ غبرہ اور قترہ ہم معنی ہیں ۔
تشریح : اس حدیث کی مطابقت ترجمہ باب سے یوں ہے کہ اس حدیث میں مذکور ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام پروردگار سے عرض کریں گے ۔ میں نے تجھ سے دنیا میں دعا کی تھی کہ حشر کے دن مجھ کو رسوا نہ کیجےو اور تو نے وعدہ فرما لیا تھا۔ اب باپ کی ذلت سے بڑھ کر کون سی رسوائی ہو گی۔ دوسری روایت میں اتنا زیادہ ہے کہ پھر اللہ پاک ان کے باپ کو ایک گندی نجا ست میں لتھڑے ہوئے بجو کی شکل میں کر دے گا، فرشتے اس کے پاؤں پکڑکر اسے دوزخ میں ڈال دیں گے ۔ حضرت ابراہیم یہ قبیح صورت دیکھ کر اس سے بیزار ہوجائیں گے، اس حدیث سے ان حکایتوں کا غلط ہونا ثابت ہواکہ فلاں بزرگ یا فلاں ولی کا دھوبی یا غلام جو کافر تھا ان کا نام لینے سے بخش دیا گیا۔ ابراہیم خلیل اللہ سے زیادہ ان اولیاءاللہ کا مرتبہ نہیں ہوسکتا ہے۔ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد کفر کی وجہ سے نہیں بخشے گئے تو ان بزرگوں یا ولیوں کے غلام اور خادم کس شمار میں ہیں۔ دوسری حدیث میں ہے ایک شخص نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا یا رسول اللہ! میرا باپ کہاں ہے؟ آپ نے فرمایا دوزخ میں وہ روتا ہوا چلا آپ نے فرمایا میرا باپ اور تیرا باپ دونوں دوزخ میں ہیں۔ تیسری حدیث میں ہے کہ ابو طالب کو قیامت کے دن آگ کی دو جوتیاں پہنائی جائیں گی یا وہ ٹخنے برابر آگ میں رہیں گے ان کا دماغ گرمی سے جوش مارتا رہے گا۔ پناہ بخدا ( وحیدی ) اس حدیث کی مطابقت ترجمہ باب سے یوں ہے کہ اس حدیث میں مذکور ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام پروردگار سے عرض کریں گے ۔ میں نے تجھ سے دنیا میں دعا کی تھی کہ حشر کے دن مجھ کو رسوا نہ کیجےو اور تو نے وعدہ فرما لیا تھا۔ اب باپ کی ذلت سے بڑھ کر کون سی رسوائی ہو گی۔ دوسری روایت میں اتنا زیادہ ہے کہ پھر اللہ پاک ان کے باپ کو ایک گندی نجا ست میں لتھڑے ہوئے بجو کی شکل میں کر دے گا، فرشتے اس کے پاؤں پکڑکر اسے دوزخ میں ڈال دیں گے ۔ حضرت ابراہیم یہ قبیح صورت دیکھ کر اس سے بیزار ہوجائیں گے، اس حدیث سے ان حکایتوں کا غلط ہونا ثابت ہواکہ فلاں بزرگ یا فلاں ولی کا دھوبی یا غلام جو کافر تھا ان کا نام لینے سے بخش دیا گیا۔ ابراہیم خلیل اللہ سے زیادہ ان اولیاءاللہ کا مرتبہ نہیں ہوسکتا ہے۔ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد کفر کی وجہ سے نہیں بخشے گئے تو ان بزرگوں یا ولیوں کے غلام اور خادم کس شمار میں ہیں۔ دوسری حدیث میں ہے ایک شخص نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا یا رسول اللہ! میرا باپ کہاں ہے؟ آپ نے فرمایا دوزخ میں وہ روتا ہوا چلا آپ نے فرمایا میرا باپ اور تیرا باپ دونوں دوزخ میں ہیں۔ تیسری حدیث میں ہے کہ ابو طالب کو قیامت کے دن آگ کی دو جوتیاں پہنائی جائیں گی یا وہ ٹخنے برابر آگ میں رہیں گے ان کا دماغ گرمی سے جوش مارتا رہے گا۔ پناہ بخدا ( وحیدی )