كِتَابُ تَفْسِيرِ القُرْآنِ بَابُ قَوْلِهِ {إِلَّا مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا، فَأُولَئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا} صحيح حَدَّثَنَا عَبْدَانُ أَخْبَرَنَا أَبِي عَنْ شُعْبَةَ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ قَالَ أَمَرَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبْزَى أَنْ أَسْأَلَ ابْنَ عَبَّاسٍ عَنْ هَاتَيْنِ الْآيَتَيْنِ وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَسَأَلْتُهُ فَقَالَ لَمْ يَنْسَخْهَا شَيْءٌ وَعَنْ وَالَّذِينَ لَا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ قَالَ نَزَلَتْ فِي أَهْلِ الشِّرْكِ
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
باب: آیت (( الا من تاب وآمن وعمل عملا صالحا )) کی تفسیر
ہم سے عبدان نے بیان کیا ، کہا مجھ کو میرے والد نے خبر دی ، انہیں شعبہ نے ، انہیں منصور نے ، ان سے سعید بن جبیر نے بیان کیا کہ مجھے عبد الرحمن بن ابزیٰ نے حکم دیا کہ میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے دو آیتوں کے بارے میں پوچھوں یعنی اور جس نے کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کیا “ الخ میں نے ان سے پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ یہ آیت کسی چیز سے بھی منسوخ نہیں ہوئی ہے ۔ ( اور دوسری آیت جس کے ) بارے میں مجھے انہوں نے پوچھنے کا حکم دیا وہ یہ تھی ” اور جو لوگ کسی معبود کو اللہ کے ساتھ نہیں پکارتے “ آپ نے اس کے متعلق فرمایا یہ مشرکین کے بارے میں نازل ہوئی تھی ۔
تشریح :
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا خیال یہ تھا کہ الا من تاب وآمن الایۃ کا تعلق ان مسلمانوں سے نہیں ہے جو کسی مسلمان کا عمداً ناحق خون کریں یہ آیت صرف کافروں اور مشرکوں کے ایمان لانے سے متعلق ہے۔ یہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا خیال تھا مگر جمہور امت نے ایسے قاتل کے بارے میں توبہ واستغفار کی گنجائش بتائی ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا خیال یہ تھا کہ الا من تاب وآمن الایۃ کا تعلق ان مسلمانوں سے نہیں ہے جو کسی مسلمان کا عمداً ناحق خون کریں یہ آیت صرف کافروں اور مشرکوں کے ایمان لانے سے متعلق ہے۔ یہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا خیال تھا مگر جمہور امت نے ایسے قاتل کے بارے میں توبہ واستغفار کی گنجائش بتائی ہے۔