كِتَابُ تَفْسِيرِ القُرْآنِ بَابُ قَوْلِهِ {وَالَّذِينَ لاَ يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ وَلاَ يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالحَقِّ، وَلاَ يَزْنُونَ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ يَلْقَ أَثَامًا} صحيح حَدَّثَنَا آدَمُ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ حَدَّثَنَا مَنْصُورٌ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ قَالَ سَأَلْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا عَنْ قَوْلِهِ تَعَالَى فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ قَالَ لَا تَوْبَةَ لَهُ وَعَنْ قَوْلِهِ جَلَّ ذِكْرُهُ لَا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ قَالَ كَانَتْ هَذِهِ فِي الْجَاهِلِيَّةِ
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
باب: آیت (( والذین لا ید عون مع اللہ الایۃ )) کی تفسیر
ہم سے آدم نے بیان کیا ، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا ، کہا ہم سے منصور نے بیان کیا ، ان سے سعید بن جبیر نے بیان کیا کہ میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ” فجزاءہ جھنم “ کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے فرمایا کہ اس کی توبہ قبول نہیں ہوگی اور اللہ تعالیٰ کے ارشاد ” لا یدعون مع اللہ الٰھا اٰخر “ کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ یہ ان لوگوں کے متعلق ہے جنہوں نے زمانہ جاہلیت میں قتل کیاہو ۔
تشریح :
یعنی جن لوگوں نے زمانہ جاہلیت میں قتل کیا ہو اور پھر اسلام لائے ہوں تو ان کا حکم اس آیت میں بتایا گیا ہے لیکن اگر کوئی مسلمان اپنے مسلمان بھائی کو ناحق قتل کردے تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے نزدیک اس کی سزا جہنم ہے۔ اس گناہ سے اس کی توبہ قبول نہیں ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا یہی فتویٰ ہے کہ عمداً کسی مسلمان کا نا حق قاتل ابدی دوزخی ہے۔ مگر جمہور امت کا فتویٰ ہے کہ ایسا گنہگار اس مقتول کے وارثوں کو خون بہا دے کر توبہ کرے تو وہ قابل معافی ہوجاتا ہے ۔ شاید حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا فتویٰ زجر وتوبیخ کے طور پر ہو۔ بہر حال جمہور کا فتویٰ رحمت الٰہی کے زیادہ قریب ہے۔
یعنی جن لوگوں نے زمانہ جاہلیت میں قتل کیا ہو اور پھر اسلام لائے ہوں تو ان کا حکم اس آیت میں بتایا گیا ہے لیکن اگر کوئی مسلمان اپنے مسلمان بھائی کو ناحق قتل کردے تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے نزدیک اس کی سزا جہنم ہے۔ اس گناہ سے اس کی توبہ قبول نہیں ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا یہی فتویٰ ہے کہ عمداً کسی مسلمان کا نا حق قاتل ابدی دوزخی ہے۔ مگر جمہور امت کا فتویٰ ہے کہ ایسا گنہگار اس مقتول کے وارثوں کو خون بہا دے کر توبہ کرے تو وہ قابل معافی ہوجاتا ہے ۔ شاید حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا فتویٰ زجر وتوبیخ کے طور پر ہو۔ بہر حال جمہور کا فتویٰ رحمت الٰہی کے زیادہ قریب ہے۔