‌صحيح البخاري - حدیث 4757

كِتَابُ تَفْسِيرِ القُرْآنِ بَابُ قَوْلِهِ: {وَلاَ يَأْتَلِ أُولُو الفَضْلِ صحيح وَقَالَ أَبُو أُسَامَةَ: عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبِي، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: لَمَّا ذُكِرَ مِنْ شَأْنِي الَّذِي ذُكِرَ، وَمَا عَلِمْتُ بِهِ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيَّ خَطِيبًا، فَتَشَهَّدَ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ، ثُمَّ قَالَ: «أَمَّا بَعْدُ أَشِيرُوا عَلَيَّ فِي أُنَاسٍ أَبَنُوا أَهْلِي، وَايْمُ اللَّهِ مَا عَلِمْتُ عَلَى أَهْلِي مِنْ سُوءٍ، وَأَبَنُوهُمْ بِمَنْ وَاللَّهِ مَا عَلِمْتُ عَلَيْهِ مِنْ سُوءٍ قَطُّ، وَلاَ يَدْخُلُ بَيْتِي قَطُّ إِلَّا وَأَنَا حَاضِرٌ، وَلاَ غِبْتُ فِي سَفَرٍ إِلَّا غَابَ مَعِي»، فَقَامَ سَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ فَقَالَ: ائْذَنْ لِي يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنْ نَضْرِبَ أَعْنَاقَهُمْ، وَقَامَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي الخَزْرَجِ، وَكَانَتْ أُمُّ حَسَّانَ بْنِ ثَابِتٍ مِنْ رَهْطِ ذَلِكَ الرَّجُلِ، فَقَالَ: كَذَبْتَ أَمَا وَاللَّهِ أَنْ لَوْ كَانُوا مِنَ الأَوْسِ مَا أَحْبَبْتَ أَنْ تُضْرَبَ أَعْنَاقُهُمْ، حَتَّى كَادَ أَنْ يَكُونَ بَيْنَ الأَوْسِ وَالخَزْرَجِ شَرٌّ فِي المَسْجِدِ، وَمَا عَلِمْتُ فَلَمَّا كَانَ مَسَاءُ ذَلِكَ اليَوْمِ، خَرَجْتُ لِبَعْضِ حَاجَتِي، وَمَعِي أُمُّ مِسْطَحٍ فَعَثَرَتْ، وَقَالَتْ: تَعِسَ مِسْطَحٌ، فَقُلْتُ: أَيْ أُمِّ تَسُبِّينَ ابْنَكِ؟ وَسَكَتَتْ ثُمَّ عَثَرَتِ الثَّانِيَةَ، فَقَالَتْ: تَعَسَ مِسْطَحٌ، فَقُلْتُ لَهَا: أَيْ أُمِّ أَتَسُبِّينَ ابْنَكِ؟ فَسَكَتَتْ ثُمَّ عَثَرَتِ الثَّالِثَةَ، فَقَالَتْ: تَعَسَ مِسْطَحٌ فَانْتَهَرْتُهَا، فَقَالَتْ: وَاللَّهِ مَا أَسُبُّهُ إِلَّا فِيكِ، فَقُلْتُ فِي أَيِّ شَأْنِي؟ قَالَتْ: فَبَقَرَتْ لِي الحَدِيثَ، فَقُلْتُ: وَقَدْ كَانَ هَذَا، قَالَتْ: نَعَمْ، وَاللَّهِ فَرَجَعْتُ إِلَى بَيْتِي كَأَنَّ الَّذِي خَرَجْتُ لَهُ لاَ أَجِدُ مِنْهُ قَلِيلًا وَلاَ كَثِيرًا، وَوُعِكْتُ، فَقُلْتُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَرْسِلْنِي إِلَى بَيْتِ أَبِي، فَأَرْسَلَ مَعِي الغُلاَمَ فَدَخَلْتُ الدَّارَ، فَوَجَدْتُ أُمَّ رُومَانَ فِي السُّفْلِ، وَأَبَا بَكْرٍ فَوْقَ البَيْتِ يَقْرَأُ، فَقَالَتْ أُمِّي: مَا جَاءَ بِكِ يَا بُنَيَّةُ؟ فَأَخْبَرْتُهَا وَذَكَرْتُ لَهَا الحَدِيثَ، وَإِذَا هُوَ لَمْ يَبْلُغْ مِنْهَا مِثْلَ مَا بَلَغَ مِنِّي، فَقَالَتْ: يَا بُنَيَّةُ، خَفِّفِي عَلَيْكِ الشَّأْنَ فَإِنَّهُ وَاللَّهِ لَقَلَّمَا كَانَتِ امْرَأَةٌ حَسْنَاءُ عِنْدَ رَجُلٍ يُحِبُّهَا لَهَا ضَرَائِرُ إِلَّا حَسَدْنَهَا، وَقِيلَ فِيهَا: وَإِذَا هُوَ لَمْ يَبْلُغْ مِنْهَا مَا بَلَغَ مِنِّي، قُلْتُ: وَقَدْ عَلِمَ بِهِ أَبِي؟ قَالَتْ: نَعَمْ، قُلْتُ: وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ: نَعَمْ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاسْتَعْبَرْتُ وَبَكَيْتُ، فَسَمِعَ أَبُو بَكْرٍ صَوْتِي، وَهُوَ فَوْقَ البَيْتِ يَقْرَأُ، فَنَزَلَ فَقَالَ لِأُمِّي: مَا شَأْنُهَا؟ قَالَتْ: بَلَغَهَا الَّذِي ذُكِرَ مِنْ شَأْنِهَا، فَفَاضَتْ عَيْنَاهُ، قَالَ: أَقْسَمْتُ عَلَيْكِ أَيْ بُنَيَّةُ إِلَّا رَجَعْتِ إِلَى بَيْتِكِ فَرَجَعْتُ، وَلَقَدْ جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْتِي فَسَأَلَ عَنِّي خَادِمَتِي، فَقَالَتْ: لاَ وَاللَّهِ مَا عَلِمْتُ عَلَيْهَا عَيْبًا إِلَّا أَنَّهَا كَانَتْ تَرْقُدُ حَتَّى تَدْخُلَ الشَّاةُ، فَتَأْكُلَ خَمِيرَهَا - أَوْ عَجِينَهَا - [ص:108] وَانْتَهَرَهَا بَعْضُ أَصْحَابِهِ، فَقَالَ: اصْدُقِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَسْقَطُوا لَهَا بِهِ، فَقَالَتْ: سُبْحَانَ اللَّهِ وَاللَّهِ مَا عَلِمْتُ عَلَيْهَا إِلَّا مَا يَعْلَمُ الصَّائِغُ عَلَى تِبْرِ الذَّهَبِ الأَحْمَرِ، وَبَلَغَ الأَمْرُ إِلَى ذَلِكَ الرَّجُلِ الَّذِي قِيلَ لَهُ، فَقَالَ: سُبْحَانَ اللَّهِ وَاللَّهِ مَا كَشَفْتُ كَنَفَ أُنْثَى قَطُّ، قَالَتْ عَائِشَةُ: فَقُتِلَ شَهِيدًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ، قَالَتْ: وَأَصْبَحَ أَبَوَايَ عِنْدِي، فَلَمْ يَزَالاَ حَتَّى دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَدْ صَلَّى العَصْرَ، ثُمَّ دَخَلَ وَقَدْ اكْتَنَفَنِي أَبَوَايَ عَنْ يَمِينِي وَعَنْ شِمَالِي، فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ: «أَمَّا بَعْدُ، يَا عَائِشَةُ إِنْ كُنْتِ قَارَفْتِ سُوءًا أَوْ ظَلَمْتِ فَتُوبِي إِلَى اللَّهِ، فَإِنَّ اللَّهَ يَقْبَلُ التَّوْبَةَ مِنْ عِبَادِهِ» قَالَتْ: وَقَدْ جَاءَتِ امْرَأَةٌ مِنَ الأَنْصَارِ فَهِيَ جَالِسَةٌ بِالْبَابِ، فَقُلْتُ: أَلاَ تَسْتَحْيِ مِنْ هَذِهِ المَرْأَةِ، أَنْ تَذْكُرَ شَيْئًا، فَوَعَظَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَالْتَفَتُّ إِلَى أَبِي، فَقُلْتُ لَهُ: أَجِبْهُ، قَالَ: فَمَاذَا أَقُولُ؟ فَالْتَفَتُّ إِلَى أُمِّي، فَقُلْتُ: أَجِيبِيهِ، فَقَالَتْ: أَقُولُ مَاذَا؟ فَلَمَّا لَمْ يُجِيبَاهُ تَشَهَّدْتُ فَحَمِدْتُ اللَّهَ وَأَثْنَيْتُ عَلَيْهِ، بِمَا هُوَ أَهْلُهُ، ثُمَّ قُلْتُ: أَمَّا بَعْدُ فَوَاللَّهِ لَئِنْ قُلْتُ لَكُمْ إِنِّي لَمْ أَفْعَلْ، وَاللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ يَشْهَدُ إِنِّي لَصَادِقَةٌ، مَا ذَاكَ بِنَافِعِي عِنْدَكُمْ، لَقَدْ تَكَلَّمْتُمْ بِهِ وَأُشْرِبَتْهُ قُلُوبُكُمْ، وَإِنْ قُلْتُ إِنِّي قَدْ فَعَلْتُ، وَاللَّهُ يَعْلَمُ أَنِّي لَمْ أَفْعَلْ لَتَقُولُنَّ قَدْ بَاءَتْ بِهِ عَلَى نَفْسِهَا، وَإِنِّي وَاللَّهِ مَا أَجِدُ لِي وَلَكُمْ مَثَلًا، وَالتَمَسْتُ اسْمَ يَعْقُوبَ فَلَمْ أَقْدِرْ عَلَيْهِ إِلَّا أَبَا يُوسُفَ حِينَ قَالَ: {فَصَبْرٌ جَمِيلٌ وَاللَّهُ المُسْتَعَانُ عَلَى مَا تَصِفُونَ} [يوسف: 18]، وَأُنْزِلَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ سَاعَتِهِ فَسَكَتْنَا فَرُفِعَ عَنْهُ، وَإِنِّي لَأَتَبَيَّنُ السُّرُورَ فِي وَجْهِهِ، وَهُوَ يَمْسَحُ جَبِينَهُ، وَيَقُولُ: «أَبْشِرِي يَا عَائِشَةُ، فَقَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ بَرَاءَتَكِ»، قَالَتْ: وَكُنْتُ أَشَدَّ مَا كُنْتُ غَضَبًا، فَقَالَ لِي أَبَوَايَ: قُومِي إِلَيْهِ، فَقُلْتُ: لاَ وَاللَّهِ لاَ أَقُومُ إِلَيْهِ، وَلاَ أَحْمَدُهُ وَلاَ أَحْمَدُكُمَا، وَلَكِنْ أَحْمَدُ اللَّهَ الَّذِي أَنْزَلَ بَرَاءَتِي، لَقَدْ سَمِعْتُمُوهُ فَمَا أَنْكَرْتُمُوهُ وَلاَ غَيَّرْتُمُوهُ، وَكَانَتْ عَائِشَةُ تَقُولُ: أَمَّا زَيْنَبُ ابْنَةُ جَحْشٍ فَعَصَمَهَا اللَّهُ بِدِينِهَا، فَلَمْ تَقُلْ إِلَّا خَيْرًا، وَأَمَّا أُخْتُهَا حَمْنَةُ فَهَلَكَتْ فِيمَنْ هَلَكَ، وَكَانَ الَّذِي يَتَكَلَّمُ فِيهِ مِسْطَحٌ وَحَسَّانُ بْنُ ثَابِتٍ وَالمُنَافِقُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ وَهُوَ الَّذِي كَانَ يَسْتَوْشِيهِ وَيَجْمَعُهُ، وَهُوَ الَّذِي تَوَلَّى كِبْرَهُ مِنْهُمْ، هُوَ وَحَمْنَةُ قَالَتْ: فَحَلَفَ أَبُو بَكْرٍ أَنْ لاَ يَنْفَعَ مِسْطَحًا بِنَافِعَةٍ أَبَدًا، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: {وَلاَ يَأْتَلِ أُولُو الفَضْلِ مِنْكُمْ} إِلَى آخِرِ الآيَةِ - يَعْنِي أَبَا بَكْرٍ - {وَالسَّعَةِ أَنْ يُؤْتُوا أُولِي القُرْبَى وَالمَسَاكِينَ} [النور: 22]: يَعْنِي مِسْطَحًا إِلَى قَوْلِهِ: {أَلاَ تُحِبُّونَ [ص:109] أَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ لَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ} [النور: 22] حَتَّى قَالَ أَبُو بَكْرٍ: بَلَى وَاللَّهِ يَا رَبَّنَا، إِنَّا لَنُحِبُّ أَنْ تَغْفِرَ لَنَا، وَعَادَ لَهُ بِمَا كَانَ يَصْنَعُ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 4757

کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں باب: آیت (( ولا یاتل اولو الفضل ....الایۃ )) کی تفسیر اور ابو اسامہ حماد بن اسامہ نے ہشام بن عروہ سے بیان کیا کہ انہوں نے کہا کہ مجھے میرے والد عروہ بن زبیر نے خبر دی اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیاکہ جب میرے متعلق ایسی باتیں کہی گئیں جن کا مجھے گمان بھی نہیں تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے معاملہ میں لوگوں کو خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے ۔ آپ نے شہادت کے بعد اللہ کی حمد وثنا اس کی شان کے مطابق بیان کی ، پھر فرمایا ، اما بعد ! تم لوگ مجھے ایسے لوگوں کے بارے میں مشورہ دو جنہوں نے میری بیوی کو بد نام کیا ہے اوراللہ کی قسم کہ میں نے اپنی بیوی میں کوئی برائی نہیں دیکھی اور تہمت بھی ایسے شخص ( صفوان بن معطل ) کے ساتھ لگائی ہے کہ اللہ کی قسم ، ان میں بھی میں نے کبھی کوئی برائی نہیں دیکھی ۔ وہ میرے گھر میں جب بھی داخل ہوا تو میری موجود گی ہی میں داخل ہوا اور اگر میں کبھی سفر کی وجہ سے مدینہ نہیں ہوتا تو وہ بھی نہیں ہوتا اور وہ میرے ساتھ ہی رہتے ہیں ۔ اسکے بعد سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا ، یا رسول اللہ ! ہمیں حکم فرمایئے کہ ہم ایسے مردود لوگوں کی گردنیں اڑادیں ۔ اس کے بعد قبیلہ خزرج کے ایک صاحب ( سعد بن عبادہ ) کھڑے ہوئے ، حسان بن ثابت کی والدہ اسی قبیلہ خزرج سے تھیں ، انہوں نے کھڑے ہو کر کہا کہ تم جھوٹے ہو ، اگر وہ لوگ ( تہمت لگانے والے ) قبیلہ اوس کے ہوتے تو تم کبھی انہیں قتل کرنا پسند نہ کرتے ۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ مسجد ہی میں اوس وخزرج کے قبائل میں باہم فساد کا خطرہ ہوگیا ، اس فساد کی مجھ کو کچھ خبر نہ تھی ، اسی دن کی رات میں میں قضاءحاجت کے لئے باہر نکلی ، میرے ساتھ ام مسطح بھی تھیں ۔ وہ ( راستے میں ) پھسل گئیں اور ان کی زبان سے نکلا کہ مسطح کو خدا غارت کرے ۔ میں نے کہا ، آپ اپنے بیٹے کو کوستی ہیں ، اس پر وہ خاموش ہو گئیں ، پھر دوبارہ وہ پھسلیں اوران کی زبان سے وہی الفاظ نکلے کہ مسطح کو خدا غارت کرے ۔ میں نے پھر کہا کہ اپنے بیٹے کو کوستی ہو ، پھر وہ تیسری مرتبہ پھسلیں تو میںنے پھر انہیں ٹوکا ۔ انہوں نے بتایا کہ خدا کی قسم ، میں تو تیری ہی وجہ سے اسے کوستی ہوں ۔ میں نے کہاکہ میرے کس معاملہ میں انہیں آپ کوس رہی ہیں ؟ بیان کیا ۔ کہ اب انہوں نے طوفان کا سارا قصہ بیان کیا میںنے پوچھا ، کیا واقعی یہ سب کچھ کہا گیا ہے ؟ انہوں نے کہا کہ ہاں ، خدا کی قسم پھر میںاپنے گھر گئی ۔ لیکن ( ان واقعات کو سن کر غم کا یہ حال تھاکہ ) مجھے کچھ خبر نہیں کہ کس کام کے لئے میں باہر گئی تھی اور کہاں سے آئی ہوں ، ذرہ برابر بھی مجھے اس کا احساس نہیں رہا ۔ اس کے بعد مجھے بخار چڑھ گیا اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ آپ مجھے ذرا میرے والد کے گھر پہنچوادیجئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے ساتھ ایک بچہ کو کردیا ۔ میں گھر پہنچی تو میں نے دیکھا کہ ام رومان نیچے کے حصہ میں ہیں اور ابوبکر رضی اللہ عنہ بالا خانے میں قرآن پڑھ رہے ہیں ۔ والدہ نے پوچھا بیٹی اس وقت کیسے آگئیں ۔ میں نے وجہ بتائی اور واقعہ کی تفصیلات سنائیں ان باتوں سے جتنا غم مجھ کو تھا ایسامعلوم ہوا کہ ان کو اتنا غم نہیں ہے ۔ انہوں نے فرمایا ، بیٹی اتنا فکر کیوں کرتی ہو کم ہی ایسی کوئی خوبصورت عورت کسی ایسے مرد کے نکاح میں ہوگی جو اس سے محبت رکھتا ہو اور اس کی سوکنیں بھی ہوں اوروہ اس سے حسد نہ کریں اور اس میں سو عیب نہ نکالیں ۔ اس تہمت سے وہ اس درجہ بالکل بھی متاثر نہیں معلوم ہوتی تھیں جتنا میں متاثر تھی ۔ میں نے پوچھا والد کے علم میں بھی یہ باتیں آگئیں ہیں ؟ انہوں نے کہا کہ ہاں ، میں نے پوچھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ؟ انہوں نے بتایا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بھی علم میں سب کچھ ہے ۔ میں یہ سن کر رونے لگی تو ابو بکر رضی اللہ عنہ نے بھی میری آواز سن لی ، وہ گھر کے بالائی حصہ میں قرآن پڑھ رہے تھے ، اتر کر نیچے آئے اور والدہ سے پوچھا کہ اسے کیا ہوگیاہے ؟ انہوں نے کہاکہ وہ تمام باتیں اسے بھی معلوم ہوگئی ہیں جو اس کے متعلق کہی جارہی ہیں ۔ ان کی بھی آنکھیں بھر آئیں اور فرمایا بیٹی ! تمہیں قسم دیتا ہوں ، اپنے گھر واپس چلی جاؤ چنانچہ میں واپس چلی آئی ۔ ( جب میں اپنے والدین کے گھر آگئی تھی تو ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے حجرہ میں تشریف لائے تھے اور میری خادمہ ( بریرہ ) سے میرے متعلق پوچھا تھا ۔ اس نے کہا تھاکہ نہیں ، خداکی قسم میں ان کے اندر کوئی عیب نہیں جانتی ، البتہ ایسا ہو جایا کر تا تھا ( کم عمری کی غفلت کی وجہ سے ) کہ ( آٹاگوندھتے ہوئے ) سوجایا کرتیں اور بکری آکر ان کا گندھا ہوا آٹا کھا جاتی ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض صحابہ نے ڈانٹ کر ان سے کہاکہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بات صحیح صحیح کیوں نہیں بتا دیتی ۔ پھر انہوں نے کھول کر صاف لفظوں میں ان سے واقعہ کی تصدیق چاہی ۔ اس پر وہ بولیں کہ سبحان اللہ ، میں تو عائشہ رضی اللہ عنہ کو اس طرح جانتی ہوں جس طرح سنار کھرے سونے کو جانتا ہے ۔ اس تہمت کی خبر جب ان صاحب کومعلوم ہوئی جن کے ساتھ تہمت لگائی گئی تھی تو انہوں نے کہا کہ سبحان اللہ ، اللہ کی قسم ! کہ میں نے آج تک کسی ( غیر ) عورت کا کپڑا نہیں کھولا ۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ پھر انہوں نے اللہ کے راستے میں شہادت پائی ۔ بیان کیا کہ صبح کے وقت میرے والدین میرے پاس آگئے اور میرے پاس ہی رہے ۔ آخر عصر کی نماز سے فارغ ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی تشریف لائے ۔ میرے والدین مجھے دائیں اور بائیں طرف سے پکڑ ے ہوئے تھے ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی حمد وثنا کی اور فرمایا امابعد ! اے عائشہ ! اگر تم نے واقعی کوئی برا کام کیا ہے اور اپنے اوپر ظلم کیا ہے تو پھر اللہ سے توبہ کرو ، کیونکہ اللہ اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے ۔ عائشہ نے بیان کیا کہ ایک انصاری خاتون بھی آگئی تھیں اور دروازے پر بیٹھی ہوئی تھیں ، میں نے عرض کی ، آپ ان خاتون کا لحاظ نہیں فرماتے کہیں یہ ( اپنی سمجھ کے مطابق کوئی الٹی سیدھی ) بات باہر کہہ دیں ۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نصیحت فرمائی ، اس کے بعد میں اپنے والد کی طرف متوجہ ہوئی اور ان سے عرض کیا کہ آپ ہی جواب دیجئے ، انہوں نے بھی یہی کہا کہ میں کیا کہوں جب کسی نے میری طرف سے کچھ نہیں کہا تو میں نے شہادت کے بعد اللہ کی شان کے مطابق اس کی حمد وثنا کی اور کہا امابعد ! اللہ کی قسم ، اگر میں آپ لوگوں سے یہ کہوں کہ میں نے اس طرح کی کوئی بات نہیں کی اور اللہ عزوجل گواہ ہے کہ میں اپنے اس دعوے میں سچی ہوں ، تو آپ لوگوں کے خیال کوبدلنے میں میری یہ بات مجھے کوئی نفع نہیں پہنچائے گی ، کیونکہ یہ بات آپ لوگوں کے دل میں رچ بس گئی ہے اور اگر میں یہ کہہ دوں کہ میں نے واقعتا یہ کام کیا ہے حالانکہ اللہ خوب جانتا ہے کہ میں نے ایسا نہیں کیا ہے ، تو آپ لوگ کہیں گے کہ اس نے تو جرم کا اقرار کر لیا ہے ۔ خدا کی قسم کہ میری اور آپ لوگوں کی مثال یوسف علیہ السلام کے والد کی سی ہے کہ انہوں نے فرمایا تھا ” پس صبر ہی اچھا ہے اور تم لوگ جو کچھ بیان کرتے ہو اس پر اللہ ہی مدد کرے “ ۔ میں نے ذہن پر بہت زور دیا کہ یعقوب علیہ السلام کا نام یاد آجائے لیکن نہیں یاد آیا ۔ اسی وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کا نزول شروع ہوگیا اور ہم سب خاموش ہو گئے ۔ پھر آپ سے یہ کیفیت ختم ہوئی تو میں نے دیکھا کہ خوشی آنحضرت کے چہرہ مبارک سے ظاہر ہو رہی تھی ۔ آنحضرت نے ( پسینہ سے ) اپنی پیشانی صاف کرتے ہوئے فرمایا ، عائشہ ! تمہیں بشارت ہو اللہ تعالیٰ نے تمہاری پاکی نازل کردی ہے ۔ بیان کیا کہ اس وقت مجھے بڑا غصہ آرہا تھا ۔ میرے والدین نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھڑی ہوجاؤ ، میں نے کہا کہ خدا کی قسم ! میں آنحضرت کے سامنے کھڑی نہیں ہوں گی نہ حضور کا شکریہ ادا کروں گی اور نہ آپ لوگوں کا شکریہ ادا کروں گی ، میں تو صرف اللہ کا شکر ادا کروں گی جس نے میری براءت نازل کی ہے ۔ آپ لوگوں نے تو یہ افواہ سنی اوراس کا انکار بھی نہ کر سکے ، اس کے ختم کرنے کی بھی کوشش نہیں کی ۔ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی تھیں کہ زینب بنت جحش کو اللہ تعالیٰ نے ان کی دینداری کی وجہ سے اس تہمت میں پڑنے سے بچا لیا ۔ میری بابت انہوں نے خیر کے سوا اور کوئی بات نہیں کہی ، البتہ ان کی بہن حمنہ ہلاک ہونے والوں کے ساتھ ہلاک ہوئیں ۔ اس طوفان کو پھیلانے میں مسطح اور حسان اور منافق عبد اللہ بن ابی نے حصہ لیا تھا ۔ عبد اللہ بن ابی منافق ہی تو کھود کھود کر اس کو پوچھتا اور اس پر حاشیہ چڑھاتا ، وہی اس طوفان کا بانی مبانی تھا ۔ والذی تولیٰ کبرہ سے وہ اور حمنہ مراد ہیں ۔ عائشہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر ابو بکر رضی اللہ عنہ نے قسم کھائی کہ مسطح کو کوئی فائدہ آئندہ کبھی وہ نہیں پہنچائیں گے ۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی ” اور جو لوگ تم میں بزرگی والے اور فراخ دست ہیں “ الخ ، اس سے مراد ابو بکر رضی اللہ عنہ ہیں ۔ وہ قرابت والوں اور مسکینوں کو “ اس سے مراد مسطح ہیں ۔ ( دینے سے قسم نہ کھا بیٹھیں ) اللہ تعالیٰ کے ارشاد ، ” کیا تم یہ نہیں چاہتے کہ اللہ تمہارے قصور معاف کرتا رہے ، بےشک اللہ بڑی مغفرت کرنے والا بڑا ہی مہر بان ہے تک ۔ چنانچہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہاں ، خدا کی قسم ، اے ہمارے رب ! ہم تو اسی کے خواہش مند ہیں کہ تو ہماری مغفرت فرما ۔ پھر وہ پہلے کی طرح مسطح کو جو دیا کرتے تھے وہ جاری کردیا ۔
تشریح : اس حدیث سے روز روشن کی طرح واضح ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم غیب داں نہیں تھے جو لوگ آپ کو غیب داں کہتے ہیں وہ آپ پر اتہام لگاتے ہیں ۔ اگر آپ غیب جانتے تو روز اول ہی اس جھوٹ کو واضح فرما کر دشمنوں کی زبان بند کر دیتے مگر اس سلسلہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کافی دنوں وحی الٰہی کا انتظار کرنا پڑا۔ آخر سورۃ نور نازل ہوئی اور اللہ نے عائشہ رضی اللہ عنہا کی پاکدامنی کو قیامت تک کے لئے قرآن مجید میں محفوظ کردیا۔ اس سے حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہ کی بہت بڑی فضیلت بھی ثابت ہوئی۔ رضی اللہ عنہا وارضاھا آمین اس حدیث سے روز روشن کی طرح واضح ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم غیب داں نہیں تھے جو لوگ آپ کو غیب داں کہتے ہیں وہ آپ پر اتہام لگاتے ہیں ۔ اگر آپ غیب جانتے تو روز اول ہی اس جھوٹ کو واضح فرما کر دشمنوں کی زبان بند کر دیتے مگر اس سلسلہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کافی دنوں وحی الٰہی کا انتظار کرنا پڑا۔ آخر سورۃ نور نازل ہوئی اور اللہ نے عائشہ رضی اللہ عنہا کی پاکدامنی کو قیامت تک کے لئے قرآن مجید میں محفوظ کردیا۔ اس سے حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہ کی بہت بڑی فضیلت بھی ثابت ہوئی۔ رضی اللہ عنہا وارضاھا آمین