كِتَابُ تَفْسِيرِ القُرْآنِ 24سُورَةُ النُّورِقَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ: {وَالَّذِينَ يَرْمُونَ صحيح حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ قَالَ حَدَّثَنِي الزُّهْرِيُّ عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ أَنَّ عُوَيْمِرًا أَتَى عَاصِمَ بْنَ عَدِيٍّ وَكَانَ سَيِّدَ بَنِي عَجْلَانَ فَقَالَ كَيْفَ تَقُولُونَ فِي رَجُلٍ وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلًا أَيَقْتُلُهُ فَتَقْتُلُونَهُ أَمْ كَيْفَ يَصْنَعُ سَلْ لِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ فَأَتَى عَاصِمٌ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَكَرِهَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَسَائِلَ فَسَأَلَهُ عُوَيْمِرٌ فَقَالَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَرِهَ الْمَسَائِلَ وَعَابَهَا قَالَ عُوَيْمِرٌ وَاللَّهِ لَا أَنْتَهِي حَتَّى أَسْأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ فَجَاءَ عُوَيْمِرٌ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ رَجُلٌ وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلًا أَيَقْتُلُهُ فَتَقْتُلُونَهُ أَمْ كَيْفَ يَصْنَعُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ الْقُرْآنَ فِيكَ وَفِي صَاحِبَتِكَ فَأَمَرَهُمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْمُلَاعَنَةِ بِمَا سَمَّى اللَّهُ فِي كِتَابِهِ فَلَاعَنَهَا ثُمَّ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنْ حَبَسْتُهَا فَقَدْ ظَلَمْتُهَا فَطَلَّقَهَا فَكَانَتْ سُنَّةً لِمَنْ كَانَ بَعْدَهُمَا فِي الْمُتَلَاعِنَيْنِ ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ انْظُرُوا فَإِنْ جَاءَتْ بِهِ أَسْحَمَ أَدْعَجَ الْعَيْنَيْنِ عَظِيمَ الْأَلْيَتَيْنِ خَدَلَّجَ السَّاقَيْنِ فَلَا أَحْسِبُ عُوَيْمِرًا إِلَّا قَدْ صَدَقَ عَلَيْهَا وَإِنْ جَاءَتْ بِهِ أُحَيْمِرَ كَأَنَّهُ وَحَرَةٌ فَلَا أَحْسِبُ عُوَيْمِرًا إِلَّا قَدْ كَذَبَ عَلَيْهَا فَجَاءَتْ بِهِ عَلَى النَّعْتِ الَّذِي نَعَتَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ تَصْدِيقِ عُوَيْمِرٍ فَكَانَ بَعْدُ يُنْسَبُ إِلَى أُمِّهِ
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
باب: 24سورۃ نور کی تفسیر آیت (( والذین یرمون )) الایۃکی تفسیر
ہم سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا ، کہا ہم سے محمد بن یوسف فریابی نے ، کہا ہم سے امام اوزاعی نے ، کہا کہ مجھ سے زہری نے بیان کیا ۔ ان سے سہل بن سعد نے بیان کیا کہ عویمر بن حارث بن زید بن جد بن عجلان عاصم بن عدی کے پاس آئے ۔ عاصم بنی عجلان کے سردار تھے ۔ انہوں نے آپ سے کہا کہ آپ لوگوں کا ایک ایسے شخص کے بارے میں کیا خیال ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ کسی غیر مرد کو پالیتا ہے کیا وہ اسے قتل کردے ؟ لیکن تم پھر اسے قصاص میں قتل کر دوگے ! آخر ایسی صورت میں انسان کیا طریقہ اختیار کرے ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق پوچھ کے مجھے بتایئے ۔ چنانچہ عاصم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ( صورت مذکورہ میں خاوند کیا کرے ) آنحضرت نے ان مسائل ( میں سوال وجواب ) کو ناپسند فرمایا ۔ جب عویمر نے ان سے پوچھا تو انہوں نے بتادیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان مسائل کو ناپسند فرمایا ہے ۔ عویمر نے ان سے کہا کہ واللہ میں خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اسے پوچھوں گا ۔ چنانچہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا ۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ایک شخص اپنی بیوی کے ساتھ ایک غیر مرد کو دیکھتا ہے کیا وہ اس کو قتل کردے ؟ لیکن پھر آپ قصاص میں اس کو قتل کریں گے ۔ ایسی صورت میں اس کو کیا کرنا چاہئے ؟ آنحضرت نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے اور تمہاری بیوی کے بارے میں قرآن کی آیت اتاری ہے ۔ پھر آپ نے انہیں قرآن کے بتائے ہوئے طریقہ کے مطابق لعان کا حکم دیا ۔ اور عویمر نے اپنی بیوی کے ساتھ لعان کیا ، پھر انہوں نے کہا یا رسول اللہ ! اگر میں اپنی بیوی کو روکے رکھوں تو میں ظالم ہوں گا ۔ اس لئے عویمر نے اسے طلاق دے دی ۔ اس کے لعان کے بعد میاں بیوی میں جدائی کا طریقہ جاری ہوگیا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا کہ دیکھتے رہو اگر اس عورت کے کالا ، بہت کالی پتلیوں والا ، بھاری سرین اور بھری ہوئی پنڈلیوں والا بچہ پیدا ہو تو میرا خیال ہے کہ عویمر نے الزام غلط نہیں لگایا ہے ۔ لیکن اگر سرخ سرخ گر گٹ جیسا پیدا ہو تو میرا خیال ہے کہ عویمر نے غلط الزام لگایا ہے ۔ اس کے بعد ان عورت کے جو بچہ پیدا ہوا وہ انہیں صفات کے مطابق تھا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کی تھیں اور جس سے عویمر کی تصدیق ہوتی تھی ۔ چنانچہ اس لڑکے کا نسب اس کی ماں کی طرف رکھا گیا ۔
تشریح :
اگر میاں بیوی کو کسی ساتھ زنا کی حالت میں دیکھ لے توممکن ہے کہ وہ دوسروں کو اسے دکھانا پسند کرے۔ ادھر شریعت میں زنا کے احکام جتنے سخت ہیں، اس کی سزا بھی اتنی ہی سخت ہے جتنا ثبوت پہنچانا سخت ہے۔ زنا کی شرعی سزا اس وقت دی سکتی ہے جب چار عادل گواہ عین حالت زنا میں مرد وعورت کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کی صاف لفظوں میں گواہی دیں۔ اگر کسی نے کسی پر زنا کا الزام لگایا اور اسلامی قانون کے مطابق وہ گواہی نہ دے سکا تو اس کی بھی سزا بہت سخت ہے۔ اب اگر ایک غیرت مند میاں بیوی کو اس بے حیائی میں گرفتار دیکھتا ہے تو اس کے لئے دہری مصیبت ہے۔ نہ اسے اتنی مہلت مل سکتی ہے کہ چار گواہوں کو لاکر دکھائے اور نہ وہ خود اسے گوارا ہی کر سکتا ہے۔ ایسی صورت میں اگر وہ اپنی بیوی پر زنا کا الزام لگاتا ہے تو الزام زنا کی حد کا وہ مستحق ٹھہر تا ہے اور اگر خاموش رہتا ہے تو یہ بھی اس کے لئے بے حیائی ہے اور اگر قانون اپنے ہاتھ میں لیتا ہے اور خود کوئی حرکت کر بیٹھتا ہے تو اسے پھر قانون شکنی کی سزا بھگتنی پڑتی ہے۔ ایسی ہی ایک صورت حال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں بھی پیش آگئی تھی۔ قرآن مجید نے اس کا حل یہ بتایا کہ میاں کو اسلامی عدالت میں اپنی بیوی کے سا تھ لعان کرنا چاہئے ۔ لعان یہ ہے کہ میاں عدالت میں کھڑا ہو کر یہ کہے کہ ” میں اللہ کی قسم کھاتا ہوں کہ میں نے اپنی بیوی پر جو زنا کا الزام لگایا ہے اس میں میں سچا ہوں۔ یہ الفاظ چار مرتبہ وہ کہے اور پانچویں مرتبہ کہے کہ ” مجھ پر اللہ کی لعنت ہو اگر میں اپنے اس الزام میں جھوٹا ہوں “ ۔ اب اگر عورت اپنے میاں کے اس الزام کا انکار کرتی ہے تو اس سے بھی کہا جائے گا کہ چار مرتبہ اللہ کی قسم کھاکر کہے کہ ” بلا شبہ اس کا شوہر زنا کی اس الزام دہی میں جھوٹا ہے “ اور پانچویں مرتبہ کہے کہ ” مجھ پر اللہ کا غضب ہو اگر مرد سچا ہے “ اگر اس نے میاں کے الزام کی اس طرح سے تردید کردی تو اس پر زنا کی حد نہیں لگائی جائے گی ۔ یہی وہ طریقہ ہے جو قرآن مجید نے بتایا ہے۔ لعان کے بعد میاں بیوی میں جدائی ہوجائے گی۔
اگر میاں بیوی کو کسی ساتھ زنا کی حالت میں دیکھ لے توممکن ہے کہ وہ دوسروں کو اسے دکھانا پسند کرے۔ ادھر شریعت میں زنا کے احکام جتنے سخت ہیں، اس کی سزا بھی اتنی ہی سخت ہے جتنا ثبوت پہنچانا سخت ہے۔ زنا کی شرعی سزا اس وقت دی سکتی ہے جب چار عادل گواہ عین حالت زنا میں مرد وعورت کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کی صاف لفظوں میں گواہی دیں۔ اگر کسی نے کسی پر زنا کا الزام لگایا اور اسلامی قانون کے مطابق وہ گواہی نہ دے سکا تو اس کی بھی سزا بہت سخت ہے۔ اب اگر ایک غیرت مند میاں بیوی کو اس بے حیائی میں گرفتار دیکھتا ہے تو اس کے لئے دہری مصیبت ہے۔ نہ اسے اتنی مہلت مل سکتی ہے کہ چار گواہوں کو لاکر دکھائے اور نہ وہ خود اسے گوارا ہی کر سکتا ہے۔ ایسی صورت میں اگر وہ اپنی بیوی پر زنا کا الزام لگاتا ہے تو الزام زنا کی حد کا وہ مستحق ٹھہر تا ہے اور اگر خاموش رہتا ہے تو یہ بھی اس کے لئے بے حیائی ہے اور اگر قانون اپنے ہاتھ میں لیتا ہے اور خود کوئی حرکت کر بیٹھتا ہے تو اسے پھر قانون شکنی کی سزا بھگتنی پڑتی ہے۔ ایسی ہی ایک صورت حال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں بھی پیش آگئی تھی۔ قرآن مجید نے اس کا حل یہ بتایا کہ میاں کو اسلامی عدالت میں اپنی بیوی کے سا تھ لعان کرنا چاہئے ۔ لعان یہ ہے کہ میاں عدالت میں کھڑا ہو کر یہ کہے کہ ” میں اللہ کی قسم کھاتا ہوں کہ میں نے اپنی بیوی پر جو زنا کا الزام لگایا ہے اس میں میں سچا ہوں۔ یہ الفاظ چار مرتبہ وہ کہے اور پانچویں مرتبہ کہے کہ ” مجھ پر اللہ کی لعنت ہو اگر میں اپنے اس الزام میں جھوٹا ہوں “ ۔ اب اگر عورت اپنے میاں کے اس الزام کا انکار کرتی ہے تو اس سے بھی کہا جائے گا کہ چار مرتبہ اللہ کی قسم کھاکر کہے کہ ” بلا شبہ اس کا شوہر زنا کی اس الزام دہی میں جھوٹا ہے “ اور پانچویں مرتبہ کہے کہ ” مجھ پر اللہ کا غضب ہو اگر مرد سچا ہے “ اگر اس نے میاں کے الزام کی اس طرح سے تردید کردی تو اس پر زنا کی حد نہیں لگائی جائے گی ۔ یہی وہ طریقہ ہے جو قرآن مجید نے بتایا ہے۔ لعان کے بعد میاں بیوی میں جدائی ہوجائے گی۔