‌صحيح البخاري - حدیث 4733

كِتَابُ تَفْسِيرِ القُرْآنِ بَابُ قَوْلِهِ: {أَطَّلَعَ الغَيْبَ أَمُ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمَنِ عَهْدًا} صحيح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي الضُّحَى عَنْ مَسْرُوقٍ عَنْ خَبَّابٍ قَالَ كُنْتُ قَيْنًا بِمَكَّةَ فَعَمِلْتُ لِلْعَاصِ بْنِ وَائِلٍ السَّهْمِيِّ سَيْفًا فَجِئْتُ أَتَقَاضَاهُ فَقَالَ لَا أُعْطِيكَ حَتَّى تَكْفُرَ بِمُحَمَّدٍ قُلْتُ لَا أَكْفُرُ بِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى يُمِيتَكَ اللَّهُ ثُمَّ يُحْيِيَكَ قَالَ إِذَا أَمَاتَنِي اللَّهُ ثُمَّ بَعَثَنِي وَلِي مَالٌ وَوَلَدٌ فَأَنْزَلَ اللَّهُ أَفَرَأَيْتَ الَّذِي كَفَرَ بِآيَاتِنَا وَقَالَ لَأُوتَيَنَّ مَالًا وَوَلَدًا أَطَّلَعَ الْغَيْبَ أَمْ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمَنِ عَهْدًا قَالَ مَوْثِقًا لَمْ يَقُلْ الْأَشْجَعِيُّ عَنْ سُفْيَانَ سَيْفًا وَلَا مَوْثِقًا

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 4733

کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں باب: آیت (( اطلع الغیب ام اتخذ عند الرحمن )) کی تفسیر سے محمدبن کثیر نے بیان کیا ، کہا ہم کوسفیان ثوری نے خبر دی ، انہیں اعمش نے ، انہیں ابو الضحیٰ نے ، انہیں مسروق نے اور ان سے خباب بن ارت نے بیان کیا کہ میں مکہ میں لوہار تھا اور عاص بن وائل سہمی کے لئے میں نے ایک تلوار بنائی تھی ۔ میری مزدوری باقی تھی اس لئے ایک دن میں اس کو مانگنے آیا تو کہنے لگا کہ اس وقت تک نہیں دوںگا جب تک تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے پھر نہیں جاؤ گے ۔ میں نے کہا کہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ہر گز نہیں پھروں گا یہاں تک کہ اللہ تجھے مار دے اور پھر زندہ کر دے اور وہ کہنے لگا کہ جب اللہ تعالیٰ مجھے مار کر دوبارہ زندہ کر دے گا تو میرے پاس اس وقت بھی مال و اولاد ہوگی ۔ اور اسی وقت تم اپنی مزدوری مجھ سے لے لینا ۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی ۔ ” افرایت الذی کفر بایٰتنا وقال لاوتین مالا وولدا اطلع الغیب ام اتخذ عند الرحمن عھدا ( بھلا تو نے اس شخص کو بھی دیکھا جو ہماری آیتوں کا انکار کرتا ہے اور کہتا ہے کہ مجھے تو مال واولاد مل کر ہی رہیں گے تو کیا یہ غیب پر مطلع ہوگیا ہے یا اس نے خدا ئے رحمن سے کوئی وعدہ لے لیا ہے ) عہد کا معنی مضبوط اقرار ۔ عبید اللہ اشجعی نے بھی اس حدیث کو سفیان ثوری سے روایت کیاہے لیکن اس میں تلوار بنا نے کاذکر نہیں ہے نہ عہد کی تفسیر مذکور ہے ۔