كِتَابُ تَفْسِيرِ القُرْآنِ بَابُ قَوْلِهِ {فَلَمَّا جَاوَزَا قَالَ لِفَتَاهُ: آتِنَا غَدَاءَنَا لَقَدْ لَقِينَا مِنْ سَفَرِنَا هَذَا نَصَبًا، قَالَ: أَرَأَيْتَ إِذْ أَوَيْنَا إِلَى الصَّخْرَةِ فَإِنِّي نَسِيتُ الحُوتَ} صحيح حَدَّثَنِي قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ قَالَ حَدَّثَنِي سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ قَالَ قُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ إِنَّ نَوْفًا الْبَكَالِيَّ يَزْعُمُ أَنَّ مُوسَى بَنِي إِسْرَائِيلَ لَيْسَ بِمُوسَى الْخَضِرِ فَقَالَ كَذَبَ عَدُوُّ اللَّهِ حَدَّثَنَا أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ قَامَ مُوسَى خَطِيبًا فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ فَقِيلَ لَهُ أَيُّ النَّاسِ أَعْلَمُ قَالَ أَنَا فَعَتَبَ اللَّهُ عَلَيْهِ إِذْ لَمْ يَرُدَّ الْعِلْمَ إِلَيْهِ وَأَوْحَى إِلَيْهِ بَلَى عَبْدٌ مِنْ عِبَادِي بِمَجْمَعِ الْبَحْرَيْنِ هُوَ أَعْلَمُ مِنْكَ قَالَ أَيْ رَبِّ كَيْفَ السَّبِيلُ إِلَيْهِ قَالَ تَأْخُذُ حُوتًا فِي مِكْتَلٍ فَحَيْثُمَا فَقَدْتَ الْحُوتَ فَاتَّبِعْهُ قَالَ فَخَرَجَ مُوسَى وَمَعَهُ فَتَاهُ يُوشَعُ بْنُ نُونٍ وَمَعَهُمَا الْحُوتُ حَتَّى انْتَهَيَا إِلَى الصَّخْرَةِ فَنَزَلَا عِنْدَهَا قَالَ فَوَضَعَ مُوسَى رَأْسَهُ فَنَامَ قَالَ سُفْيَانُ وَفِي حَدِيثِ غَيْرِ عَمْرٍو قَالَ وَفِي أَصْلِ الصَّخْرَةِ عَيْنٌ يُقَالُ لَهَا الْحَيَاةُ لَا يُصِيبُ مِنْ مَائِهَا شَيْءٌ إِلَّا حَيِيَ فَأَصَابَ الْحُوتَ مِنْ مَاءِ تِلْكَ الْعَيْنِ قَالَ فَتَحَرَّكَ وَانْسَلَّ مِنْ الْمِكْتَلِ فَدَخَلَ الْبَحْرَ فَلَمَّا اسْتَيْقَظَ مُوسَى قَالَ لِفَتَاهُ آتِنَا غَدَاءَنَا الْآيَةَ قَالَ وَلَمْ يَجِدْ النَّصَبَ حَتَّى جَاوَزَ مَا أُمِرَ بِهِ قَالَ لَهُ فَتَاهُ يُوشَعُ بْنُ نُونٍ أَرَأَيْتَ إِذْ أَوَيْنَا إِلَى الصَّخْرَةِ فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ الْآيَةَ قَالَ فَرَجَعَا يَقُصَّانِ فِي آثَارِهِمَا فَوَجَدَا فِي الْبَحْرِ كَالطَّاقِ مَمَرَّ الْحُوتِ فَكَانَ لِفَتَاهُ عَجَبًا وَلِلْحُوتِ سَرَبًا قَالَ فَلَمَّا انْتَهَيَا إِلَى الصَّخْرَةِ إِذْ هُمَا بِرَجُلٍ مُسَجًّى بِثَوْبٍ فَسَلَّمَ عَلَيْهِ مُوسَى قَالَ وَأَنَّى بِأَرْضِكَ السَّلَامُ فَقَالَ أَنَا مُوسَى قَالَ مُوسَى بَنِي إِسْرَائِيلَ قَالَ نَعَمْ قَالَ هَلْ أَتَّبِعُكَ عَلَى أَنْ تُعَلِّمَنِي مِمَّا عُلِّمْتَ رَشَدًا قَالَ لَهُ الْخَضِرُ يَا مُوسَى إِنَّكَ عَلَى عِلْمٍ مِنْ عِلْمِ اللَّهِ عَلَّمَكَهُ اللَّهُ لَا أَعْلَمُهُ وَأَنَا عَلَى عِلْمٍ مِنْ عِلْمِ اللَّهِ عَلَّمَنِيهِ اللَّهُ لَا تَعْلَمُهُ قَالَ بَلْ أَتَّبِعُكَ قَالَ فَإِنْ اتَّبَعْتَنِي فَلَا تَسْأَلْنِي عَنْ شَيْءٍ حَتَّى أُحْدِثَ لَكَ مِنْهُ ذِكْرًا فَانْطَلَقَا يَمْشِيَانِ عَلَى السَّاحِلِ فَمَرَّتْ بِهِمْ سَفِينَةٌ فَعُرِفَ الْخَضِرُ فَحَمَلُوهُمْ فِي سَفِينَتِهِمْ بِغَيْرِ نَوْلٍ يَقُولُ بِغَيْرِ أَجْرٍ فَرَكِبَا السَّفِينَةَ قَالَ وَوَقَعَ عُصْفُورٌ عَلَى حَرْفِ السَّفِينَةِ فَغَمَسَ مِنْقَارَهُ فِي الْبَحْرِ فَقَالَ الْخَضِرُ لِمُوسَى مَا عِلْمُكَ وَعِلْمِي وَعِلْمُ الْخَلَائِقِ فِي عِلْمِ اللَّهِ إِلَّا مِقْدَارُ مَا غَمَسَ هَذَا الْعُصْفُورُ مِنْقَارَهُ قَالَ فَلَمْ يَفْجَأْ مُوسَى إِذْ عَمَدَ الْخَضِرُ إِلَى قَدُومٍ فَخَرَقَ السَّفِينَةَ فَقَالَ لَهُ مُوسَى قَوْمٌ حَمَلُونَا بِغَيْرِ نَوْلٍ عَمَدْتَ إِلَى سَفِينَتِهِمْ فَخَرَقْتَهَا لِتُغْرِقَ أَهْلَهَا لَقَدْ جِئْتَ الْآيَةَ فَانْطَلَقَا إِذَا هُمَا بِغُلَامٍ يَلْعَبُ مَعَ الْغِلْمَانِ فَأَخَذَ الْخَضِرُ بِرَأْسِهِ فَقَطَعَهُ قَالَ لَهُ مُوسَى أَقَتَلْتَ نَفْسًا زَكِيَّةً بِغَيْرِ نَفْسٍ لَقَدْ جِئْتَ شَيْئًا نُكْرًا قَالَ أَلَمْ أَقُلْ لَكَ إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِي صَبْرًا إِلَى قَوْلِهِ فَأَبَوْا أَنْ يُضَيِّفُوهُمَا فَوَجَدَا فِيهَا جِدَارًا يُرِيدُ أَنْ يَنْقَضَّ فَقَالَ بِيَدِهِ هَكَذَا فَأَقَامَهُ فَقَالَ لَهُ مُوسَى إِنَّا دَخَلْنَا هَذِهِ الْقَرْيَةَ فَلَمْ يُضَيِّفُونَا وَلَمْ يُطْعِمُونَا لَوْ شِئْتَ لَاتَّخَذْتَ عَلَيْهِ أَجْرًا قَالَ هَذَا فِرَاقُ بَيْنِي وَبَيْنِكَ سَأُنَبِّئُكَ بِتَأْوِيلِ مَا لَمْ تَسْتَطِعْ عَلَيْهِ صَبْرًا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَدِدْنَا أَنَّ مُوسَى صَبَرَ حَتَّى يُقَصَّ عَلَيْنَا مِنْ أَمْرِهِمَا قَالَ وَكَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ يَقْرَأُ وَكَانَ أَمَامَهُمْ مَلِكٌ يَأْخُذُ كُلَّ سَفِينَةٍ صَالِحَةٍ غَصْبًا وَأَمَّا الْغُلَامُ فَكَانَ كَافِرًا
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں باب: آیت (( فلما جاوزا قال لفتاہ اٰتنا غدائنا )) کی تفسیر مجھ سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا ، کہا کہ مجھ سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا ، کہا ان سے عمرو بن دینار نے اور ان سے سعید بن جبیر نے بیان کیا کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے عرض کیا ۔ نوف بکالی کہتے ہیں کہ موسیٰ علیہ السلام جو اللہ کے نبی تھے وہ نہیں ہیں جنہوں نے خضر سے ملاقات کی تھی ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا ، دشمن خدا نے غلط بات کہی ہے ۔ ہم سے حضرت ابی بن کعب نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا موسیٰ بنی اسرائیل کو وعظ کرنے کے لئے کھڑے ہوئے تو ان سے پوچھا گیا کہ سب سے بڑا عالم کون شخص ہے ۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ میں ہوں ۔ اللہ تعالیٰ نے اس پر غصہ کیا ، کیونکہ انہوں نے علم کی نسبت اللہ کی طرف نہیں کی تھی اور ان کے پاس وحی بھیجی کہ ہاں ، میرے بندوں میں سے ایک بندہ دو دریاؤں کے ملنے کی جگہ پر ہے اور وہ تم سے بڑا عالم ہے ۔ موسیٰ نے عرض کیا اے پروردگار ! ان تک پہنچنے کا طریقہ کیا ہوگا ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ایک مچھلی زنبیل میں ساتھ لے لو ۔ پھر جہاں وہ مچھلی گم ہوجائے وہیں انہیں تلاش کرو ۔ بیان کیا کہ موسیٰ علیہ السلام نکل پڑے اور آپ کے ساتھ آپ کے رفیق سفر یوشع بن نون بھی تھے ۔ مچھلی ساتھ تھی ۔ جب چٹان تک پہنچے تو وہاں ٹھہر گئے ۔ موسیٰ علیہ السلام اپنا سر رکھ کر وہیں سو گئے ، عمرو کی روایت کے سوا دوسری روایت کے حوالہ سے سفیان نے بیان کیا کہ اس چٹان کی جڑ میں ایک چشمہ تھا ، جسے ” حیات “ کہا جاتا تھا ۔ جس چیز پر بھی اس کا پانی پڑجاتا وہ زندہ ہو جاتی تھی ۔ اس مچھلی پر بھی اس کا پانی پڑا تو اس کے اندر حرکت پیدا ہوگئی اور وہ اپنی زنبیل سے نکل کر دریا میں چلی گئی ۔ موسیٰ علیہ السلام جب بیدار ہوئے تو انہوں نے اپنے ساتھی سے فرمایا کہ ہمارا ناشتہ لاؤ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ الآیۃ ۔ بیان کیا کہ سفر میں موسیٰ کو اس وقت تک کوئی تھکن نہیں ہوئی جب تک وہ مقررہ جگہ سے آگے نہیں بڑھ گئے ۔ رفیق سفر یوشع بن نون نے اس پر کہا ، آپ نے دیکھا جب ہم چٹان کے نیچے بیٹھے ہوئے تھے تو میں مچھلی کے متعلق کہنا بھول گیا ، الآیۃ ۔ بیان کیا کہ پھر وہ دونوں الٹے پاؤں واپس لوٹے ۔ دیکھا کہ جہاں مچھلی پانی میں گری تھی وہاں اس کے گزرنے کی جگہ طاق کی سی صورت بنی ہوئی ہے ۔ مچھلی تو پانی مےں چلی گئی تھی لیکن یوشع بن نون کو اس طرح پانی کے رک جانے پر تعجب تھا ۔ جب چٹان پر پہنچے تو دیکھا کہ ایک بزرگ کپڑے میں لپٹے ہوئے وہاں موجود ہیں ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے انہیں سلام کیا تو انہوں نے فرمایا کہ تمہاری زمین میں سلام کہاں سے آ گیا ؟ آپ نے فرمایا کہ میں موسیٰ ہوں ۔ پوچھا بنی اسرائیل کے موسیٰ ؟ فرمایا کہ جی ہاں ! حضرت موسیٰ نے ان سے کہا کیا آپ کے ساتھ رہ سکتا ہوں تاکہ جو ہدایت کا علم اللہ تعالیٰ نے آپ کو دیا ہے وہ آپ مجھے بھی سکھا دیں ۔ حضرت خضر نے جواب دیا کہ آپ کو اللہ کی طرف سے ایسا علم حاصل ہے جو میں نہیں جانتا اور اسی طرح مجھے اللہ کی طرف سے ایسا علم حاصل ہے جو آپ نہیں جانتے ۔ موسیٰ نے فرمایا ، لیکن میں آپ کے ساتھ رہوں گا ۔ خضر نے اس پر کہا کہ اگر آپ کو میرے ساتھ رہنا ہی ہے تو پھر مجھ سے کسی چیز کے متعلق نہ پوچھئے گا ، میں خود آپ کو بتاؤں گا ۔ چنانچہ دونوں حضرات دریا کے کنارے روانہ ہوئے ، ان کے قریب سے ایک کشتی گزری تو حضرت خضر کو کشتی والوں نے پہچان لیا اور اپنی کشتی میں ان کو بغیر کرایہ کے چڑھالیا دونوں کشتی میں سوار ہو گئے ۔ بیان کیا کہ اسی عرصہ میں ایک چڑیا کشتی کے کنارے آ کے بیٹھی اور اس نے اپنی چونچ کو دریا میں ڈالاتو خضر نے موسیٰ سے فرمایا کہ میرا ، آپ کا اور تمام مخلوقات کا علم اللہ کے علم کے مقابلہ میں اس سے زیادہ نہیں ہے جتنا اس چڑیا نے اپنی چونچ میں دریا کا پانی لیا ہے ۔ بیان کیاکہ پھر یکدم جب حضرت خضر نے بسولا اٹھایا اور کشتی کو پھاڑ ڈالا تو حضرت موسیٰ اس طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا ان لوگوں نے ہمیں بغیر کسی کرایہ کے اپنی کشتی میں سوار کر لیا تھا اور آپ نے اس کا بدلہ یہ دیا ہے کہ ان کی کشتی ہی چیر ڈالی تاکہ اس کے مسافر ڈوب مریں ۔ بلا شبہ آپ نے بڑا نا مناسب کام کیا ہے ۔ پھر وہ دونوں آگے بڑھے تو دیکھا کہ ایک بچہ جو بہت سے دوسرے بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا ، حضرت خضر نے اس کا سر پکڑا اور کاٹ ڈالا ۔ اس پر حضرت موسیٰ علیہ السلام بول پڑے کہ آپ نے بلا کسی خون وبدلہ کے ایک معصوم بچے کی جان لے لی ، یہ تو بڑی بری بات ہے ۔ خضر نے فرمایا ، میں نے آپ سے پہلے ہی نہیں کہہ دیا تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کر سکتے ، اللہ تعالیٰ کے ارشاد ” پس اس بستی والوں نے ان کی میزبانی سے انکار کیا ، پھر اس بستی میں انہیں ایک دیوار دکھائی دی جو بس گرنے ہی والی تھی ۔ خضر نے اپنا ہاتھ یوں اس پر پھیرا اور اسے سیدھا کر دیا ۔ موسیٰ نے فرمایا ہم اس بستی میں آئے تو انہوں نے ہماری میزبانی سے انکار کیا اور ہمیں کھانا بھی نہیں دیا اگر آپ چاہتے تو اس پر اجرت لے سکتے تھے ۔ خضر نے فرمایا بس یہاں سے اب میرے اور آپ کے درمیان جدائی ہے اور میں آپ کو ان کاموں کی وجہ بتاؤں گا جن پر آپ صبر نہیں کر سکے تھے ۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ کاش موسیٰ علیہ السلام نے صبر کیا ہوتا اور اللہ تعالیٰ ان کے سلسلے میں اور واقعات ہم سے بیان کرتا ۔ بیان کیا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما ( وکان ورآءھم ملک کی بجائے ) ” وکان امامھم ملک یاخذ کل سفینۃ صالحۃ غصبا “ قرات کرتے تھے اور بچہ ( جسے قتل کیا تھا ) اس کے والدین مومن تھے ۔ اور یہ بچہ ( مشیت الٰہی میں ) کافر تھا ۔