‌صحيح البخاري - حدیث 4726

كِتَابُ تَفْسِيرِ القُرْآنِ بَابُ قَوْلِهِ: {فَلَمَّا بَلَغَا مَجْمَعَ بَيْنِهِمَا نَسِيَا حُوتَهُمَا فَاتَّخَذَ سَبِيلَهُ فِي البَحْرِ سَرَبًا} صحيح حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ يُوسُفَ أَنَّ ابْنَ جُرَيْجٍ أَخْبَرَهُمْ قَالَ أَخْبَرَنِي يَعْلَى بْنُ مُسْلِمٍ وَعَمْرُو بْنُ دِينَارٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ يَزِيدُ أَحَدُهُمَا عَلَى صَاحِبِهِ وَغَيْرُهُمَا قَدْ سَمِعْتُهُ يُحَدِّثُهُ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ قَالَ إِنَّا لَعِنْدَ ابْنِ عَبَّاسٍ فِي بَيْتِهِ إِذْ قَالَ سَلُونِي قُلْتُ أَيْ أَبَا عَبَّاسٍ جَعَلَنِي اللَّهُ فِدَاءَكَ بِالْكُوفَةِ رَجُلٌ قَاصٌّ يُقَالُ لَهُ نَوْفٌ يَزْعُمُ أَنَّهُ لَيْسَ بِمُوسَى بَنِي إِسْرَائِيلَ أَمَّا عَمْرٌو فَقَالَ لِي قَالَ قَدْ كَذَبَ عَدُوُّ اللَّهِ وَأَمَّا يَعْلَى فَقَالَ لِي قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ حَدَّثَنِي أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُوسَى رَسُولُ اللَّهِ عَلَيْهِ السَّلَام قَالَ ذَكَّرَ النَّاسَ يَوْمًا حَتَّى إِذَا فَاضَتْ الْعُيُونُ وَرَقَّتْ الْقُلُوبُ وَلَّى فَأَدْرَكَهُ رَجُلٌ فَقَالَ أَيْ رَسُولَ اللَّهِ هَلْ فِي الْأَرْضِ أَحَدٌ أَعْلَمُ مِنْكَ قَالَ لَا فَعَتَبَ عَلَيْهِ إِذْ لَمْ يَرُدَّ الْعِلْمَ إِلَى اللَّهِ قِيلَ بَلَى قَالَ أَيْ رَبِّ فَأَيْنَ قَالَ بِمَجْمَعِ الْبَحْرَيْنِ قَالَ أَيْ رَبِّ اجْعَلْ لِي عَلَمًا أَعْلَمُ ذَلِكَ بِهِ فَقَالَ لِي عَمْرٌو قَالَ حَيْثُ يُفَارِقُكَ الْحُوتُ وَقَالَ لِي يَعْلَى قَالَ خُذْ نُونًا مَيِّتًا حَيْثُ يُنْفَخُ فِيهِ الرُّوحُ فَأَخَذَ حُوتًا فَجَعَلَهُ فِي مِكْتَلٍ فَقَالَ لِفَتَاهُ لَا أُكَلِّفُكَ إِلَّا أَنْ تُخْبِرَنِي بِحَيْثُ يُفَارِقُكَ الْحُوتُ قَالَ مَا كَلَّفْتَ كَثِيرًا فَذَلِكَ قَوْلُهُ جَلَّ ذِكْرُهُ وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِفَتَاهُ يُوشَعَ بْنِ نُونٍ لَيْسَتْ عَنْ سَعِيدٍ قَالَ فَبَيْنَمَا هُوَ فِي ظِلِّ صَخْرَةٍ فِي مَكَانٍ ثَرْيَانَ إِذْ تَضَرَّبَ الْحُوتُ وَمُوسَى نَائِمٌ فَقَالَ فَتَاهُ لَا أُوقِظُهُ حَتَّى إِذَا اسْتَيْقَظَ نَسِيَ أَنْ يُخْبِرَهُ وَتَضَرَّبَ الْحُوتُ حَتَّى دَخَلَ الْبَحْرَ فَأَمْسَكَ اللَّهُ عَنْهُ جِرْيَةَ الْبَحْرِ حَتَّى كَأَنَّ أَثَرَهُ فِي حَجَرٍ قَالَ لِي عَمْرٌو هَكَذَا كَأَنَّ أَثَرَهُ فِي حَجَرٍ وَحَلَّقَ بَيْنَ إِبْهَامَيْهِ وَاللَّتَيْنِ تَلِيَانِهِمَا لَقَدْ لَقِينَا مِنْ سَفَرِنَا هَذَا نَصَبًا قَالَ قَدْ قَطَعَ اللَّهُ عَنْكَ النَّصَبَ لَيْسَتْ هَذِهِ عَنْ سَعِيدٍ أَخْبَرَهُ فَرَجَعَا فَوَجَدَا خَضِرًا قَالَ لِي عُثْمَانُ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ عَلَى طِنْفِسَةٍ خَضْرَاءَ عَلَى كَبِدِ الْبَحْرِ قَالَ سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ مُسَجًّى بِثَوْبِهِ قَدْ جَعَلَ طَرَفَهُ تَحْتَ رِجْلَيْهِ وَطَرَفَهُ تَحْتَ رَأْسِهِ فَسَلَّمَ عَلَيْهِ مُوسَى فَكَشَفَ عَنْ وَجْهِهِ وَقَالَ هَلْ بِأَرْضِي مِنْ سَلَامٍ مَنْ أَنْتَ قَالَ أَنَا مُوسَى قَالَ مُوسَى بَنِي إِسْرَائِيلَ قَالَ نَعَمْ قَالَ فَمَا شَأْنُكَ قَالَ جِئْتُ لِتُعَلِّمَنِي مِمَّا عُلِّمْتَ رَشَدًا قَالَ أَمَا يَكْفِيكَ أَنَّ التَّوْرَاةَ بِيَدَيْكَ وَأَنَّ الْوَحْيَ يَأْتِيكَ يَا مُوسَى إِنَّ لِي عِلْمًا لَا يَنْبَغِي لَكَ أَنْ تَعْلَمَهُ وَإِنَّ لَكَ عِلْمًا لَا يَنْبَغِي لِي أَنْ أَعْلَمَهُ فَأَخَذَ طَائِرٌ بِمِنْقَارِهِ مِنْ الْبَحْرِ وَقَالَ وَاللَّهِ مَا عِلْمِي وَمَا عِلْمُكَ فِي جَنْبِ عِلْمِ اللَّهِ إِلَّا كَمَا أَخَذَ هَذَا الطَّائِرُ بِمِنْقَارِهِ مِنْ الْبَحْرِ حَتَّى إِذَا رَكِبَا فِي السَّفِينَةِ وَجَدَا مَعَابِرَ صِغَارًا تَحْمِلُ أَهْلَ هَذَا السَّاحِلِ إِلَى أَهْلِ هَذَا السَّاحِلِ الْآخَرِ عَرَفُوهُ فَقَالُوا عَبْدُ اللَّهِ الصَّالِحُ قَالَ قُلْنَا لِسَعِيدٍ خَضِرٌ قَالَ نَعَمْ لَا نَحْمِلُهُ بِأَجْرٍ فَخَرَقَهَا وَوَتَدَ فِيهَا وَتِدًا قَالَ مُوسَى أَخَرَقْتَهَا لِتُغْرِقَ أَهْلَهَا لَقَدْ جِئْتَ شَيْئًا إِمْرًا قَالَ مُجَاهِدٌ مُنْكَرًا قَالَ أَلَمْ أَقُلْ إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِي صَبْرًا كَانَتْ الْأُولَى نِسْيَانًا وَالْوُسْطَى شَرْطًا وَالثَّالِثَةُ عَمْدًا قَالَ لَا تُؤَاخِذْنِي بِمَا نَسِيتُ وَلَا تُرْهِقْنِي مِنْ أَمْرِي عُسْرًا لَقِيَا غُلَامًا فَقَتَلَهُ قَالَ يَعْلَى قَالَ سَعِيدٌ وَجَدَ غِلْمَانًا يَلْعَبُونَ فَأَخَذَ غُلَامًا كَافِرًا ظَرِيفًا فَأَضْجَعَهُ ثُمَّ ذَبَحَهُ بِالسِّكِّينِ قَالَ أَقَتَلْتَ نَفْسًا زَكِيَّةً بِغَيْرِ نَفْسٍ لَمْ تَعْمَلْ بِالْحِنْثِ وَكَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ قَرَأَهَا زَكِيَّةً زَاكِيَةً مُسْلِمَةً كَقَوْلِكَ غُلَامًا زَكِيًّا فَانْطَلَقَا فَوَجَدَا جِدَارًا يُرِيدُ أَنْ يَنْقَضَّ فَأَقَامَهُ قَالَ سَعِيدٌ بِيَدِهِ هَكَذَا وَرَفَعَ يَدَهُ فَاسْتَقَامَ قَالَ يَعْلَى حَسِبْتُ أَنَّ سَعِيدًا قَالَ فَمَسَحَهُ بِيَدِهِ فَاسْتَقَامَ لَوْ شِئْتَ لَاتَّخَذْتَ عَلَيْهِ أَجْرًا قَالَ سَعِيدٌ أَجْرًا نَأْكُلُهُ وَكَانَ وَرَاءَهُمْ وَكَانَ أَمَامَهُمْ قَرَأَهَا ابْنُ عَبَّاسٍ أَمَامَهُمْ مَلِكٌ يَزْعُمُونَ عَنْ غَيْرِ سَعِيدٍ أَنَّهُ هُدَدُ بْنُ بُدَدَ وَالْغُلَامُ الْمَقْتُولُ اسْمُهُ يَزْعُمُونَ جَيْسُورٌ مَلِكٌ يَأْخُذُ كُلَّ سَفِينَةٍ غَصْبًا فَأَرَدْتُ إِذَا هِيَ مَرَّتْ بِهِ أَنْ يَدَعَهَا لِعَيْبِهَا فَإِذَا جَاوَزُوا أَصْلَحُوهَا فَانْتَفَعُوا بِهَا وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ سَدُّوهَا بِقَارُورَةٍ وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ بِالْقَارِ كَانَ أَبَوَاهُ مُؤْمِنَيْنِ وَكَانَ كَافِرًا فَخَشِينَا أَنْ يُرْهِقَهُمَا طُغْيَانًا وَكُفْرًا أَنْ يَحْمِلَهُمَا حُبُّهُ عَلَى أَنْ يُتَابِعَاهُ عَلَى دِينِهِ فَأَرَدْنَا أَنْ يُبَدِّلَهُمَا رَبُّهُمَا خَيْرًا مِنْهُ زَكَاةً لِقَوْلِهِ أَقَتَلْتَ نَفْسًا زَكِيَّةً وَأَقْرَبَ رُحْمًا هُمَا بِهِ أَرْحَمُ مِنْهُمَا بِالْأَوَّلِ الَّذِي قَتَلَ خَضِرٌ وَزَعَمَ غَيْرُ سَعِيدٍ أَنَّهُمَا أُبْدِلَا جَارِيَةً وَأَمَّا دَاوُدُ بْنُ أَبِي عَاصِمٍ فَقَالَ عَنْ غَيْرِ وَاحِدٍ إِنَّهَا جَارِيَةٌ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 4726

کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں باب: آیت (( فلما بلغا مجمع بینھا نسیا حوتھما )) کی تفسیر ہم سے ابرا ہیم بن مو سی نے بیان کیا ، کہا ہم کو ہشام بن یوسف نے خبر دی ، انہیں ابن جریر نے خبر دی ، کہا کہ مجھے یعلی بن مسلم اور عمر وبن دینار نے خبر دی سعید بن جبیر سے ، دونوں میں سے ایک اپنے سا تھی اور دیگر راوی کے مقابلہ میں بعض الفاظ زیا دہ کہتا ہے اور ان کے علا وہ ایک اور صا حب نے بھی سعید بن جبیر سے سن کربیان کیا کہ انہوں نے کہا ہم ابن عباس رضی اللہ عنہما کی خدمت میںان کے گھر حاضر تھے ۔ انہوں نے فرمایا کہ دین کی با تیں مجھ سے کچھ پو چھو ۔ میں نے عرض کیا اے ابو عباس ! اللہ آپ پر مجھے قر با ن کر ے کو فہ میںایک واعظ شخص نوف نا می ہے اور وہ کہتا ہے کہ موسی خضر سے ملنے والے وہ نہیں تھے جو بنی اسرائیل کے پیغمبرمو سیٰ علیہ السلام ہو ئے ہیں ( ابن جریج نے بیان کیا کہ ) عمر و بن دینا رنے تو روایت اس طرح بیا ن کی کہ ابن عباس نے کہا دشمن خدا جھو ٹی بات کہتا ہے اوریعلیٰ بن مسلم نے اپنی روایت میںاس طرح مجھ سے بیان کیا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ مجھ سے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ، کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا ، مو سی اللہ کے رسول تھے ایک دن آپ نے لو گو ں ( بنی اسرائیل ) کو ایساوعظ فر ما یا کہ لو گو ںکی آنکھو ںسے آنسو نکل پڑے اور دل پسیج گئے تو آپ وا پس جا نے کے لئے مڑے ۔ اس وقت ایک شخص نے ان سے پو چھا اے اللہ کے رسو ل ! کیا دنیا میں آپ سے بڑا کوئی عالم ہے ؟ انھوں نے کہا کہ نہیں ، اس پر اللہ نے مو سیٰ پر عتا ب نازل کیا ، کیونکہ انہو ں نےعلم کی نسبت اللہ تعا لی کی طرف نہیںکی تھی ۔ ( ان کو یوںکہنا چا ہئے تھا کہ اللہ ہی جا نتا ہے ) ان سے کہا گیا کہ ہاںتم سے بھی بڑا عا لم ہے ۔ مو سی علےہ السلام نے عرض کیا ، اے پر ور دگار ! وہ کہا ں ہے ۔ اللہ نے فرما یا جہاں ( فا رس اور روم کے ) دودر یاملے ہیں ۔ مو سیعلےہ السلام نے عرض کیا اے پر ور دگار ! میرے لئے ان کی کو ئی نشا نی ایسی بتلا دے کہ میں ان تک پہنچ جا ؤ ں ۔ اب عمر و بن دینار نے مجھ سے اپنی روایت اس طرح بیان کی ہے کہ اللہ تعا لی نے فرما یا ، جہاںتم سے مچھلی تمہاری زنبیل سے چل دے ( وہیںوہ ملیں گے ) اور یعلی نے حدیث اس طرح بیا ن کی کہ ایک مردہ مچھلی ساتھ لے لو ، جہاں اس مچھلی میں جان پڑجائے ( وہیں وہ ملیں گے ) مو سیٰ علیہ السلام نے مچھلی سا تھ لے لی اوراسے ایک زنبیل میں رکھ لیا ۔ آپ نے اپنے سا تھی یو شع سے فر ما یا کہ میں بس تمہیں اتنی تکلیف دیتا ہو ںکہ جب یہ مچھلی زنبیل سے نکل کر چل دے تو مجھے بتانا ۔ انہو ں نے عرض کیا کہ یہ کون سی بڑی تکلیف ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ ہے اللہ تعا لی کے ارشادواذقال موسی لفتاہ میں وہ فتی ( رفیق سفر ) یو شع ابن نون تھے ۔ سعید بن جبیر ( راوی حدیث ) نے ا پنی روایت میں یوشع بن نون کا نام نہیں لیا ۔ بیا ن کیا کہ پھر موسیٰ علیہ السلام ایک چٹان کے سایہ میں ٹھہر گئے جہاں نمی اور ٹھنڈ تھی ۔ اس وقت مچھلی تڑپی اور دریا میں کود گئی ۔ موسیٰ علیہ السلام سورہے تھے اس لئے یوشع نے سوچا کہ آپ کو جگانا نہ چاہئے ۔ لیکن جب موسیٰ علےہ السلام بیدار ہوئے تو مچھلی کا حال کہنا بھول گئے ۔ اسی عرصہ میں مچھلی تڑپ کر پانی میں چلی گئی ۔ اللہ تعالیٰ نے مچھلی کی جگہ پانی کے بہاؤ کو روک دیا اور مچھلی کا نشان پتھر پر جس پر سے گئی تھی بن گیا ۔ عمرو بن دینار نے مجھ ( ابن جریج ) سے بیان کیا کہ اس کا نشان پتھر پہ بن گیا اور دونوں انگوٹھوں اور کلمہ کی انگلیوں کو ملا کر ایک حلقہ کی طرح اس کو بتایا ۔ بیدار ہونے کے بعد حضرت موسیٰ ؑ باقی دن اور باقی رات چلتے رہے ۔ آخر کہنے لگے ۔ ہمیں اب اس سفر میں تھکن ہو رہی ہے ۔ ان کے خادم نے عرض کیا ۔ اللہ نے آپ کی تھکن کو دور کردیا ہے ( اور مچھلی زندہ ہو گئی ہے ) ابن جریج نے بیان کیا کہ یہ ٹکڑا سعید بن جبیر کی روایت میں نہیں ہے ۔ پھر موسیٰ علےہ السلام اور یوشع دونوں واپس لوٹے اور خضر علیہ السلام سے ملاقات ہوئی ( ابن جریج نے کہا ) مجھ سے عثمان بن ابی سلیمان نے بیان کیا کہ خضر دریا کے بیچ میں ایک چھوٹے سے سبز زین پوش پر تشریف رکھتے تھے ۔ اور سعید بن جبیر نے یوں بیان کیا کہ وہ اپنے کپڑے سے تمام جسم لپیٹے ہوئے تھے ۔ کپڑے کا ایک کنارہ ان کے پاؤں کے نیچے تھا اور دوسرا سرکے تلے تھا ۔ موسیٰ علےہ السلام نے پہنچ کو سلام کیا تو خضر نے اپنا چہرہ کھولا اور کہا ، میری اس زمین میں سلام کا رواج کہاں سے آگیا ۔ آپ کون ہیں ؟ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ میں موسیٰ ہوں ۔ پوچھا ، موسیٰ بنی اسرائیل ؟ فرمایا کہ ہاں ! پوچھا ، آپ کیوں آئے ہیں ؟ فرمایا کہ میرے آنے کا مقصد یہ ہے کہ جو ہدایت کا علم آپ کو اللہ نے دیا ہے وہ مجھے بھی سکھا دیں ۔ اس پرخضر نے فرمایا موسیٰ ؑ کیا آپ کے لئے یہ کافی نہیں ہے اس کا پورا سیکھنا آپ کے لئے مناسب نہیں ہے ۔ اسی طرح آپ کو جو علم حاصل ہے اس کا پورا سیکھنا میرے لئے مناسب نہیں ۔ اس عرصہ میں ایک چڑیا نے اپنی چونچ سے دریا کا پانی لیا تو خضر نے فرمایا خدا کی قسم ! میرا اور آپ کا علم اللہ کے علم کے مقابلے میں اس سے زیادہ نہیں ہے ۔ جتنا اس چڑیا نے دریا کا پانی اپنی چونچ میں لیا ہے ۔ کشتی پر چڑھنے کے وقت انہوں نے چھوٹی چھوٹی کشتیاں دیکھیں جو ایک کنارے والوں کودوسرے کنارے پر لے جاکر چھوڑ آتی تھیں ۔ کشتی والوں نے خضر علیہ السلام کو پہچان لیا اور کہا کہ یہ اللہ کے صالح بندے ہیں ہم ان سے کرایہ نہیں لیں گے ۔ لیکن خضر علیہ السلام نے کشتی میں شگاف کر دیئے اور اس میں ( تختوں کی جگہ ) کیلیں گاڑ دیں ۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا آپ نے اس لئے اسے پھاڑ ڈالا کہ اس کے مسافروں کو ڈبو دیں ۔ بلا شبہ آپ نے ایک بڑا نا گوار کام کیا ہے ۔ مجاہد نے آیت میں ” امر “ کا ترجمہ ” منکر “ کیا ہے ۔ خضر ؑ نے فرمایا میں نے پہلے ہی نہ کہا تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کر سکتے ۔ موسیٰ علےہ السلام کا پہلا سوال تو بھولنے کی وجہ سے تھا لیکن دوسرا بطور شرط تھا اور تیسرا قصداً انہوں نے کیا تھا ۔ موسیٰ علےہ السلام نے اس پہلے سوال پر کہا کہ جو میں بھول گیا اس پر مجھ سے مؤاخذہ نہ کیجئے اور میرے معاملہ میں تنگی نہ کیجئے ۔ پھر انہیں ایک بچہ ملا تو خضر نے اسے قتل کردیا ۔ یعلیٰ نے بیان کیا کہ سعید بن جبیر نے کہا کہ خضر کو چند بچے ملے جو کھیل رہے تھے آپ نے ان میں سے ایک بچہ کو پکڑا جو کافر اور چالاک تھا اور اسے لٹا کر چھری سے ذبح کردیا ۔ حضرت موسیٰ علےہ السلام نے فرمایا ، آپ نے بلا کسی خون کے ایک بے گناہ جان کو جس نے کہ برا کام نہیں کیا تھا ، قتل کر ڈالا ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ آیت میں ” زکیۃ “ کی جگہ ” زاکیۃ “ پڑھا کر تے تھے ۔ بمعنی مسلمۃ ، جیسے ” غلاما زکیا “ میں ہے ۔ پھر وہ دونوں بزرگ آگے بڑھے تو ایک دیوار پر نظر پڑی جو بس گرنے ہی والی تھی ۔ خضر نے اسے ٹھیک کر دیا ۔ سعید بن جبیر نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کر کے بتایا کہ اس طرح ۔ یعلیٰ بن مسلم نے بیان کیا میرا خیال ہے کہ سعید بن جبیر نے بیان کیا کہ خضر نے دیوار پر ہاتھ پھیرکر اسے ٹھیک کر دیا ۔ حضرت موسیٰ علےہ السلام نے فرمایا کہ اگر آپ چاہتے تو اس پر اجرت لے سکتے تھے ۔ سعید بن جبیر نے اس کی تشریح کی کہ اجرت جسے ہم کھا سکتے ۔ آیت ” وکان وراءھم “ کی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے قرات ” وکان امامھم “ کی یعنی کشتی جہاں جارہی تھی اس ملک میں ایک بادشاہ تھا ۔ سعید کے سوا دوسرے راوی سے اس بادشاہ کانام ہدد بن بدد نقل کرتے ہیں اور جس بچہ کو حضرت خضر ؑ نے قتل کیا تھا اس کا نام لوگ جیسور بیان کرتے ہیں ۔ وہ بادشاہ ہر ( نئی ) کشتی کو زبر دستی چھین لیا کرتا تھا ۔ اس لئے میں نے چاہا کہ جب یہ کشتی اس کے سامنے سے گزرے تو اس کے اس عیب کی وجہ سے اسے نہ چھینے ۔ جب کشتی والے اس بادشاہ کی سلطنت سے گزر جائیں گے تو وہ خود اسے ٹھیک کر لیں گے اور اسے کام میں لاتے رہیں گے ۔ بعض لوگوں کا تو یہ خیال ہے کہ انہوں نے کشتی کو پھر سیسہ لگا کر جوڑا تھا اور بعض کہتے ہیں کہ تار کول سے جوڑا تھا ( اور جس بچہ کو قتل کردیا تھا ) تو اس کے والدین مومن تھے اور وہ بچہ ( اللہ کی تقدیر میں ) کافر تھا ۔ اس لئے ہمیں ڈر تھاکہ کہیں ( بڑا ہو کر ) وہ انہیں بھی کفر میں مبتلا نہ کردے کہ اپنے لڑکے سے انتہائی محبت انہیں اس کے دین کی اتباع پر مجبور کر دے ۔ اس لئے ہم نے چاہا کہ اللہ اس کے بدلے میں انہیں کوئی نیک اور اس سے بہتر اولاد دے ۔ ” واقرب رحما “ یعنی اس کے والدین اس بچہ پر جو اب اللہ تعالیٰ انہیں دے گا پہلے سے زیادہ بہتر مہربان ہوں جسے خضر نے قتل کر دیا ہے ۔ سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ان والدین کو اس بچے کے بدلے ایک لڑکی دی گئی تھی ۔ داود بن ابی عاصم رحمہ اللہ کئی راویوں سے نقل کرتے ہیں کہ وہ لڑکی ہی تھی ۔
تشریح : اس طویل حدیث موسیٰ وخضر علیہما السلام کو حضرت امام بخاری رحمہ اللہ یہاں صرف اس لئے لائے ہیں کہ اس میں دو دریاؤں کے سنگم پر حضرت موسیٰ وحضرت خضر علیہما السلام کے ملنے کا ذکر ہے۔ جیسا آیت مذکورہ میں بیان ہوا ہے۔ اس طویل حدیث موسیٰ وخضر علیہما السلام کو حضرت امام بخاری رحمہ اللہ یہاں صرف اس لئے لائے ہیں کہ اس میں دو دریاؤں کے سنگم پر حضرت موسیٰ وحضرت خضر علیہما السلام کے ملنے کا ذکر ہے۔ جیسا آیت مذکورہ میں بیان ہوا ہے۔