‌صحيح البخاري - حدیث 4725

كِتَابُ تَفْسِيرِ القُرْآنِ بَابُ قَوْلِهِ {وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِفَتَاهُ: لاَ أَبْرَحُ حَتَّى أَبْلُغَ مَجْمَعَ البَحْرَيْنِ أَوْ أَمْضِيَ حُقُبًا} صحيح حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ قَالَ أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ قَالَ قُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ إِنَّ نَوْفًا الْبِكَالِيَّ يَزْعُمُ أَنَّ مُوسَى صَاحِبَ الْخَضِرِ لَيْسَ هُوَ مُوسَى صَاحِبَ بَنِي إِسْرَائِيلَ فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ كَذَبَ عَدُوُّ اللَّهِ حَدَّثَنِي أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنَّ مُوسَى قَامَ خَطِيبًا فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ فَسُئِلَ أَيُّ النَّاسِ أَعْلَمُ فَقَالَ أَنَا فَعَتَبَ اللَّهُ عَلَيْهِ إِذْ لَمْ يَرُدَّ الْعِلْمَ إِلَيْهِ فَأَوْحَى اللَّهُ إِلَيْهِ إِنَّ لِي عَبْدًا بِمَجْمَعِ الْبَحْرَيْنِ هُوَ أَعْلَمُ مِنْكَ قَالَ مُوسَى يَا رَبِّ فَكَيْفَ لِي بِهِ قَالَ تَأْخُذُ مَعَكَ حُوتًا فَتَجْعَلُهُ فِي مِكْتَلٍ فَحَيْثُمَا فَقَدْتَ الْحُوتَ فَهُوَ ثَمَّ فَأَخَذَ حُوتًا فَجَعَلَهُ فِي مِكْتَلٍ ثُمَّ انْطَلَقَ وَانْطَلَقَ مَعَهُ بِفَتَاهُ يُوشَعَ بْنِ نُونٍ حَتَّى إِذَا أَتَيَا الصَّخْرَةَ وَضَعَا رُءُوسَهُمَا فَنَامَا وَاضْطَرَبَ الْحُوتُ فِي الْمِكْتَلِ فَخَرَجَ مِنْهُ فَسَقَطَ فِي الْبَحْرِ فَاتَّخَذَ سَبِيلَهُ فِي الْبَحْرِ سَرَبًا وَأَمْسَكَ اللَّهُ عَنْ الْحُوتِ جِرْيَةَ الْمَاءِ فَصَارَ عَلَيْهِ مِثْلَ الطَّاقِ فَلَمَّا اسْتَيْقَظَ نَسِيَ صَاحِبُهُ أَنْ يُخْبِرَهُ بِالْحُوتِ فَانْطَلَقَا بَقِيَّةَ يَوْمِهِمَا وَلَيْلَتَهُمَا حَتَّى إِذَا كَانَ مِنْ الْغَدِ قَالَ مُوسَى لِفَتَاهُ آتِنَا غَدَاءَنَا لَقَدْ لَقِينَا مِنْ سَفَرِنَا هَذَا نَصَبًا قَالَ وَلَمْ يَجِدْ مُوسَى النَّصَبَ حَتَّى جَاوَزَا الْمَكَانَ الَّذِي أَمَرَ اللَّهُ بِهِ فَقَالَ لَهُ فَتَاهُ أَرَأَيْتَ إِذْ أَوَيْنَا إِلَى الصَّخْرَةِ فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَمَا أَنْسَانِيهِ إِلَّا الشَّيْطَانُ أَنْ أَذْكُرَهُ وَاتَّخَذَ سَبِيلَهُ فِي الْبَحْرِ عَجَبًا قَالَ فَكَانَ لِلْحُوتِ سَرَبًا وَلِمُوسَى وَلِفَتَاهُ عَجَبًا فَقَالَ مُوسَى ذَلِكَ مَا كُنَّا نَبْغِي فَارْتَدَّا عَلَى آثَارِهِمَا قَصَصًا قَالَ رَجَعَا يَقُصَّانِ آثَارَهُمَا حَتَّى انْتَهَيَا إِلَى الصَّخْرَةِ فَإِذَا رَجُلٌ مُسَجًّى ثَوْبًا فَسَلَّمَ عَلَيْهِ مُوسَى فَقَالَ الْخَضِرُ وَأَنَّى بِأَرْضِكَ السَّلَامُ قَالَ أَنَا مُوسَى قَالَ مُوسَى بَنِي إِسْرَائِيلَ قَالَ نَعَمْ أَتَيْتُكَ لِتُعَلِّمَنِي مِمَّا عُلِّمْتَ رَشَدًا قَالَ إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِي صَبْرًا يَا مُوسَى إِنِّي عَلَى عِلْمٍ مِنْ عِلْمِ اللَّهِ عَلَّمَنِيهِ لَا تَعْلَمُهُ أَنْتَ وَأَنْتَ عَلَى عِلْمٍ مِنْ عِلْمِ اللَّهِ عَلَّمَكَهُ اللَّهُ لَا أَعْلَمُهُ فَقَالَ مُوسَى سَتَجِدُنِي إِنْ شَاءَ اللَّهُ صَابِرًا وَلَا أَعْصِي لَكَ أَمْرًا فَقَالَ لَهُ الْخَضِرُ فَإِنْ اتَّبَعْتَنِي فَلَا تَسْأَلْنِي عَنْ شَيْءٍ حَتَّى أُحْدِثَ لَكَ مِنْهُ ذِكْرًا فَانْطَلَقَا يَمْشِيَانِ عَلَى سَاحِلِ الْبَحْرِ فَمَرَّتْ سَفِينَةٌ فَكَلَّمُوهُمْ أَنْ يَحْمِلُوهُمْ فَعَرَفُوا الْخَضِرَ فَحَمَلُوهُمْ بِغَيْرِ نَوْلٍ فَلَمَّا رَكِبَا فِي السَّفِينَةِ لَمْ يَفْجَأْ إِلَّا وَالْخَضِرُ قَدْ قَلَعَ لَوْحًا مِنْ أَلْوَاحِ السَّفِينَةِ بِالْقَدُومِ فَقَالَ لَهُ مُوسَى قَوْمٌ قَدْ حَمَلُونَا بِغَيْرِ نَوْلٍ عَمَدْتَ إِلَى سَفِينَتِهِمْ فَخَرَقْتَهَا لِتُغْرِقَ أَهْلَهَا لَقَدْ جِئْتَ شَيْئًا إِمْرًا قَالَ أَلَمْ أَقُلْ إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِي صَبْرًا قَالَ لَا تُؤَاخِذْنِي بِمَا نَسِيتُ وَلَا تُرْهِقْنِي مِنْ أَمْرِي عُسْرًا قَالَ وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَانَتْ الْأُولَى مِنْ مُوسَى نِسْيَانًا قَالَ وَجَاءَ عُصْفُورٌ فَوَقَعَ عَلَى حَرْفِ السَّفِينَةِ فَنَقَرَ فِي الْبَحْرِ نَقْرَةً فَقَالَ لَهُ الْخَضِرُ مَا عِلْمِي وَعِلْمُكَ مِنْ عِلْمِ اللَّهِ إِلَّا مِثْلُ مَا نَقَصَ هَذَا الْعُصْفُورُ مِنْ هَذَا الْبَحْرِ ثُمَّ خَرَجَا مِنْ السَّفِينَةِ فَبَيْنَا هُمَا يَمْشِيَانِ عَلَى السَّاحِلِ إِذْ أَبْصَرَ الْخَضِرُ غُلَامًا يَلْعَبُ مَعَ الْغِلْمَانِ فَأَخَذَ الْخَضِرُ رَأْسَهُ بِيَدِهِ فَاقْتَلَعَهُ بِيَدِهِ فَقَتَلَهُ فَقَالَ لَهُ مُوسَى أَقَتَلْتَ نَفْسًا زَاكِيَةً بِغَيْرِ نَفْسٍ لَقَدْ جِئْتَ شَيْئًا نُكْرًا قَالَ أَلَمْ أَقُلْ لَكَ إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِي صَبْرًا قَالَ وَهَذِهِ أَشَدُّ مِنْ الْأُولَى قَالَ إِنْ سَأَلْتُكَ عَنْ شَيْءٍ بَعْدَهَا فَلَا تُصَاحِبْنِي قَدْ بَلَغْتَ مِنْ لَدُنِّي عُذْرًا فَانْطَلَقَا حَتَّى إِذَا أَتَيَا أَهْلَ قَرْيَةٍ اسْتَطْعَمَا أَهْلَهَا فَأَبَوْا أَنْ يُضَيِّفُوهُمَا فَوَجَدَا فِيهَا جِدَارًا يُرِيدُ أَنْ يَنْقَضَّ قَالَ مَائِلٌ فَقَامَ الْخَضِرُ فَأَقَامَهُ بِيَدِهِ فَقَالَ مُوسَى قَوْمٌ أَتَيْنَاهُمْ فَلَمْ يُطْعِمُونَا وَلَمْ يُضَيِّفُونَا لَوْ شِئْتَ لَاتَّخَذْتَ عَلَيْهِ أَجْرًا قَالَ هَذَا فِرَاقُ بَيْنِي وَبَيْنِكَ إِلَى قَوْلِهِ ذَلِكَ تَأْوِيلُ مَا لَمْ تَسْطِعْ عَلَيْهِ صَبْرًا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَدِدْنَا أَنَّ مُوسَى كَانَ صَبَرَ حَتَّى يَقُصَّ اللَّهُ عَلَيْنَا مِنْ خَبَرِهِمَا قَالَ سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ فَكَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ يَقْرَأُ وَكَانَ أَمَامَهُمْ مَلِكٌ يَأْخُذُ كُلَّ سَفِينَةٍ صَالِحَةٍ غَصْبًا وَكَانَ يَقْرَأُ وَأَمَّا الْغُلَامُ فَكَانَ كَافِرًا وَكَانَ أَبَوَاهُ مُؤْمِنَيْنِ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 4725

کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں باب: آیت (( واذ قال موسیٰ لفتاہ لا ابرح....الایۃ )) کی تفسیر ہم سے عبدااللہ بن زبیر حمیدی نے بیان کیا ، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا ، کہا ہم سے عمرو بن دینار نے بیان کیا ، کہا کہ مجھے سعید بن جبیر نے خبر دی ، کہا کہ میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا نوف بکالی کہتا ہے ( جو کعب احبار کا رہیب تھا ) کہ جن موسیٰ کی خضر کے ساتھ ملاقات ہوئی تھی وہ بنی اسرائیل کے ( رسول ) حضرت موسیٰ کے علاوہ دوسرے ہیں ۔ ( یعنی موسیٰ بن میثا بن افراثیم بن یوسف بن یعقوب ) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا دشمن خدا نے غلط کہا ۔ مجھ سے حضرت ابی بن کعب نے بیان کیا کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ، آپ فرما رہے تھے کہ حضرت موسیٰ علےہ السلام نبی اسرائیل کو وعظ سنا نے کے لئے کھڑے ہوئے تو ان سے پوچھا گیا کہ انسانوں میں سب سے زیادہ علم کسے ہے ؟ انہوں نے فرمایا کہ مجھے ۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے ان پر غصہ کیا کیونکہ انہوں نے علم کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب نہیں کیا تھا ، اللہ تعالیٰ نے انہیں وحی کے ذریعہ بتایا کہ دو دریاؤں ( فارس اور روم ) کے سنگم پر میرا ایک بندہ ہے جو تم سے زیادہ علم رکھتا ہے ۔ حضرت موسیٰ نے عرض کیا اے رب ! میں ان تک کیسے پہنچ پاؤں گا ؟ اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ اپنے ساتھ ایک مچھلی لے لو اور اسے ایک زنبیل میں رکھ لو ، وہ جہاں گم ہوجائے ( زندہ ہوکر دریا میں کود جائے ) بس میرا وہ بندہ وہیں ملے گا چنانچہ آپ نے مچھلی لی اور زنبیل میں رکھ کر روانہ ہوئے ۔ آپ کے ساتھ آپ کے خادم یوشع بن نون بھی تھے ۔ جب یہ دونوں چٹان کے پاس آئے توسر رکھ کر سو گئے ، ادھر مچھلی زنبیل میں تڑپی اور اس سے نکل گئی اور اس نے دریا میں اپنا راستہ پالیا ۔ مچھلی جہاں گری تھی اللہ تعالیٰ نے وہاں پانی کی روانی کو روک دیا اور پانی ایک طاق کی طرح اس پر بن گیا ( یہ حال یوشع اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے ) پھر جب حضرت موسیٰعلےہ السلام بیدار ہوئے تو یوشع ان کو مچھلی کے متعلق بتانا بھول گئے ۔ اس لئے دن اور رات کا جو حصہ باقی تھا اس میں چلتے رہے ، دوسرے دن حضرت موسیٰعلےہ السلام نے اپنے خادم سے فرمایا کہ اب کھانا لاؤ ، ہم کو سفر نے بہت تھکا دیا ہے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حضرت موسیٰ اس وقت تک نہیں تھکے جب تک وہ اس مقام سے نہ گزر چکے جس کا اللہ تعالیٰ نے انہیںحکم دیا تھا ۔ اب ان کے خادم نے کہا آپ نے نہیں دیکھا جب ہم چٹان کے پاس تھے تو مچھلی کے متعلق بتانا بھول گیا تھا اور صرف شیطانوں نے یاد رہنے نہیں دیا ۔ اس نے تو عجیب طریقہ سے اپنا راستہ بنا لیا تھا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مچھلی نے تو دریا میں اپنا راستہ لیا اور حضرت موسیٰ اور ان کے خادم کو ( مچھلی کا جو نشان پانی میں اب تک موجود تھا ) دیکھ کر تعجب ہوا ۔ حضرت موسیٰ ؑ نے فرمایا کہ یہ وہی جگہ تھی جس کی تلاش میں ہم تھے ، چنانچہ دونوں حضرات پیچھے اسی راستہ سے لوٹے ۔ بیان کیا کہ دونوں حضرات پیچھے اپنے نقش قدم پر چلتے چلتے آخر اس چٹان تک پہنچ گئے وہاں انہوں نے دیکھا کہ ایک صاحب ( خضر علیہ السلام ) کپڑے میں لپٹے ہوئے وہاں بیٹھے ہیں ۔ حضرت موسیٰ نے انہیں سلام کیا ۔ حضرت خضر نے کہا ( تم کون ہو ) تمہارے ملک میں ” سلام “ کہاں سے آگیا ۔ موسیٰ نے فرمایا کہ میں موسیٰ ہوں ۔ پوچھا بنی اسرائیل کے موسیٰ ؟ فرمایا کہ جی ہاں ۔ آپ کے پاس اس غرض سے حاضر ہوا ہوں تاکہ جو ہدایت کا علم آپ کو حاصل ہے وہ مجھے بھی سکھا دیں ۔ حضرت خضر نے فرمایا ، موسیٰ ؟ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کر سکتے مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک خاص علم ملا ہے جسے آپ نہیں جانتے ، اسی طرح آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو علم ملا ہے وہ میں نہیں جانتا ۔ حضرت موسیٰ نے فرمایا ان شاءاللہ آپ مجھے صابر پائیں گے اور میں کسی معاملے میں آپ کے خلاف نہیں کروں گا ۔ حضرت خضر نے فرمایا ، اچھا اگر آپ میرے ساتھ چلیں تو کسی چیز کے متعلق سوال نہ کریں یہاں تک کہ میں خود آپ کو اس کے متعلق بتادوںگا ۔ اب یہ دونوں سمندر کے کنارے کنارے روانہ ہوئے اتنے میں ایک کشتی گزری ، انہوں نے کشتی والوں سے بات کی کہ انہیں بھی اس پر سوار کر لیں ۔ کشتی والوں نے حضرت خضر کو پہچان لیا اور کسی کرایہ کے بغیر انہیں سوار کر لیا ۔ جب یہ دونوں کشتی پر بیٹھ گئے تو حضرت خضر نے کلہاڑے سے کشتی کا ایک تختہ نکال ڈالا ۔ اس پر حضرت موسیٰ نے دیکھا تو حضرت خضر سے کہا کہ ان لوگوں نے ہمیں بغیر کسی کرایہ کے اپنی کشتی میں سوار کر لیا تھا اور آپ نے انہیں کی کشتی چیر ڈالی تاکہ سارے مسافرڈوب جائیں ۔ بلا شبہ آپ نے یہ بڑا ناگوار کام کیا ہے ۔ حضرت خضر نے فرمایا ، کیا میں نے آپ سے پہلے ہی نہ کہا تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہیںکر سکتے ۔ حضرت موسیٰ نے فرمایا جو بات میں بھول گیا تھا اس پر مجھے معاف کردیں اور میرے معاملہ میں تنگی نہ کریں ۔ بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، یہ پہلی مرتبہ حضرت موسیٰ نے بھول کر انہیں ٹوکا تھا ۔ راوی نے بیان کیا کہ اتنے میں ایک چڑیا آئی اور اس نے کشتی کے کنارے بیٹھ کر سمندر میں ایک مرتبہ اپنی چونچ ماری تو خضر نے حضرت موسیٰ سے کہا کہ میرے اور آپ کے علم کی حیثیت اللہ کے علم کے مقابلے میں اس سے زیادہ نہیں ہے جتنا اس چڑیا نے اس سمندر کے پانی سے کم کیا ہے ۔ پھر یہ دونوں کشتی سے اتر گئے ، ابھی وہ سمندر کے کنارے چل ہی رہے تھے کہ حضرت خضر نے ایک بچہ کو دیکھا جو دوسرے بچوں کے سا تھ کھیل رہا تھا ۔ آپ نے اس بچے کا سر اپنے ہاتھ میں دبایا اور اسے ( گردن سے ) اکھاڑ دیا اور اس کی جان لے لی ۔ حضرت موسیٰ اس پر بولے ، آپ نے ایک بے گناہ کی جان بغیر کسی جان کے بدلے کے لے لی ، یہ آپ نے بڑا نا پسند کام کیا ۔ خضر نے فرمایا کہ میں تو پہلے ہی کہہ چکا تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کر سکتے ۔ سفیان بن عیینہ ( راوی حدیث ) نے کہا اور یہ کام تو پہلے سے بھی زیادہ سخت تھا ۔ حضرت موسیٰ نے آخر اس مرتبہ بھی معذرت کی کہ اگر میں نے اس کے بعد پھر آپ سے سوال کیا تو آپ مجھے ساتھ نہ رکھئے گا ۔ آپ میرا بار بار عذر سن چکے ہیں ( اس کے بعد میرے لئے بھی عذر کا کوئی موقع نہ رہے گا ) پھر دونوں روانہ ہوئے ، یہاں تک کہ ایک بستی میں پہنچے اور بستی والوں سے کہا کہ ہمیں اپنا مہمان بنالو ، لیکن انہوں نے میزبانی سے انکار کیا ، پھر انہیں بستی میں ایک دیوار دکھائی دی جو بس گرنے ہی والی تھی ۔ بیان کیا کہ دیوار جھک رہی تھی ۔ خضر کھڑے ہو گئے اور دیوار اپنے ہاتھ سے سیدھی کر دی ۔ موسیٰ نے فرمایا کہ ان لوگوں کے یہاں ہم آئے اور ان سے کھانے کے لئے کہا ، لیکن انہوں نے ہماری میزبانی سے انکار کیا ، اگر آپ چاہتے تو دیوار کے اس سیدھا کر نے کے کام پر اجرت لے سکتے تھے ۔ خضر ؑ نے فرمایا کہ بس اب میرے اور آپ کے درمیان جدائی ہے ، اللہ تعالیٰ کے ارشاد ذلک تاویل مالم تسطع علیہ صبرا تک ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، ہم تو چاہتے تھے کہ حضرت موسیٰ نے صبر کیا ہوتا تاکہ اللہ تعالیٰ ان کے اور واقعات ہم سے بیان کرتا ۔ سعید بن جبیر نے بیان کیا کہ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اس آیت کی تلاوت کرتے تھے ( جس میں خضر علیہ السلام نے اپنے کاموں کی وجہ بیان کی ہے کہ ) کشتی والوں کے آگے ایک بادشاہ تھا جو ہر اچھی کشتی کو چھین لیا کرتا تھا اور اس کی بھی آپ تلاوت کرتے تھے کہ اور وہ غلام ( جس کی گردن خضر نے توڑ دی تھی ) تو وہ ( اللہ کے علم میں ) کافر تھا اور اس کے والدین مومن تھے ۔
تشریح : اس طویل حدیث میں حضرت موسیٰ اور حضرت خضر علیہما السلام سے متعلق بہت سی باتیں کی گئی ہیں جن کی تفصیل کے لئے کتب تفاسیر کا مطالعہ ضروری ہے۔ نوف بکالی جس کا ذکر شروع میں ہے وہ مسلمان تھا مگر حدیث کے خلاف کہنے پر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اسے اللہ کا دشمن قراردیا۔ بعضوں نے کہا کہ تغلیظا کہا اور حقیقی معنی مراد نہیں ہے۔ غرض حدیث کے خلاف چلنے والوں کو اللہ کا دشمن کہہ سکتے ہیں۔ علم کی قدر یہ ہے کہ حضرت موسیٰ نے حضرت خضرکے علم کا ذکر سنتے ہی شوق ملاقات کا اظہار فرمایا اور ان سے ملنے کی آرزو ظاہر کی اور ہر طرح کی تکلیف سفر وغیرہ گوارا کی۔ علم ایسی ہی چیز ہے جس کے لئے آدمی مشرق سے مغرب تک سفر کرے تو بھی بہت نہیں ہے۔ علم ہی سے دنیا کی تمام قومیں دوسری قوموں کی جو بے علم تھیں سرتاج بن گئیں ۔ افسوس ہے کہ ہمارے زمانہ میں جیسی بے قدری علم اور عالموں کی مسلمانوں میں ہے ویسی کسی قوم میں نہیں ہے۔ علم حاصل کرنے کیلئے سفر کرنا تو کجا اگر ان میں کوئی عالم کسی ملک سے آجاتا ہے تو یہ الٹے اس کے دشمن ہو جاتے ہیں اس کے نکالنے اور معزول کرانے کی فکر میں رہتے ہیں الا ما شاءاللہ ۔ حضرت خضر نے حضرت موسیٰ سے جو کچھ کہا اس کا مطلب یہ تھا کہ تمہارا طریق اور ہے میرا طریق اور ہے اور میں اللہ کی طرف سے خاص باتوں پر مامور ہوں۔ تم ہدایت عام کے لئے بھیجے گئے ہو میںکہاں تک تم کو سمجھا تا رہوں گا۔ بعض کم فہم صوفیوں نے اس حدیث کی شرح میں یوں کہا ہے کہ حضرت موسیٰ کو صرف شریعت کا علم تھا اور خضر کو حقیقت کا اور ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دونوں علم ملے تھے۔ یہ تقریر صحیح نہیں ہے۔ حضرت موسیٰ انبیاءاولوالعزم میں سے تھے ان کو تو حقیقت کا علم نہ ہو اور ادنیٰ سے ادنیٰ نام نہاد اولیاءاللہ کو ہو جائے یہ کیونکر ہو سکتا ہے۔ اس طرح حضرت خضر کو شریعت کا علم بالکل نہ ہو تو حقیقت کا علم کیونکر ہوگا۔ حقیقت بغیر شریعت کے زندقہ اور الحاد ہے۔ شریعت محمدی میں کوئی بھی امر ایسا نہیں ہے جو ظاہری خوبیوں کے ساتھ اپنے اندر بہت سی باطنی خوبیاں بھی نہ رکھتا ہو۔ اس طرح شریعت اسلامی ظاہر وباطن کا بہترین مجموعہ ہے۔ اس طویل حدیث میں حضرت موسیٰ اور حضرت خضر علیہما السلام سے متعلق بہت سی باتیں کی گئی ہیں جن کی تفصیل کے لئے کتب تفاسیر کا مطالعہ ضروری ہے۔ نوف بکالی جس کا ذکر شروع میں ہے وہ مسلمان تھا مگر حدیث کے خلاف کہنے پر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اسے اللہ کا دشمن قراردیا۔ بعضوں نے کہا کہ تغلیظا کہا اور حقیقی معنی مراد نہیں ہے۔ غرض حدیث کے خلاف چلنے والوں کو اللہ کا دشمن کہہ سکتے ہیں۔ علم کی قدر یہ ہے کہ حضرت موسیٰ نے حضرت خضرکے علم کا ذکر سنتے ہی شوق ملاقات کا اظہار فرمایا اور ان سے ملنے کی آرزو ظاہر کی اور ہر طرح کی تکلیف سفر وغیرہ گوارا کی۔ علم ایسی ہی چیز ہے جس کے لئے آدمی مشرق سے مغرب تک سفر کرے تو بھی بہت نہیں ہے۔ علم ہی سے دنیا کی تمام قومیں دوسری قوموں کی جو بے علم تھیں سرتاج بن گئیں ۔ افسوس ہے کہ ہمارے زمانہ میں جیسی بے قدری علم اور عالموں کی مسلمانوں میں ہے ویسی کسی قوم میں نہیں ہے۔ علم حاصل کرنے کیلئے سفر کرنا تو کجا اگر ان میں کوئی عالم کسی ملک سے آجاتا ہے تو یہ الٹے اس کے دشمن ہو جاتے ہیں اس کے نکالنے اور معزول کرانے کی فکر میں رہتے ہیں الا ما شاءاللہ ۔ حضرت خضر نے حضرت موسیٰ سے جو کچھ کہا اس کا مطلب یہ تھا کہ تمہارا طریق اور ہے میرا طریق اور ہے اور میں اللہ کی طرف سے خاص باتوں پر مامور ہوں۔ تم ہدایت عام کے لئے بھیجے گئے ہو میںکہاں تک تم کو سمجھا تا رہوں گا۔ بعض کم فہم صوفیوں نے اس حدیث کی شرح میں یوں کہا ہے کہ حضرت موسیٰ کو صرف شریعت کا علم تھا اور خضر کو حقیقت کا اور ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دونوں علم ملے تھے۔ یہ تقریر صحیح نہیں ہے۔ حضرت موسیٰ انبیاءاولوالعزم میں سے تھے ان کو تو حقیقت کا علم نہ ہو اور ادنیٰ سے ادنیٰ نام نہاد اولیاءاللہ کو ہو جائے یہ کیونکر ہو سکتا ہے۔ اس طرح حضرت خضر کو شریعت کا علم بالکل نہ ہو تو حقیقت کا علم کیونکر ہوگا۔ حقیقت بغیر شریعت کے زندقہ اور الحاد ہے۔ شریعت محمدی میں کوئی بھی امر ایسا نہیں ہے جو ظاہری خوبیوں کے ساتھ اپنے اندر بہت سی باطنی خوبیاں بھی نہ رکھتا ہو۔ اس طرح شریعت اسلامی ظاہر وباطن کا بہترین مجموعہ ہے۔