كِتَابُ تَفْسِيرِ القُرْآنِ 18سُورَةُ الكَهْفِ{وَكَانَ الإِنْسَانُ أَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلًا} صحيح حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ صَالِحٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ قَالَ أَخْبَرَنِي عَلِيُّ بْنُ حُسَيْنٍ أَنَّ حُسَيْنَ بْنَ عَلِيٍّ أَخْبَرَهُ عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَرَقَهُ وَفَاطِمَةَ قَالَ أَلَا تُصَلِّيَانِ رَجْمًا بِالْغَيْبِ لَمْ يَسْتَبِنْ فُرُطًا يُقَالُ نَدَمًا سُرَادِقُهَا مِثْلُ السُّرَادِقِ وَالْحُجْرَةِ الَّتِي تُطِيفُ بِالْفَسَاطِيطِ يُحَاوِرُهُ مِنْ الْمُحَاوَرَةِ لَكِنَّا هُوَ اللَّهُ رَبِّي أَيْ لَكِنْ أَنَا هُوَ اللَّهُ رَبِّي ثُمَّ حَذَفَ الْأَلِفَ وَأَدْغَمَ إِحْدَى النُّونَيْنِ فِي الْأُخْرَى وَفَجَّرْنَا خِلَالَهُمَا نَهَرًا يَقُولُ بَيْنَهُمَا زَلَقًا لَا يَثْبُتُ فِيهِ قَدَمٌ هُنَالِكَ الْوِلَايَةُ مَصْدَرُ الْوَلِيِّ عُقُبًا عَاقِبَةً وَعُقْبَى وَعُقْبَةً وَاحِدٌ وَهِيَ الْآخِرَةُ قِبَلًا وَقُبُلًا وَقَبَلًا اسْتِئْنَافًا لِيُدْحِضُوا لِيُزِيلُوا الدَّحْضُ الزَّلَقُ
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
باب: 18سورۃ کہف کی تفسیر آیت (( وکان الانسان اکثر شئی جدلا )) کی تفسیر
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا ، کہا ہم سے یعقوب بن ابراہیم بن سعد نے بیان کیا ، کہا ہم سے میرے والد نے بیان کیا ، ان سے صالح نے ، ان سے ابن شہاب نے ، کہا مجھے حضرت علی بن حسین نے خبر دی ، انہیں حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہما نے خبر دی اور انہیں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے وقت ان کے اور حضرت فاطمہ کے گھر آئے اور فرمایا ۔ تم لوگ تہجد کی نماز نہیں پڑھتے ( آخر حدیث تک ) رجما بالغیب یعنی سنی سنائی اور ان کو خود کچھ علم نہیں فرطا ندامت شرمندگی ، سرادقھا یعنی قناتوں کی طرح سب طرف سے ان کو آگ گھیر لے گی جیسے کوٹھری کو سب طرف سے خیمے گھیر لیتے ہیں ۔ یحاورہ محاورہ سے نکلا ہے ( یعنی گفتگو کرنا تکرار کرنا ) لکنا ھو اللہ ربی اصل میںلکن انا ھو اللہ ربی تھا ۔ انا کا ہمزہ حذف کر کے نون کو نون میں ادغام کردیا لکنا ہوگیا ۔ خلالھما نھرا یعنی بینھما ان کے بیچ میں زلقا چکنا صاف جس پر پاؤں پھسلے ( جمے نہیں ) ھنالک الولایۃ ولایت ولی کا مصدر ہے ۔ عقبا عاقبت اسی طرح عقبیٰ اور عقبۃ سب کا ایک ہی معنی ہے ۔ یعنی آخرت قبلا اور قبلا اور قبلا ( تینوں طرح پڑھا ہے ) یعنی سامنے آنا ۔ لیدحضوا دحض سے نکلا ہے یعنی پھسلانا ( مطلب یہ ہے کہ حق بات کو نا حق کریں )
تشریح :
مذکورہ حدیث باب التہجد میں گزر چکی ہے ۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اتنا ٹکڑا بیان کر کے پوری حدیث کی طرف اشارہ کر دیا اور اس کا تتمہ یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا یا رسول اللہ ! ہماری جانیں اللہ کے اختیار میں ہیں وہ جب ہم کو جگانا چاہے گا جگا دے گا یہ سن کر لوٹ گئے کچھ نہیں فرمایا بلکہ ران پر ہاتھ مار کر یہ آیت پڑھتے جاتے تھے ۔ وکان الانسان اکثر شئی جدلا ( الکہف : 54 )
مذکورہ حدیث باب التہجد میں گزر چکی ہے ۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اتنا ٹکڑا بیان کر کے پوری حدیث کی طرف اشارہ کر دیا اور اس کا تتمہ یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا یا رسول اللہ ! ہماری جانیں اللہ کے اختیار میں ہیں وہ جب ہم کو جگانا چاہے گا جگا دے گا یہ سن کر لوٹ گئے کچھ نہیں فرمایا بلکہ ران پر ہاتھ مار کر یہ آیت پڑھتے جاتے تھے ۔ وکان الانسان اکثر شئی جدلا ( الکہف : 54 )