كِتَابُ تَفْسِيرِ القُرْآنِ بَابُ قَوْلِهِ {وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ} صحيح حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ حَدَّثَنَا أَبِي حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ قَالَ حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ عَنْ عَلْقَمَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ بَيْنَا أَنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَرْثٍ وَهُوَ مُتَّكِئٌ عَلَى عَسِيبٍ إِذْ مَرَّ الْيَهُودُ فَقَالَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ سَلُوهُ عَنْ الرُّوحِ فَقَالَ مَا رَأْيُكُمْ إِلَيْهِ وَقَالَ بَعْضُهُمْ لَا يَسْتَقْبِلُكُمْ بِشَيْءٍ تَكْرَهُونَهُ فَقَالُوا سَلُوهُ فَسَأَلُوهُ عَنْ الرُّوحِ فَأَمْسَكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيْهِمْ شَيْئًا فَعَلِمْتُ أَنَّهُ يُوحَى إِلَيْهِ فَقُمْتُ مَقَامِي فَلَمَّا نَزَلَ الْوَحْيُ قَالَ وَيَسْأَلُونَكَ عَنْ الرُّوحِ قُلْ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيتُمْ مِنْ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
باب: آیت (( و یسئلونک عن الروح )) کی تفسیر
ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا ، کہا ہم سے میرے والد نے ، کہا ہم سے اعمش نے ، کہا کہ مجھ سے ابراہیم نخعی نے بیان کیا ، ان سے علقمہ نے ، ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک کھیت میں حاضر تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت کھجور کے ایک تنے پر ٹیک لگائے ہوئے تھے کہ کچھ یہودی اس طرف سے گزرے ۔ کسی یہودی نے اپنے دوسرے ساتھی سے کہا کہ ان سے روح کے بارے میں پوچھو ۔ ان میں سے کسی نے اس پر کہا ایسا کیوں کرتے ہو ؟ دوسرا یہودی بولا ۔ کہیں وہ کوئی ایسی بات نہ کہہ دیں ، جو تم کو ناپسند ہو رائے اس پر ٹھہری کہ روح کے بارے میں پوچھنا ہی چاہئے ۔ چنانچہ انہوں نے آپ سے اس کے بارے میں سوال کیا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تھوڑی دیر کے لئے خاموش ہو گئے اور ان کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا ۔ میں سمجھ گیا کہ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی اتر رہی ہے ۔ اس لئے میں وہیں کھڑا رہا ۔ جب وحی ختم ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی ” اور یہ آپ سے روح کے بارے میں سوال کرتے ہیں ۔ آپ کہہ دیں کہ روح میرے پروردگار کے حکم ہی سے ہے اور تمہیں علم تو تھوڑا ہی دیا گیا ہے ۔ “
تشریح :
روح کو امر رب یعنی پروردگار کا حکم فرمایا اوراس کی حقیقت بیان نہیں کی۔ کیونکہ اگلے پیغمبروں نے بھی اس کی حقیقت بیان نہیں کی اور یہودیوں نے باہم یہی کہا کہ اگر روح کی حقیقت بیان نہ کریں تو یہ بے شک پیغمبر ہیں اگر بیان کریں تو ہم سمجھ لیں گے کہ حکیم ہیں پیغمبر نہیں ہیں۔ ابن کثیر نے کہا روح ایک مادہ ہے لطیف ہوا کی طرح اور بدن کے ہر جزو میں اس طرح حلول کئے ہوئے ہے جیسے پانی ہری بھری شاخوں میں۔ یہ روح حیوانی کی حقیقت ہے اور روح انسانی یعنی نفس ناطقہ وہ بدن سے متعلق ہے حکم الٰہی سے جب موت آتی ہے تو یہ تعلق ٹوٹ جاتا ہے۔ تفصیل کے لئے حضرت امام ابن قیم رحمہ اللہ کی کتاب الروح کا مطالعہ کیا جائے۔ سند میں مذکور علقمہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے آزاد کردہ ہیں۔ انس بن مالک اوراپنی والدہ سے روایت کرتے ہیں۔ ان سے مالک بن انس اور سلیمان بن بلال نے روایت کی ہے۔
روح کو امر رب یعنی پروردگار کا حکم فرمایا اوراس کی حقیقت بیان نہیں کی۔ کیونکہ اگلے پیغمبروں نے بھی اس کی حقیقت بیان نہیں کی اور یہودیوں نے باہم یہی کہا کہ اگر روح کی حقیقت بیان نہ کریں تو یہ بے شک پیغمبر ہیں اگر بیان کریں تو ہم سمجھ لیں گے کہ حکیم ہیں پیغمبر نہیں ہیں۔ ابن کثیر نے کہا روح ایک مادہ ہے لطیف ہوا کی طرح اور بدن کے ہر جزو میں اس طرح حلول کئے ہوئے ہے جیسے پانی ہری بھری شاخوں میں۔ یہ روح حیوانی کی حقیقت ہے اور روح انسانی یعنی نفس ناطقہ وہ بدن سے متعلق ہے حکم الٰہی سے جب موت آتی ہے تو یہ تعلق ٹوٹ جاتا ہے۔ تفصیل کے لئے حضرت امام ابن قیم رحمہ اللہ کی کتاب الروح کا مطالعہ کیا جائے۔ سند میں مذکور علقمہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے آزاد کردہ ہیں۔ انس بن مالک اوراپنی والدہ سے روایت کرتے ہیں۔ ان سے مالک بن انس اور سلیمان بن بلال نے روایت کی ہے۔