‌صحيح البخاري - حدیث 471

كِتَابُ الصَّلاَةِ بَابُ رَفْعِ الصَّوْتِ فِي المَسَاجِدِ صحيح حَدَّثَنَا أَحْمَدُ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ كَعْبَ بْنَ مَالِكٍ، أَخْبَرَهُ أَنَّهُ تَقَاضَى ابْنَ أَبِي حَدْرَدٍ دَيْنًا لَهُ عَلَيْهِ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي المَسْجِدِ، فَارْتَفَعَتْ أَصْوَاتُهُمَا حَتَّى سَمِعَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي بَيْتِهِ، فَخَرَجَ إِلَيْهِمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى كَشَفَ سِجْفَ حُجْرَتِهِ، وَنَادَى كَعْبَ بْنَ مَالِكٍ قَالَ: «يَا كَعْبُ» قَالَ: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَأَشَارَ بِيَدِهِ أَنْ ضَعِ الشَّطْرَ مِنْ دَيْنِكَ، قَالَ كَعْبٌ: قَدْ فَعَلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «قُمْ فَاقْضِهِ»

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 471

کتاب: نماز کے احکام و مسائل باب: مسجد میں آواز بلند کرنا ہم سے احمد بن صالح نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا، انھوں نے کہا مجھے یونس بن یزید نے خبر دی، انھوں نے ابن شہاب زہری کے واسطہ سے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ مجھ سے عبداللہ بن کعب بن مالک نے بیان کیا، ان کو ان کے باپ کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ انھوں نے عبداللہ ابن ابی حدرد رضی اللہ عنہ سے اپنے ایک قرض کے سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں مسجد نبوی کے اندر تقاضا کیا۔ دونوں کی آواز کچھ اونچی ہو گئی یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنے حجرہ سے سن لیا۔ آپ اٹھے اور حجرہ پر پڑے ہوئے پردہ کو ہٹایا۔ آپ نے کعب بن مالک کو آواز دی، اے کعب! کعب بولے۔ یا رسول اللہ! حاضر ہوں۔ آپ نے اپنے ہاتھ کے اشارے سے بتایا کہ وہ اپنا آدھا قرض معاف کر دے۔ حضرت کعب نے عرض کی یا رسول اللہ! میں نے معاف کر دیا۔ آپ نے ابن ابی حدرد سے فرمایا اچھا اب چل اٹھ اس کا قرض ادا کر۔
تشریح : طائف مکہ سے کچھ میل کے فاصلہ پر مشہور قصبہ ہے۔ پہلی روایت میں حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے ان کو مسجدنبوی میں شوروغل کرنے پر جھڑکا اوربتلایا کہ تم لوگ باہر کے رہنے والے اورمسجد کے آداب سے ناواقف ہو اس لیے تم کو چھوڑدیتاہوں، کوئی مدینہ والا ایسی حرکت کرتا تو اسے بغیر سزادئیے نہ چھوڑتا۔ اس سے امام رحمۃ اللہ علیہ نے ثابت فرمایاکہ فضول شوروغل کرنا آداب مسجد کے خلاف ہے۔ دوسری روایت سے آپ نے ثابت فرمایاکہ تعلیم رشد وہدایت کے لیے اگر آواز بلند کی جائے تو یہ آداب مسجد کے خلاف نہیں ہے۔ جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کو بلاکر ان کونیک ہدایت فرمائی۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ قرض خواہ مقروض کو جس قدر بھی رعایت دے سکتا ہے بشرطیکہ وہ مقروض نادار ہی ہو تو یہ عین رضائے الٰہی کا وسیلہ ہے۔ قرآن کریم کی بھی یہی ہدایت ہے۔ مگر مقروض کا بھی فرض ہے کہ جہاں تک ہوسکے پورا قرض ادا کرکے اس بوجھ سے اپنے آپ کو آزاد کرے۔ طائف مکہ سے کچھ میل کے فاصلہ پر مشہور قصبہ ہے۔ پہلی روایت میں حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے ان کو مسجدنبوی میں شوروغل کرنے پر جھڑکا اوربتلایا کہ تم لوگ باہر کے رہنے والے اورمسجد کے آداب سے ناواقف ہو اس لیے تم کو چھوڑدیتاہوں، کوئی مدینہ والا ایسی حرکت کرتا تو اسے بغیر سزادئیے نہ چھوڑتا۔ اس سے امام رحمۃ اللہ علیہ نے ثابت فرمایاکہ فضول شوروغل کرنا آداب مسجد کے خلاف ہے۔ دوسری روایت سے آپ نے ثابت فرمایاکہ تعلیم رشد وہدایت کے لیے اگر آواز بلند کی جائے تو یہ آداب مسجد کے خلاف نہیں ہے۔ جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کو بلاکر ان کونیک ہدایت فرمائی۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ قرض خواہ مقروض کو جس قدر بھی رعایت دے سکتا ہے بشرطیکہ وہ مقروض نادار ہی ہو تو یہ عین رضائے الٰہی کا وسیلہ ہے۔ قرآن کریم کی بھی یہی ہدایت ہے۔ مگر مقروض کا بھی فرض ہے کہ جہاں تک ہوسکے پورا قرض ادا کرکے اس بوجھ سے اپنے آپ کو آزاد کرے۔