كِتَابُ تَفْسِيرِ القُرْآنِ 16سُورَةُ النَّحْلِ قَوْلِهِ: {وَمِنْكُمْ مَنْ يُرَدُّ إِلَى أَرْذَلِ العُمُرِ} صحيح حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ مُوسَى أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الْأَعْوَرُ عَنْ شُعَيْبٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَدْعُو أَعُوذُ بِكَ مِنْ الْبُخْلِ وَالْكَسَلِ وَأَرْذَلِ الْعُمُرِ وَعَذَابِ الْقَبْرِ وَفِتْنَةِ الدَّجَّالِ وَفِتْنَةِ الْمَحْيَا وَالْمَمَاتِ
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
باب: 16 سورۃ نحل کی تفسیر آیت (( ومنکم من یرد الی ارذل العمر )) کی تفسیر
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم سے ہارون بن موسیٰ ابو عبداللہ اعور نے بیان کیا ، ان سے شعیب نے اور ان سے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دعا کیا کرتے تھے ، اے اللہ ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں بخل سے ، سستی سے ، ارذل عمر سے ( نکمی اور خراب عمر ۰۸یا ۰۹ سال کے بعد ) عذاب قبر سے ، دجال کے فتنے سے اور زندگی اور موت کے فتنے سے ۔
تشریح :
نکمی عمر 80یا 90 سال کے بعد ہوتی ہے۔ جس میں آدمی بوڑھا ہو کر بالکل بے عقل ہو جاتا ہے، ہر آدمی کی قوت اور طاقت پر منحصر ہے۔ کوئی خاص میعاد مقرر نہیں کی جاسکتی ۔ زندگی کا فتنہ یہ ہے کہ دنیا میں ایسا مشغول ہو جائے کہ اللہ کی یاد بھول جائے فرائض اور احکام شریعت کو ادا نہ کرے، موت کا فتنہ سکرات کے وقت شروع ہوتا ہے۔ اس وقت شیطان آدمی کا ایمان بگاڑنا چاہتا ہے۔ دوسری حدیث میں دعا آئی ہے اعوذبک من ان یتخبطنی الشیطان عند الموت یعنی اے اللہ ! تیری پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ موت کے وقت مجھ کو شیطان گمراہ کردے۔
نکمی عمر 80یا 90 سال کے بعد ہوتی ہے۔ جس میں آدمی بوڑھا ہو کر بالکل بے عقل ہو جاتا ہے، ہر آدمی کی قوت اور طاقت پر منحصر ہے۔ کوئی خاص میعاد مقرر نہیں کی جاسکتی ۔ زندگی کا فتنہ یہ ہے کہ دنیا میں ایسا مشغول ہو جائے کہ اللہ کی یاد بھول جائے فرائض اور احکام شریعت کو ادا نہ کرے، موت کا فتنہ سکرات کے وقت شروع ہوتا ہے۔ اس وقت شیطان آدمی کا ایمان بگاڑنا چاہتا ہے۔ دوسری حدیث میں دعا آئی ہے اعوذبک من ان یتخبطنی الشیطان عند الموت یعنی اے اللہ ! تیری پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ موت کے وقت مجھ کو شیطان گمراہ کردے۔