كِتَابُ تَفْسِيرِ القُرْآنِ 15سُورَةُ الحِجْرِقَوْلِهِ: {إِلَّا مَنِ اسْتَرَقَ السَّمْعَ فَأَتْبَعَهُ شِهَابٌ مُبِينٌ} صحيح حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَمْرٍو عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا قَضَى اللَّهُ الْأَمْرَ فِي السَّمَاءِ ضَرَبَتْ الْمَلَائِكَةُ بِأَجْنِحَتِهَا خُضْعَانًا لِقَوْلِهِ كَالسِّلْسِلَةِ عَلَى صَفْوَانٍ قَالَ عَلِيٌّ وَقَالَ غَيْرُهُ صَفْوَانٍ يَنْفُذُهُمْ ذَلِكَ فَإِذَا فُزِّعَ عَنْ قُلُوبِهِمْ قَالُوا مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ قَالُوا لِلَّذِي قَالَ الْحَقَّ وَهُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ فَيَسْمَعُهَا مُسْتَرِقُو السَّمْعِ وَمُسْتَرِقُو السَّمْعِ هَكَذَا وَاحِدٌ فَوْقَ آخَرَ وَوَصَفَ سُفْيَانُ بِيَدِهِ وَفَرَّجَ بَيْنَ أَصَابِعِ يَدِهِ الْيُمْنَى نَصَبَهَا بَعْضَهَا فَوْقَ بَعْضٍ فَرُبَّمَا أَدْرَكَ الشِّهَابُ الْمُسْتَمِعَ قَبْلَ أَنْ يَرْمِيَ بِهَا إِلَى صَاحِبِهِ فَيُحْرِقَهُ وَرُبَّمَا لَمْ يُدْرِكْهُ حَتَّى يَرْمِيَ بِهَا إِلَى الَّذِي يَلِيهِ إِلَى الَّذِي هُوَ أَسْفَلَ مِنْهُ حَتَّى يُلْقُوهَا إِلَى الْأَرْضِ وَرُبَّمَا قَالَ سُفْيَانُ حَتَّى تَنْتَهِيَ إِلَى الْأَرْضِ فَتُلْقَى عَلَى فَمْ السَّاحِرِ فَيَكْذِبُ مَعَهَا مِائَةَ كَذْبَةٍ فَيُصَدَّقُ فَيَقُولُونَ أَلَمْ يُخْبِرْنَا يَوْمَ كَذَا وَكَذَا يَكُونُ كَذَا وَكَذَا فَوَجَدْنَاهُ حَقًّا لِلْكَلِمَةِ الَّتِي سُمِعَتْ مِنْ السَّمَاءِ
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
باب: 15سورۃ الحجر کی تفسیر آیت (( الا من استرق السمع....الایۃ )) کی تفسیر
ہم سے علی بن عبد اللہ مدینی نے بیان کیا ، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا ، ان سے عمرو بن دینار نے ، ان سے عکرمہ نے اور ان سے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ آپ نے فرمایا جب اللہ تعالیٰ آسمان میں کوئی فیصلہ فرماتا ہے تو ملا ئکہ عاجزی سے اپنے پر مانے لگتے ہیں ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد میں ہے کہ جیسے کسی صاف چکنے پتھر پر زنجیر کے ( مارنے سے آواز پیدا ہوتی ہے ) اور علی بن عبداللہ المدینی نے بیان کیا کہ سفیان بن عیینہ کے سوا اور راویوں نے صفوان کے بعد ینفدھم ذلک ( جس سے ان پر دہشت طاری ہوتی ہے ) کے الفاظ کہے ہیں ۔ پھر اللہ پاک اپنا حکم فرشتوں تک پہنچا دیتا ہے ، جب ان کے دلوں پر سے ڈر جاتا رہتا ہے تو دوسرے دور والے فرشتے نزدیک والے فرشتوں سے پوچھتے ہیں پروردگار نے کیا حکم صادر فرمایا ۔ نزدیک والے فرشتے کہتے ہیں بجا ارشاد فرمایا اور وہ اونچا ہے بڑا ۔ فرشتوں کی یہ باتیں چوری سے بات اڑانے والےشیطان پا لیتے ہیں ۔ یہ بات اڑانے والے شیطان اوپر تلے رہتے ہیں ( ایک پر ایک ) سفیان نے اپنے دائیں ہاتھ کی انگلیاں کھول کر ایک پر ایک کر کے بتلایا کہ اس طرح شیطان اوپر تلے رہ کر وہاں جاتے ہیں ۔ پھر بھی کبھی ایسا ہوتا ہے ۔ فرشتے خبر پا کر آگ کا شعلہ پھینکتے ہیں وہ بات سننے والے کو اس سے پہلے جلا ڈالتا ہے کہ وہ اپنے پیچھے والے کو وہ بات پہنچادے ۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ وہ شعلہ اس تک نہیں پہنچتا اور وہ اپنے نیچے والے شیطان کو وہ بات پہنچا دیتا ہے ، وہ اس سے نیچے والے کو اس طرح وہ بات زمین تک پہنچا دیتے ہیں ۔ یہاں تک کہ زمین تک آ پہنچتی ہے ( کبھی سفیان نے یوں کہا ) پھر وہ بات نجومی کے منہ پر ڈالی جاتی ہے ۔ وہ ایک بات میں سو باتیں جھوٹ اپنی طرف سے ملا کر لوگوں سے بیان کرتا ہے ۔ کوئی کوئی بات اس کی سچ نکلتی ہے تو لوگ کہنے لگتے ہیں دیکھو اس نجومی نے فلاں دن ہم کو یہ خبر دی تھی کہ آئندہ ایسا ایسا ہوگا اور ویسا ہی ہوا ۔ اس کی بات سچ نکلی ۔ یہ وہ با ت ہوتی ہے جو آسمان سے چرائی گئی تھی ۔
تشریح :
فرشتوں کے پر مارنے کا مطلب یہ کہ اپنی اطاعت اور تابعداری ظاہر کرتے ہیں ڈر جاتے ہیں۔ زنجیر جیسی آواز کے متعلق ابن مردویہ کی روایت میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے اس کی صراحت ہے کہ جب اللہ پاک وحی بھیجنے کے لئے کلام کرتا ہے تو آسمان والے فرشتے ایسی آواز سنتے ہیں جیسے زنجیر پتھر پر چلے۔ جب فرشتوں کے دلوں سے خوف ہٹ جاتا ہے تو آپس میں اس ارشاد کا تذکرہ کرتے ہیں۔ طبرانی کی روایت میں یوں ہے جب اللہ وحی بھیجنے کے لئے کلام کرتا ہے تو آسمان لرزجاتا ہے اور آسمان والے اس کا کلام سنتے ہی بے ہوش ہوجاتے ہیں اور سجدے میں گر پڑتے ہیں۔ سب سے پہلے جبرائیل سر اٹھاتے ہیں۔ پروردگار جو چاہتا ہے وہ ان سے ارشاد فرماتا ہے۔ وہ حق تعالیٰ کا کلام سن کر اپنے مقام پر چلتے ہیں۔ جہاں جاتے ہیں فرشتے ان سے پوچھتے ہیں حق تعالیٰ نے کیا فرمایا وہ کہتے ہیں کہ الحق وھو العلی الکبیر ( سبا: 23 ) ان حدیثوں سے پچھلے متکلمین کے تمام خیالات باطلہ رد ہوجاتے ہیں کہ اللہ کا کلام قدیم ہے اور وہ نفس ہے اور اس کے کلام میں آواز نہیں ہے۔ معلوم نہیں یہ ڈھونگ ان لوگوں نے کہاں سے نکالا ہے۔ شریعت سے تو صاف ثابت ہے کہ اللہ پاک جب چاہتا ہے کلام کرتا ہے اس کی آواز آسمان والے فرشتے سنتے ہیں اور اس کی عظمت سے لرز کر سجدے میں گر جاتے ہیں ۔ سند میں حضرت علی بن عبد اللہ بن جعفر حافظ الحدیث ہیں۔ ان کے استاد ابن المہدی نے فر مایا کہ ابن المدینی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کو سب سے زیادہ جانتے ہیں۔ امام نسائی نے فرمایا کہ ابن المدینی کی پیدائش ہی اس خدمت کے لئے ہوئی تھی۔ ماہ ذی قعدہ 234ھ بعمر 73سال انتقال فرمایا۔ اسی طرح دوسرے بزرگ حضرت سفیان بن عیینہ حجۃ فی الحدیث، زاہد، متورع تھے۔ 107ھ میں کوفہ میں ان کی ولادت ہوئی 198ھ میں مکہ میں ان کا انتقال ہوا۔ رحمہم اللہ اجمعین۔
فرشتوں کے پر مارنے کا مطلب یہ کہ اپنی اطاعت اور تابعداری ظاہر کرتے ہیں ڈر جاتے ہیں۔ زنجیر جیسی آواز کے متعلق ابن مردویہ کی روایت میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے اس کی صراحت ہے کہ جب اللہ پاک وحی بھیجنے کے لئے کلام کرتا ہے تو آسمان والے فرشتے ایسی آواز سنتے ہیں جیسے زنجیر پتھر پر چلے۔ جب فرشتوں کے دلوں سے خوف ہٹ جاتا ہے تو آپس میں اس ارشاد کا تذکرہ کرتے ہیں۔ طبرانی کی روایت میں یوں ہے جب اللہ وحی بھیجنے کے لئے کلام کرتا ہے تو آسمان لرزجاتا ہے اور آسمان والے اس کا کلام سنتے ہی بے ہوش ہوجاتے ہیں اور سجدے میں گر پڑتے ہیں۔ سب سے پہلے جبرائیل سر اٹھاتے ہیں۔ پروردگار جو چاہتا ہے وہ ان سے ارشاد فرماتا ہے۔ وہ حق تعالیٰ کا کلام سن کر اپنے مقام پر چلتے ہیں۔ جہاں جاتے ہیں فرشتے ان سے پوچھتے ہیں حق تعالیٰ نے کیا فرمایا وہ کہتے ہیں کہ الحق وھو العلی الکبیر ( سبا: 23 ) ان حدیثوں سے پچھلے متکلمین کے تمام خیالات باطلہ رد ہوجاتے ہیں کہ اللہ کا کلام قدیم ہے اور وہ نفس ہے اور اس کے کلام میں آواز نہیں ہے۔ معلوم نہیں یہ ڈھونگ ان لوگوں نے کہاں سے نکالا ہے۔ شریعت سے تو صاف ثابت ہے کہ اللہ پاک جب چاہتا ہے کلام کرتا ہے اس کی آواز آسمان والے فرشتے سنتے ہیں اور اس کی عظمت سے لرز کر سجدے میں گر جاتے ہیں ۔ سند میں حضرت علی بن عبد اللہ بن جعفر حافظ الحدیث ہیں۔ ان کے استاد ابن المہدی نے فر مایا کہ ابن المدینی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کو سب سے زیادہ جانتے ہیں۔ امام نسائی نے فرمایا کہ ابن المدینی کی پیدائش ہی اس خدمت کے لئے ہوئی تھی۔ ماہ ذی قعدہ 234ھ بعمر 73سال انتقال فرمایا۔ اسی طرح دوسرے بزرگ حضرت سفیان بن عیینہ حجۃ فی الحدیث، زاہد، متورع تھے۔ 107ھ میں کوفہ میں ان کی ولادت ہوئی 198ھ میں مکہ میں ان کا انتقال ہوا۔ رحمہم اللہ اجمعین۔