كِتَابُ تَفْسِيرِ القُرْآنِ بَابٌ: 14)سُورَةُ إِبْرَاهِيمَ قَوْلِهِ: (كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ أَصْلُهَا ثَابِتٌ وَفَرْعُهَا فِي السَّمَاءِ تُؤْتِي أُكْلَهَا كُلَّ حِينٍ) صحيح حَدَّثَنِي عُبَيْدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ عَنْ أَبِي أُسَامَةَ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ كُنَّا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَخْبِرُونِي بِشَجَرَةٍ تُشْبِهُ أَوْ كَالرَّجُلِ الْمُسْلِمِ لَا يَتَحَاتُّ وَرَقُهَا وَلَا وَلَا وَلَا تُؤْتِي أُكْلَهَا كُلَّ حِينٍ قَالَ ابْنُ عُمَرَ فَوَقَعَ فِي نَفْسِي أَنَّهَا النَّخْلَةُ وَرَأَيْتُ أَبَا بَكْرٍ وَعُمَرَ لَا يَتَكَلَّمَانِ فَكَرِهْتُ أَنْ أَتَكَلَّمَ فَلَمَّا لَمْ يَقُولُوا شَيْئًا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هِيَ النَّخْلَةُ فَلَمَّا قُمْنَا قُلْتُ لِعُمَرَ يَا أَبَتَاهُ وَاللَّهِ لَقَدْ كَانَ وَقَعَ فِي نَفْسِي أَنَّهَا النَّخْلَةُ فَقَالَ مَا مَنَعَكَ أَنْ تَكَلَّمَ قَالَ لَمْ أَرَكُمْ تَكَلَّمُونَ فَكَرِهْتُ أَنْ أَتَكَلَّمَ أَوْ أَقُولَ شَيْئًا قَالَ عُمَرُ لَأَنْ تَكُونَ قُلْتَهَا أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ كَذَا وَكَذَا
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
باب: سورۃ ابراہیم کی تفسیر آیت (( کشجرۃ طیبۃ اصلھا ثابت ....الایۃ )) کی تفسیر
مجھ سے عبید بن اسماعیل نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابو سامہ نے ، ان سے عبید اللہ نے ، ان سے نافع نے اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے ، آپ نے دریافت فرمایا اچھا مجھ کو بتلاؤ تو وہ کونسا درخت ہے جو مسلمان کی مانند ہے جس کے پتے نہیں گرتے ، ہر وقت میوہ دے جاتا ہے ۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں میرے دل میںآیا وہ کھجور کا درخت ہے مگر میں نے دیکھا کہ حضرت ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما بیٹھے ہوئے ہیں انہوں نے جواب نہیں دیا تو مجھ کو ان بزرگوں کے سامنے کلام کرنا اچھا معلوم نہیں ہوا ۔ جب ان لوگوں نے کچھ جواب نہیں دیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ہی فرمایا وہ کھجور کا درخت ہے ۔ جب ہم اس مجلس سے کھڑے ہوئے تو میں نے اپنے والد حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے عرض کیا ۔ باوا ! اللہ کی قسم میرے دل میں آیا تھا کہ میں کہہ دوں وہ کھجور کا درخت ہے ۔ انہوں نے کہا پھر تو نے کہہ کیوں نہ دیا ۔ میں نے کہا آپ لوگوں نے کوئی بات نہیں کی میں نے آگے بڑھ کر بات کرنا مناسب نہ جانا ۔ انہوں نے کہا واہ اگر تو اس وقت کہہ دیتا تو مجھ کو اتنے اتنے ( لال لال اونٹ کا ) مال ملنے سے بھی زیادہ خوشی ہوتی ۔
تشریح :
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس درخت کی تین صفتیں اشاروں میں بیان فرمائیں جو یہ تھیں کہ اس کا میوہ کبھی ختم نہیں ہوتا، اس کا سایہ کبھی نہیں مٹتا ، اس کا فائدہ کسی بھی حالت میں معدوم نہیں ہوتا۔ اس حدیث کے اس باب میں لانے سے حضرت امام بخاری کی یہ غرض ہے کہ اس آیت میں شجرہ طیبہ سے کھجور کا درخت مراد ہے۔ ناپاک درخت سے اندر ائن کا درخت مراد ہے ناپاک کا مطلب یہ ہے کہ وہ کڑوا کسیلا ہے ۔ ناپاک کے معنی یہاں گندہ نجس نہیں ہے۔ ویسے اندرائن کا پھل بہت سے امراض کے لئے اکسیر ہے۔ ھو الذی خلق لکم ما فی الارض جمیعا ( البقرۃ: 29 )
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس درخت کی تین صفتیں اشاروں میں بیان فرمائیں جو یہ تھیں کہ اس کا میوہ کبھی ختم نہیں ہوتا، اس کا سایہ کبھی نہیں مٹتا ، اس کا فائدہ کسی بھی حالت میں معدوم نہیں ہوتا۔ اس حدیث کے اس باب میں لانے سے حضرت امام بخاری کی یہ غرض ہے کہ اس آیت میں شجرہ طیبہ سے کھجور کا درخت مراد ہے۔ ناپاک درخت سے اندر ائن کا درخت مراد ہے ناپاک کا مطلب یہ ہے کہ وہ کڑوا کسیلا ہے ۔ ناپاک کے معنی یہاں گندہ نجس نہیں ہے۔ ویسے اندرائن کا پھل بہت سے امراض کے لئے اکسیر ہے۔ ھو الذی خلق لکم ما فی الارض جمیعا ( البقرۃ: 29 )