‌صحيح البخاري - حدیث 4684

كِتَابُ تَفْسِيرِ القُرْآنِ بَابُ قَوْلِهِ: {وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى المَاءِ} صحيح حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ حَدَّثَنَا أَبُو الزِّنَادِ عَنْ الْأَعْرَجِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ أَنْفِقْ أُنْفِقْ عَلَيْكَ وَقَالَ يَدُ اللَّهِ مَلْأَى لَا تَغِيضُهَا نَفَقَةٌ سَحَّاءُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ وَقَالَ أَرَأَيْتُمْ مَا أَنْفَقَ مُنْذُ خَلَقَ السَّمَاءَ وَالْأَرْضَ فَإِنَّهُ لَمْ يَغِضْ مَا فِي يَدِهِ وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ وَبِيَدِهِ الْمِيزَانُ يَخْفِضُ وَيَرْفَعُ اعْتَرَاكَ افْتَعَلَكَ مِنْ عَرَوْتُهُ أَيْ أَصَبْتُهُ وَمِنْهُ يَعْرُوهُ وَاعْتَرَانِي آخِذٌ بِنَاصِيَتِهَا أَيْ فِي مِلْكِهِ وَسُلْطَانِهِ عَنِيدٌ وَعَنُودٌ وَعَانِدٌ وَاحِدٌ هُوَ تَأْكِيدُ التَّجَبُّرِ اسْتَعْمَرَكُمْ جَعَلَكُمْ عُمَّارًا أَعْمَرْتُهُ الدَّارَ فَهِيَ عُمْرَى جَعَلْتُهَا لَهُ نَكِرَهُمْ وَأَنْكَرَهُمْ وَاسْتَنْكَرَهُمْ وَاحِدٌ حَمِيدٌ مَجِيدٌ كَأَنَّهُ فَعِيلٌ مِنْ مَاجِدٍ مَحْمُودٌ مِنْ حَمِدَ سِجِّيلٌ الشَّدِيدُ الْكَبِيرُ سِجِّيلٌ وَسِجِّينٌ وَاللَّامُ وَالنُّونُ أُخْتَانِ وَقَالَ تَمِيمُ بْنُ مُقْبِلٍ وَرَجْلَةٍ يَضْرِبُونَ الْبَيْضَ ضَاحِيَةً ضَرْبًا تَوَاصَى بِهِ الْأَبْطَالُ سِجِّينَا

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 4684

کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں باب: ( وکان عرشہ علی الماء....الایۃ )) کی تفسیر ہم سے ابو الیمان نے بیان کیا ، انہوں نے کہا ہم کو شعیب نے خبر دی ، کہا ہم سے ابو الزناد نے بیان کیا ۔ ان سے اعرج نے اور ان سے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بندو ! ( میری راہ میں ) خرچ کرو تو میں بھی تم پر خرچ کروںگا اور فرمایا ، اللہ کا ہاتھ بھرا ہوا ہے ۔ رات اور دن مسلسل کے خرچ سے بھی اس میں کم نہیں ہوتا اور فرمایا تم نے دیکھا نہیں جب سے اللہ نے آسمان و زمین کو پیدا کیا ہے ، مسلسل خرچ کئے جا رہا ہے لیکن اس کے ہاتھ میں کوئی کمی نہیں ہوئی ، اس کا عرش پانی پر تھا اور اس کے ہاتھ میں میزان عدل ہے جسے وہ جھکاتا اور اٹھاتا رہتا ہے ۔ اعتراک باب افتعال سے ہے عروتہ سے یعنی میں نے اس کو پکڑپایا اسی سے ہے ۔ یعروہ مضارع کا صیغہ اور اعترانی اخذ بنا صیتھا یعنی اس کی حکومت اور قبضہ قدرت میں ہیں عنید اور عنود اور عاند سب کے معنی ایک ہی ہیں یعنی سر کش مخالف اور یہ جبار کی تاکید ہے ۔ استعمرکم تم کو بسایا آباد کیا ۔ عرب لوگ کہتے ہیں ۔ اعمرتہ الدار فھی عمری ۔ یعنی یہ گھر میں نے اس کو عمر بھر کے لئے دے ڈالا ۔ نکرھم اور انکرھم اور استنکرھم سب کے ایک ہی معنی ہیں ۔ یعنی ان کو پر دیسی سمجھا ۔ حمید فعیل کے وزن پر ہے بہ معنی محمود میں سراہا گیا اور مجید ماجد کے معنی میں ہے ۔ ( یعنی کرم کرنے والا ) سجیل اور سجین دونوں کے معنی سخت اور بڑا کے ہیں ۔ لام اور نون بہنیں ہیں ( ایک دوسرے سے بدلی جاتی ہیں ) تمیم بن مقبل شاعر کہتا ہے ۔ بعضے پیدل دن دھاڑے خود پر ضرب لگاتے ہیں ایسی ضرب جس کی سختی کے لئے بڑے بڑے پہلوان اپنے شاگر دوں کو وصیت کیا کرتے ہیں ۔ والیٰ مدین یعنی مدین والوں کی طرف کیونکہ مدین ایک شہر کا نام ہے جسے دوسری جگہ فرمایا واسال القریۃ یعنی گاؤں والوں سے پوچھ واسال العیر یعنی قافلہ والوں سے پوچھ وراءکم ظھریا یعنی پس پشت ڈال دیا اس کی طرف التفات نہ کیا ۔ جب کوئی کسی کا مقصد پورا نہ کرے تو عرب لوگ کہتے ہیں ظھرت بحاجتی اور جعلتنی ظھریا اس جگہ ظھری کا معنی وہ جانور یا برتن ہے جس کو تو اپنے کام کے لئے ساتھ رکھے ۔ اراذلنا ہمارے میں سے کمینے لوگ اجرام اجرمت کا مصدر ہے یا جرمت ثلاثی مجرد فلک اور فلک جمع اور مفرد دونوں کے لئے آتا ہے ۔ ایک کشتی اور کئی کشتیوںکو بھی کہتے ہیں ۔ مجراھا کشتی کا چلنا یہ اجریت کا مصدر ہے ۔ اسی طرح مرساھا ارسیت کا مصدر ہے یعنی میں نے کشتی تھمالی ( لنگر کر دیا ) بعضوں نے مرساھا بفتح میم پڑھا ہے ، رست سے ۔ اسی طرح مجراھا بھی جرت سے ہے ۔ بعضوں نے مجریھا مرسیھا یعنی اللہ اس کو چلانے والا ہے اور وہی اس کا تھمانے والا ہے یہ معنوں میں مفعول کے ہیں ۔ الراسیات کے معنی جمی ہوئی کے ہیں ۔