كِتَابُ تَفْسِيرِ القُرْآنِ بَابُ قَوْلِهِ {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا، اتَّقُوا اللَّهَ وَكُونُوا مَعَ صحيح حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ قَالَ أَخْبَرَنِي ابْنُ السَّبَّاقِ أَنَّ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ الْأَنْصَارِيَّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَكَانَ مِمَّنْ يَكْتُبُ الْوَحْيَ قَالَ أَرْسَلَ إِلَيَّ أَبُو بَكْرٍ مَقْتَلَ أَهْلِ الْيَمَامَةِ وَعِنْدَهُ عُمَرُ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ إِنَّ عُمَرَ أَتَانِي فَقَالَ إِنَّ الْقَتْلَ قَدْ اسْتَحَرَّ يَوْمَ الْيَمَامَةِ بِالنَّاسِ وَإِنِّي أَخْشَى أَنْ يَسْتَحِرَّ الْقَتْلُ بِالْقُرَّاءِ فِي الْمَوَاطِنِ فَيَذْهَبَ كَثِيرٌ مِنْ الْقُرْآنِ إِلَّا أَنْ تَجْمَعُوهُ وَإِنِّي لَأَرَى أَنْ تَجْمَعَ الْقُرْآنَ قَالَ أَبُو بَكْرٍ قُلْتُ لِعُمَرَ كَيْفَ أَفْعَلُ شَيْئًا لَمْ يَفْعَلْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ عُمَرُ هُوَ وَاللَّهِ خَيْرٌ فَلَمْ يَزَلْ عُمَرُ يُرَاجِعُنِي فِيهِ حَتَّى شَرَحَ اللَّهُ لِذَلِكَ صَدْرِي وَرَأَيْتُ الَّذِي رَأَى عُمَرُ قَالَ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ وَعُمَرُ عِنْدَهُ جَالِسٌ لَا يَتَكَلَّمُ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ إِنَّكَ رَجُلٌ شَابٌّ عَاقِلٌ وَلَا نَتَّهِمُكَ كُنْتَ تَكْتُبُ الْوَحْيَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَتَبَّعْ الْقُرْآنَ فَاجْمَعْهُ فَوَاللَّهِ لَوْ كَلَّفَنِي نَقْلَ جَبَلٍ مِنْ الْجِبَالِ مَا كَانَ أَثْقَلَ عَلَيَّ مِمَّا أَمَرَنِي بِهِ مِنْ جَمْعِ الْقُرْآنِ قُلْتُ كَيْفَ تَفْعَلَانِ شَيْئًا لَمْ يَفْعَلْهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ هُوَ وَاللَّهِ خَيْرٌ فَلَمْ أَزَلْ أُرَاجِعُهُ حَتَّى شَرَحَ اللَّهُ صَدْرِي لِلَّذِي شَرَحَ اللَّهُ لَهُ صَدْرَ أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ فَقُمْتُ فَتَتَبَّعْتُ الْقُرْآنَ أَجْمَعُهُ مِنْ الرِّقَاعِ وَالْأَكْتَافِ وَالْعُسُبِ وَصُدُورِ الرِّجَالِ حَتَّى وَجَدْتُ مِنْ سُورَةِ التَّوْبَةِ آيَتَيْنِ مَعَ خُزَيْمَةَ الْأَنْصَارِيِّ لَمْ أَجِدْهُمَا مَعَ أَحَدٍ غَيْرِهِ لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ إِلَى آخِرِهِمَا وَكَانَتْ الصُّحُفُ الَّتِي جُمِعَ فِيهَا الْقُرْآنُ عِنْدَ أَبِي بَكْرٍ حَتَّى تَوَفَّاهُ اللَّهُ ثُمَّ عِنْدَ عُمَرَ حَتَّى تَوَفَّاهُ اللَّهُ ثُمَّ عِنْدَ حَفْصَةَ بِنْتِ عُمَرَ تَابَعَهُ عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ وَاللَّيْثُ عَنْ يُونُسَ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ وَقَالَ اللَّيْثُ حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ خَالِدٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ وَقَالَ مَعَ أَبِي خُزَيْمَةَ الْأَنْصَارِيِّ وَقَالَ مُوسَى عَنْ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَنَا ابْنُ شِهَابٍ مَعَ أَبِي خُزَيْمَةَ وَتَابَعَهُ يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ وَقَالَ أَبُو ثَابِتٍ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ وَقَالَ مَعَ خُزَيْمَةَ أَوْ أَبِي خُزَيْمَةَ
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں باب: آیت (( یا ایھا الذین آمنوا اتقوا اللہ.... )) کی تفسیر ہم سے ابو الیمان نے بیان کیا ، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی ، ان سے زہری نے بیان کیا ، کہا مجھے عبید اللہ بن سباق نے خبر دی اور ان سے زید بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ نے جو کاتب وحی تھے ، بیان کیا کہ جب ( ۱۱ھ ) میں یمامہ کی لڑائی میں ( جو مسلیمہ کذاب سے ہوئی تھی ) بہت سے صحابہ مارے گئے تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مجھے بلایا ، ان کے پاس حضرت عمرص بھی موجود تھے ، انہوں نے مجھ سے کہا ، عمر رضی اللہ عنہ میرے پاس آئے اور کہا کہ جنگ یمامہ میں بہت زیادہ مسلمان شہید ہو گئے ہیں اور مجھے خطرہ ہے کہ ( کفار کے ساتھ ) لڑائیوں میں یو نہی قرآن کے علماءاور قاری شہید ہوں گے اور اس طرح بہت سا قرآن ضائع ہو جائے گا ، اب تو ایک ہی صورت ہے کہ آپ قرآن کو ایک جگہ جمع کرادیں اور میری رائے تویہ ہے کہ آپ ضرور قرآن کو جمع کرادیں ۔ حضرت ابو بکر رص نے کہا کہ اس پر میں نے عمرص سے کہا ، ایسا کام میں کس طرح کر سکتا ہوں جو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا تھا ۔ حضرت عمرص نے کہا ، خدا کی قسم ! یہ تو محض ایک نیک کام ہے ۔ اس کے بعد عمر صمجھ سے اس معاملہ پر بات کرتے رہے اور آخر میں اللہ تعالیٰ نے اس خدمت کے لئے میرا بھی سینہ کھول دیا اور میری بھی رائے وہی ہو گئی جو عمرص کی تھی ۔ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ عمرص وہیں خاموش بیٹھے ہوئے تھے ۔ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا ، تم جو ان اور سمجھدار ہوہمیں تم پر کسی قسم کا شبہ بھی نہیں اور تم آنحضرت کی وحی لکھا بھی کر تے تھے ، اس لئے تم ہی قرآن مجید کو جابجا سے تلاش کر کے اسے جمع کردو ۔ خدا کی قسم کہ اگر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ مجھ سے کوئی پہاڑ اٹھاکے لے جانے کے لئے کہتے تو یہ میرے لئے اتنا بھاری نہیں تھا جتنا قرآن کی ترتیب کا حکم ۔ میں نے عرض کیا آپ لوگ ایک ایسے کام کے کرنے پر کس طرح آمادہ ہو گئے ، جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا تھا تو ابو بکر نے کہا کہ خدا کی قسم ! یہ ایک نیک کام ہے ۔ پھر میں ان سے اس مسئلہ پر گفتگو کرتا رہا ، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اس خدمت کے لیے میرا بھی سینہ کھول دیا ۔ جس طرح ابوبکر وعمررضی اللہ عنہما کا سینہ کھولا تھا ۔ چنانچہ میں اٹھا اور میں نے کھال ، ہڈی اور کھجور کی شاخوں سے ( جن پر قرآن مجید لکھا ہوا تھا ، اس دور کے رواج کے مطابق ) قرآن مجید کو جمع کرنا شروع کر دیا اور لوگوں کے ( جو قرآن کے حافظ تھے ) حافظہ سے بھی مدد لی اور سورۃ توبہ کی دو آیتیں خزیمہ انصاری کے پاس مجھے ملیں ۔ ان کے علاوہ کسی کے پاس مجھے نہیں ملی تھی ۔ ( وہ آیتیں یہ تھیں ) (( لقد جاءکم رسول من انفسکم عزیز علیہ ما عنتم حریص علیکم )) آخرتک ۔ پھر مصحف جس میں قرآن مجید جمع کیا گیا تھا ، ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس رہا ، آپ کی وفات کے بعد عمر کے پاس محفوظ رہا ، پھر آپ کی وفات کے بعد آپ کی صاحبزادی ( ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس محفوظ رہا ) شعیب کے ساتھ اس حدیث کو عثمان بن عمر اور لیث بن سعد نے بھی یونس سے ، انہوں نے ابن شہاب سے روایت کیا ، اور لیث نے کہا مجھ سے عبد الرحمن بن خالد نے بیان کیا ، انہوں نے ابن شہاب سے روایت کیا اس میں خزیمہ کے بدلے ابو خزیمہ انصاری ہے اور موسیٰ نے ابراہیم سے روایت کی ، کہا ہم سے ابن شہاب نے بیان کیا ، اس روایت میں بھی ابو خزیمہ ہے ۔ موسیٰ بن اسماعیل کے ساتھ اس حدیث کو یعقوب بن ابراہیم نے بھی اپنے والد ابراہیم بن سعد سے روایت کیا اور ابو ثابت محمد بن عبید اللہ مدنی نے ، کہا ہم سے ابراہیم نے بیان کیا اس روایت میں شک کے ساتھ خزیمہ یا ابو خزیمہ مذکور ہے ۔