‌صحيح البخاري - حدیث 4677

كِتَابُ تَفْسِيرِ القُرْآنِ بَابُ قَوْلِهِ {وَعَلَى الثَّلاَثَةِ الَّذِينَ خُلِّفُوا صحيح حَدَّثَنِي مُحَمَّدٌ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ ابْنُ أَبِي شُعَيْبٍ حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ أَعْيَنَ حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ رَاشِدٍ أَنَّ الزُّهْرِيَّ حَدَّثَهُ قَالَ أَخْبَرَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ سَمِعْتُ أَبِي كَعْبَ بْنَ مَالِكٍ وَهُوَ أَحَدُ الثَّلَاثَةِ الَّذِينَ تِيبَ عَلَيْهِمْ أَنَّهُ لَمْ يَتَخَلَّفْ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةٍ غَزَاهَا قَطُّ غَيْرَ غَزْوَتَيْنِ غَزْوَةِ الْعُسْرَةِ وَغَزْوَةِ بَدْرٍ قَالَ فَأَجْمَعْتُ صِدْقِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ضُحًى وَكَانَ قَلَّمَا يَقْدَمُ مِنْ سَفَرٍ سَافَرَهُ إِلَّا ضُحًى وَكَانَ يَبْدَأُ بِالْمَسْجِدِ فَيَرْكَعُ رَكْعَتَيْنِ وَنَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ كَلَامِي وَكَلَامِ صَاحِبَيَّ وَلَمْ يَنْهَ عَنْ كَلَامِ أَحَدٍ مِنْ الْمُتَخَلِّفِينَ غَيْرِنَا فَاجْتَنَبَ النَّاسُ كَلَامَنَا فَلَبِثْتُ كَذَلِكَ حَتَّى طَالَ عَلَيَّ الْأَمْرُ وَمَا مِنْ شَيْءٍ أَهَمُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَمُوتَ فَلَا يُصَلِّي عَلَيَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ يَمُوتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَكُونَ مِنْ النَّاسِ بِتِلْكَ الْمَنْزِلَةِ فَلَا يُكَلِّمُنِي أَحَدٌ مِنْهُمْ وَلَا يُصَلِّي وَلَا يُسَلِّمُ عَلَيَّ فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَوْبَتَنَا عَلَى نَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ بَقِيَ الثُّلُثُ الْآخِرُ مِنْ اللَّيْلِ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ أُمِّ سَلَمَةَ وَكَانَتْ أُمُّ سَلَمَةَ مُحْسِنَةً فِي شَأْنِي مَعْنِيَّةً فِي أَمْرِي فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا أُمَّ سَلَمَةَ تِيبَ عَلَى كَعْبٍ قَالَتْ أَفَلَا أُرْسِلُ إِلَيْهِ فَأُبَشِّرَهُ قَالَ إِذًا يَحْطِمَكُمْ النَّاسُ فَيَمْنَعُونَكُمْ النَّوْمَ سَائِرَ اللَّيْلَةِ حَتَّى إِذَا صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةَ الْفَجْرِ آذَنَ بِتَوْبَةِ اللَّهِ عَلَيْنَا وَكَانَ إِذَا اسْتَبْشَرَ اسْتَنَارَ وَجْهُهُ حَتَّى كَأَنَّهُ قِطْعَةٌ مِنْ الْقَمَرِ وَكُنَّا أَيُّهَا الثَّلَاثَةُ الَّذِينَ خُلِّفُوا عَنْ الْأَمْرِ الَّذِي قُبِلَ مِنْ هَؤُلَاءِ الَّذِينَ اعْتَذَرُوا حِينَ أَنْزَلَ اللَّهُ لَنَا التَّوْبَةَ فَلَمَّا ذُكِرَ الَّذِينَ كَذَبُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الْمُتَخَلِّفِينَ وَاعْتَذَرُوا بِالْبَاطِلِ ذُكِرُوا بِشَرِّ مَا ذُكِرَ بِهِ أَحَدٌ قَالَ اللَّهُ سُبْحَانَهُ يَعْتَذِرُونَ إِلَيْكُمْ إِذَا رَجَعْتُمْ إِلَيْهِمْ قُلْ لَا تَعْتَذِرُوا لَنْ نُؤْمِنَ لَكُمْ قَدْ نَبَّأَنَا اللَّهُ مِنْ أَخْبَارِكُمْ وَسَيَرَى اللَّهُ عَمَلَكُمْ وَرَسُولُهُ الْآيَةَ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 4677

کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں باب: آیت (وعلی الثلاثٔۃالذین خلفوا)الخ کی تفسیر مجھ سے محمد بن نصر نیشاپوری نے بیان کیا ، کہا ہم سے احمد بن ابی شعیب نے بیان کیا ، کہا ہم سے موسیٰ بن اعین نے بیان کیا ، کہا ہم سے اسحاق بن راشد نے بیان کیا ، ان سے زہری نے بیان کیا ، کہا کہ مجھے عبدالرحمن بن عبد اللہ بن کعب بن مالک نے خبر دی ، ان سے ان کے والد عبد اللہ نے بیان کیا کہ میں نے اپنے والد کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا ۔ وہ ان تین صحابہ میں سے تھے جن کی توبہ قبول کی گئی تھی ۔ انہوں نے بیان کیا کہ دو غزووں ، غزوہ عسرت ( یعنی غزوئہ تبوک ) اور غزوئہ بدر کے سوا اور کسی غزوے میں کبھی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جانے سے نہیں رکا تھا ۔ انہوں نے بیان کیا چاشت کے وقت جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ( غزوہ سے واپس تشریف لائے ) تو میں نے سچ بولنے کا پختہ ارادہ کر لیا اور آپ کا سفر سے واپس آنے میں معمول یہ تھا کہ چاشت کے وقت ہی آپ ( مدینہ ) پہنچتے تھے اور سب سے پہلے مسجد میں تشریف لے جاتے اور دو رکعت نماز پڑھتے ( بہر حال ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے اور میری طرح عذر بیان کرنے والے دو اور صحابہ سے دوسرے صحابہ کو بات چیت کرنے سے منع کردیا ۔ ہمارے علاوہ اور بھی بہت سے لوگ ( جو ظاہر میں مسلمان تھے ) اس غزوے میں شریک نہیں ہوئے لیکن آپ نے ان میں سے کسی سے بھی بات چیت کی ممانعت نہیں کی تھی ۔ چنانچہ لوگوں نے ہم سے بات چیت کرنا چھوڑ دیا ۔ میں اسی حالت میں ٹھہرا رہا ۔ معاملہ بہت طول پکڑ تا جارہا تھا ۔ ادھر میری نظر میں سب سے اہم معاملہ یہ تھا کہ اگر کہیں ( اس عرصہ میں ) میں مر گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ پر نماز جنازہ نہیں پڑھا ئیں گے یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو جائے تو افسوس لوگوں کا یہی طرز عمل میرے ساتھ پھر ہمیشہ کے لئے باقی رہ جائے گا ، نہ مجھ سے کوئی گفتگو کرے گا اور نہ مجھ پر نماز جنازہ پڑھے گا ۔ آخر اللہ تعالیٰ نے ہماری توبہ کی بشارت آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اس وقت نازل کی جب رات کا آخری تہائی حصہ باقی رہ گیا تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں تشریف رکھتے تھے ۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کا مجھ پر بڑا احسان وکرم تھا اور وہ میری مدد کیا کرتی تھیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ام سلمہ ! کعب کی توبہ قبول ہو گئی ۔ انہوں نے عرض کیا ۔ پھر میں ان کے یہاں کسی کو بھیج کر یہ خوشخبری نہ پہنچوادوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ خبر سنتے ہی لوگ جمع ہوجائیں گے اور ساری رات تمہیں سونے نہیں دیں گے ۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر کی نماز پڑھنے کے بعد بتایا کہ اللہ نے ہماری توبہ قبول کر لی ہے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ خوشخبری سنائی تو آپ کا چہرہ مبارک منور ہو گیا جیسے چاند کا ٹکڑا ہو اور ( غزوہ میں نہ شریک ہونے والے دوسرے لوگوں سے ) جنہوں نے معذرت کی تھی اور ان کی معذرت قبول بھی ہوگئی تھی ، ہم تین صحابہ کا معاملہ بالکل مختلف تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری توبہ قبول ہونے کے متعلق وحی نازل کی ، لیکن جب ان دوسرے غزوہ میں شریک نہ ہونے والے لوگوں کا ذکر کیا ، جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جھوٹ بولا تھا اور جھوٹی معذرت کی تھی تو اس درجہ برائی کے ساتھ کیا کہ کسی کا بھی اتنی برائی کے ساتھ ذکر نہ کیا ہوگا ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ لوگ تمہارے سب کے سامنے عذر پیش کریں گے ، جب تم ان کے پاس واپس جاؤ گے تو آپ کہہ دیں کہ بہانے نہ بناؤ ہم ہر گز تمہاری بات نہ مانیں گے ! بے شک ہم کو اللہ تمہاری خبر دے چکا ہے اور عنقریب اللہ اور اس کا رسول تمہارا عمل دیکھ لیں گے ۔ آخر آیت تک ۔