‌صحيح البخاري - حدیث 4676

كِتَابُ تَفْسِيرِ القُرْآنِ بَابُ قَوْلِهِ (لَقَدْ تَابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ وَالمُهَاجِرِينَ وَالأَنْصَارِ الَّذِينَ اتَّبَعُوهُ فِي سَاعَةِ العُسْرَةِ مِنْ بَعْدِ مَا كَادَ تَزِيغُ قُلُوبُ فَرِيقٍ مِنْهُمْ ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْ إِنَّهُ بِهِمْ رَءُوف صحيح حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ قَالَ حَدَّثَنِي ابْنُ وَهْبٍ قَالَ أَخْبَرَنِي يُونُسُ ح قَالَ أَحْمَدُ وَحَدَّثَنَا عَنْبَسَةُ حَدَّثَنَا يُونُسُ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ قَالَ أَخْبَرَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ كَعْبٍ وَكَانَ قَائِدَ كَعْبٍ مِنْ بَنِيهِ حِينَ عَمِيَ قَالَ سَمِعْتُ كَعْبَ بْنَ مَالِكٍ فِي حَدِيثِهِ وَعَلَى الثَّلَاثَةِ الَّذِينَ خُلِّفُوا قَالَ فِي آخِرِ حَدِيثِهِ إِنَّ مِنْ تَوْبَتِي أَنْ أَنْخَلِعَ مِنْ مَالِي صَدَقَةً إِلَى اللَّهِ وَإِلَى رَسُولِهِ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمْسِكْ بَعْضَ مَالِكَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكَ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 4676

کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں باب: آیت (( لقد تاب اللہ علی النبی والمھا جرین )) کی تفسیر ہم سے احمد بن صالح نے بیان کیا ، کہا کہ مجھ سے عبد اللہ بن وہب نے بیان کیا ، کہا کہ مجھے یونس نے خبر دی ( دوسری سند ) احمد بن صالح نے بیان کیا کہ ہم سے عنبسہ بن خالد نے بیان کیا ، کہا ہم سے یونس نے بیان کیا ، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا ، کہا مجھ کو عبدالرحمن بن کعب نے خبر دی ، کہا کہ مجھے عبد اللہ بن کعب نے خبر دی کہ ( ان کے والد ) حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ جب نابینا ہو گئے تو ان کے بیٹوں میں یہی ان کو راستے میں ساتھ لے کر چلتے ہیں ۔ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے حضرت کعب بن مالک سے ان کے واقعہ کے سلسلے میں سنا جس کے بارے میں آیت ” (( وعلی الثلاثۃ الذین خلفوا )) “ نازل ہوئی تھی ۔ آپ نے آخر میں ( آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ) عرض کیا تھا کہ اپنی توبہ کے قبول ہونے کی خوشی میں اپنا تمام مال اللہ اور اس کے رسول کے راستے میں خیرات کرتا ہوں لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں اپنا کچھ تھوڑا مال اپنے پاس ہی رہنے دو ۔ یہ تمہارے حق میں بھی بہتر ہے ۔
تشریح : معلوم ہوا کہ خیرات بھی وہی بہتر ہے جو طاقت کے موافق کی جائے۔ اگر کوئی محض خیرات کے نتیجہ میں خود بھوکا ننگا رہ جائے تو وہ خیرات عند اللہ بہتر نہیں ہے۔ معلوم ہوا کہ خیرات بھی وہی بہتر ہے جو طاقت کے موافق کی جائے۔ اگر کوئی محض خیرات کے نتیجہ میں خود بھوکا ننگا رہ جائے تو وہ خیرات عند اللہ بہتر نہیں ہے۔