كِتَابُ تَفْسِيرِ القُرْآنِ بَابُ قَوْلِهِ {ثَانِيَ اثْنَيْنِ إِذْ هُمَا فِي الغَارِ إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ: لاَ تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا} صحيح حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّهُ قَالَ حِينَ وَقَعَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ ابْنِ الزُّبَيْرِ قُلْتُ أَبُوهُ الزُّبَيْرُ وَأُمُّهُ أَسْمَاءُ وَخَالَتُهُ عَائِشَةُ وَجَدُّهُ أَبُو بَكْرٍ وَجَدَّتُهُ صَفِيَّةُ فَقُلْتُ لِسُفْيَانَ إِسْنَادُهُ فَقَالَ حَدَّثَنَا فَشَغَلَهُ إِنْسَانٌ وَلَمْ يَقُلْ ابْنُ جُرَيْجٍ
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
باب: آیت (( ثانی اثنین اذ ھما فی الغار.... )) کی تفسیر
ہم سے عبد اللہ بن محمد بن جعفی نے بیان کیا ، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا ، ان سے ابن جریج نے ، ان سے ابن ابی ملیکہ نے اور ان سے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ جب میرا عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے اختلاف ہو گیا تھا تو میں نے کہا کہ ان کے والد زبیر بن عوام تھے ، ان کی والدہ اسماءبنت ابو بکر تھیں ، ان کی خالہ عائشہ تھیں ۔ ان کے نانا ابو بکر رضی اللہ عنہ تھے اور ان کی دادی ( حضور اکرم کی پھوپھی ) صفیہ رضی اللہ عنہا تھیں ( عبد اللہ بن محمد نے بیان کیا کہ ) میں نے سفیان ( ابن عیینہ ) سے پوچھا کہ اس روایت کی سند کیا ہے ؟ تو انہوں نے کہنا شروع کیا حدثنا ( ہم سے حدیث بیان کی ) لیکن ابھی اتنا ہی کہنے پائے تھے کہ انہیں ایک دوسرے شخص نے دوسری باتوں میں لگادیا اور ( راوی کا نام ) ابن جریج وہ نہ بیان کر سکے ۔
تشریح :
اس صورت میں یہ احتمال تھا کہ شاید سفیان نے یہ حدیث خود ابن جریج سے بلا واسطہ نہ سنی ہو۔ اسی لیے حضرت امام بخاری نے اس حدیث کو دوسرے طریق سے بھی ابن جریج سے نکالا۔
اس صورت میں یہ احتمال تھا کہ شاید سفیان نے یہ حدیث خود ابن جریج سے بلا واسطہ نہ سنی ہو۔ اسی لیے حضرت امام بخاری نے اس حدیث کو دوسرے طریق سے بھی ابن جریج سے نکالا۔