كِتَابُ تَفْسِيرِ القُرْآنِ بَابُ قَوْلِهِ {وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالفِضَّةَ وَلاَ يُنْفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ} [ صحيح حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ حُصَيْنٍ عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ قَالَ مَرَرْتُ عَلَى أَبِي ذَرٍّ بِالرَّبَذَةِ فَقُلْتُ مَا أَنْزَلَكَ بِهَذِهِ الْأَرْضِ قَالَ كُنَّا بِالشَّأْمِ فَقَرَأْتُ وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنْفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ قَالَ مُعَاوِيَةُ مَا هَذِهِ فِينَا مَا هَذِهِ إِلَّا فِي أَهْلِ الْكِتَابِ قَالَ قُلْتُ إِنَّهَا لَفِينَا وَفِيهِمْ
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
باب: آیت (( والذین یکنزون الذھب والفضۃ.... )) کی تفسیر
ہم سے قتیبہ بن سعد نے بیان کیا ، کہا ہم سے جریر نے بیان کیا ، ان سے حصین نے ، ان سے زید بن وہب نے بیان کیا کہ میں مقام ربذہ میں ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ اس جنگل میں آپ نے کیوں قیام کو پسند کیا ؟ فرمایا کہ ہم شام میں تھے ۔ ( مجھ میں اور وہاں کے حاکم معاویہ رضی اللہ عنہ میں اختلاف ہو گیا ) میں نے یہ آیت پڑھی اور جو لوگ سونا اور چاندی جمع کر کے رکھتے ہیں اور اس کو خرچ نہیں کرتے اللہ کی راہ میں ، آپ انہیں ایک دردناک عذاب کی خبر سنا دیں تو معاویہ رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ یہ آیت ہم مسلمانوں کے بارے میں نہیں ہے ( جب وہ زکوٰۃ دیتے رہیں ) بلکہ اہل کتاب کے بارے میں ہے ، فرمایا کہ میں نے اس پر کہا کہ یہ ہمارے بارے میں بھی ہے اور اہل کتاب کے بارے میں بھی ہے ۔
تشریح :
بس اس مسئلہ پر مجھ سے امیر معاویہ کی تکرار ہو گئی۔ معاویہ نے میری شکایت حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو لکھی۔ انہوں نے مجھ کو شام سے یہاں بلالیا۔ میں مدینہ آگیا وہاں بھی بہت لوگ میرے پاس اکٹھے ہو گئے۔ میں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے اس کا ذکر کیا انہوں نے کہا کہ تم چاہو تو یہیں الگ جاکر رہو اس وجہ سے میں یہاں جنگل میں آکر رہ گیا ہوں۔ حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ بہت بڑے زاہد تارک الدنیا بزرگ تھے۔ اس لئے ان کی دوسرے لوگوں سے کم بنتی تھی۔ آخر وہ خلوت پسند ہو گئے اور اسی خلوت میں ان کی وفات ہو گئی۔
بس اس مسئلہ پر مجھ سے امیر معاویہ کی تکرار ہو گئی۔ معاویہ نے میری شکایت حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو لکھی۔ انہوں نے مجھ کو شام سے یہاں بلالیا۔ میں مدینہ آگیا وہاں بھی بہت لوگ میرے پاس اکٹھے ہو گئے۔ میں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے اس کا ذکر کیا انہوں نے کہا کہ تم چاہو تو یہیں الگ جاکر رہو اس وجہ سے میں یہاں جنگل میں آکر رہ گیا ہوں۔ حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ بہت بڑے زاہد تارک الدنیا بزرگ تھے۔ اس لئے ان کی دوسرے لوگوں سے کم بنتی تھی۔ آخر وہ خلوت پسند ہو گئے اور اسی خلوت میں ان کی وفات ہو گئی۔