كِتَابُ تَفْسِيرِ القُرْآنِ بَابُ قَوْلِهِ: {وَأَذَانٌ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ إِلَى النَّاسِ يَوْمَ الحَجِّ الأَكْبَرِ أَنَّ اللَّهَ بَرِيءٌ مِنَ المُشْرِكِينَ وَرَسُولُهُ، فَإِنْ تُبْتُمْ فَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ صحيح حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ قَالَ ابْنُ شِهَابٍ فَأَخْبَرَنِي حُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ قَالَ بَعَثَنِي أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فِي تِلْكَ الْحَجَّةِ فِي الْمُؤَذِّنِينَ بَعَثَهُمْ يَوْمَ النَّحْرِ يُؤَذِّنُونَ بِمِنًى أَنْ لَا يَحُجَّ بَعْدَ الْعَامِ مُشْرِكٌ وَلَا يَطُوفَ بِالْبَيْتِ عُرْيَانٌ قَالَ حُمَيْدٌ ثُمَّ أَرْدَفَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ فَأَمَرَهُ أَنْ يُؤَذِّنَ بِبَرَاءَةَ قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ فَأَذَّنَ مَعَنَا عَلِيٌّ فِي أَهْلِ مِنًى يَوْمَ النَّحْرِ بِبَرَاءَةَ وَأَنْ لَا يَحُجَّ بَعْدَ الْعَامِ مُشْرِكٌ وَلَا يَطُوفَ بِالْبَيْتِ عُرْيَانٌ
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
باب: آیت (( واذان من اللہ ورسولہ.... )) کی تفسیر
ہم سے عبد اللہ بن یوسف تنےسی نے بیان کیا ، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا ، کہا مجھ سے عقیل نے بیان کیا ، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا ، کہا مجھ کو حمید بن عبد الرحمن نے خبر دی کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا ، حضرت ابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ نے حج کے موقع پر ( جس کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں امیر بنایا تھا ) مجھ کو ان اعلان کرنے والوں میں رکھا تھا جنہیں آپ نے یوم نحر میں بھیجا تھا منیٰ میں یہ اعلان کرنے کے لئے کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج کرنے نہ آئے اور نہ کوئی شخص بیت اللہ کا طواف ننگا ہو کر کرے ۔ حمید نے کہا کہ پھر پیچھے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھیجا اور انہیں حکم دیا کہ سورۃ برات کا اعلان کردیں ۔ حضرت ابو ہریرہ نے کہا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ہمارے ساتھ منیٰ کے میدان میں دسویں تاریخ میں سورۃ برات کا اعلان کیا اور یہ کہ کوئی مشرک آئندہ سال سے حج کرنے نہ آئے اور نہ کوئی بیت اللہ کا طواف ننگا ہو کر کرے ۔
تشریح :
مشرکین عرب میں ایک تصور یہ بھی تھا کہ ان کے کپڑے بہر حال گندے ہیں۔ لہٰذا وہ حج اور طواف کے لئے یا تو قریش مکہ کا لباس عاریتاً حاصل کریں اگر یہ نہ مل سکے تو پھر طواف بالکل ننگے ہو کر کیا جائے۔ اسی رسم بد کے خلاف یہ اعلان کیا گیا۔
مشرکین عرب میں ایک تصور یہ بھی تھا کہ ان کے کپڑے بہر حال گندے ہیں۔ لہٰذا وہ حج اور طواف کے لئے یا تو قریش مکہ کا لباس عاریتاً حاصل کریں اگر یہ نہ مل سکے تو پھر طواف بالکل ننگے ہو کر کیا جائے۔ اسی رسم بد کے خلاف یہ اعلان کیا گیا۔